Updated: May 17, 2023, 10:01 AM IST
| ahmednager
مقامی کاروباریوں کابے جاگرفتاریوں کے خلاف بے مدت بند کا اعلان۔ پولیس کی مسلم نمائندوں سے ملاقات اور بند کو ختم کروانے کی کوشش، مسلمانوں کی جانب سے پولیس حکام کو میمورنڈم، جلوس کے دوران تلوارلہرانے اور اشتعال انگیز نعرے لگانے والے شرپسندوںکی گرفتاری کا مطالبہ
بعض علاقوں میں دفعہ ۱۴۴؍ اب بھی نافذ، کچھ علاقوں میں رات کو گھر سے نکلنا بھی ممنوع۔ پولیس ان مسلم سماجی کارکنان کو بھی گرفتار کر رہی ہے جو صرف اشتعال انگیزی کے خلاف شکایت درج کروانے گئے تھے
مسلم نمائندے پولیس کو میمورنڈم دیتے ہوئے ( تصویر: انقلاب)
گزشتہ دنوں احمد نگر کے شیوگائوں میں نکالی گئی شوبھایاتراکے دوران پھوٹ پڑے تشدد کے معاملے میںپولیس تیز رفتاری سے تفتیش کر رہی ہے۔حالات تیزی سے معمول پر آ رہے ہیں۔علاقے میں امن وامان قائم ہوچکا ہے۔ حساس بستیوں اور مشترکہ آبادی والے علاقوں میں ’اسٹیٹ ریزروپولیس فورس‘کی ٹکڑیاں تعینات کر دی گئی ہیں۔مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کے اطراف بھی حفاظتی انتظامات پختہ کئے گئے ہیں۔
انقلاب سے گفتگو کے دوران شیوگائوںکے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سندیپ مِٹکے نے کہا کہ ’’پولیس کارروائی کے دوران ۳۲؍افراد کو حراست میں لیکر انہیں عدلیہ میں پیش کیا گیا تھا۔ عدالتی کارروائی کی تکمیل کیساتھ ہی ملزمین کو۱۹؍مئی تک یعنی اگلے ۴؍دنوں تک پولیس تحویل میں رکھنے کا حکم ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیوگائوں میں حالات پُرامن ہوچکے ہیں۔پولیس کی کارروائی کو موضوع بناکر بے مدت بند کے اقدام کو حکمت عملی سے موخر کروانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ مِٹکے نے کہا کہ ’’امن وامان کے قیام کیلئے ہمیں سنجیدہ اور ذمہ دار مقامی افراد کا تعاؤن مل رہاہے ۔متاثرہ علاقے میں سرکردہ افراد سے پولیس رابطہ بنائے ہوئے ہے۔ہماری کوشش ہیکہ لاء اینڈ آرڈرکی صورتحال پوری طرح برقرار رہے۔‘‘
بے جا گرفتاریوں کے خلاف بے مدت بند
شیوگائوں کے دکانداروں نے پولیس کی جانب سے بے جا گرفتاریوں کےخلاف بے مدت بند کا اعلان کیا ہے۔بیوپاری ایسوسی ایشن کی جانب سے بلائی گئی میٹنگ میں یہ کہاگیا کہ سرعام تلواریںاور چاقو لہراکرحالات کشیدہ کئے گئے ۔ پولیس شفاف کارروائی کرے اور اصل خاطیوں کو گرفتار کرے۔امن وامان کی صورتحال نازک ہونے سے تاجراور بیوپاری پیشہ افراد گھبرائے ہوئے ہیں۔اس طبقے میں اعتماد بحال کرنے کیلئے بے مدت بند کا فیصلہ ہوا ہے۔ادھر وہ ملزمین جنہیںعدالت نے پولیس تحویل میں رکھنے کے احکامات دئے ہیں،عدالتی کارروائی پوری ہونے کے بعد جب پولیس وین میں بِٹھائے گئے تو میڈیا کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ’’ ہمیں پوچھ تاچھ کے بہانے پولیس تھانے میں بلایا گیا تھا۔ہمارے اوپر جھوٹے مقدمات دائر کئے گئے اورہمیں عدالت میں بطور ملزم پیش کیاگیا۔‘‘
شیوگائوں مسلم سماج کی طرف سے میمورنڈم
شیوگائوں میں مسلمانوں کی تمام برادریوں کی جانب سے پولیس افسران کو میمورنڈم پیش کرتے ہوئے معاملے کی غیر جانبدارانہ کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔حافظ مشتاق عبدالقادر باغبان نے انقلاب کو بتایا کہ ۱۶؍مئی کی صبح ۱۱؍ بجے مسلمانوں کے وفد سے اعلیٰ پولیس افسران نے ملاقات کی اور قیام امن کی درخواست کی جسے مسلم سماج نے قبول کیا۔اس موقع پر حافظ عابد ، فیروز بھائی ،سمیر بھائی ،شفیق منصوری ،یوسف نائیک واڑی اور سیم نائیک واڑی نے پولیس افسران کو مطالباتی مکتوب کے ساتھ اہم باتوں پرتوجہ مبذول کروائی ۔
بی جے پی لیڈران کا متعصبانہ کردار
احمد نگر ضلع کے رابطہ وزیر وصوبائی کابینہ میں وزیرمحصول رادھا کرشن وِکھے پاٹل اور شیوگائوں کی رکن اسمبلی مونیکا راجڑے نے متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے میں بھی حددرجہ تعصب کا مظاہرہ کیا۔ مقامی افراد نے بتایا کہ دونوں لیڈران نے صرف اکثریتی فرقے کی املاک اور دکانوں وغیرہ کے نقصانات کا جائزہ لیتے ہوئے سرکاری انتظامیہ کو پنچ نامہ ودیگر کارروائی کیلئے پابند کیا ۔ اقلیتی فرقے کی دکانیں اور املاک بھی جلائی گئیں لیکن بی جے پی سے تعلق رکھنے والے رابطہ وزیر اور ایم ایل اے نے جھانکناتک گوارا نہیں کیا۔
سنیچر کو ہوئے تشدد کے بعد اکولہ شہر کے حالات معمول پر آ رہے ہیں۔شہر کے سٹی کوتوالی اور رام داس پیٹھ تھانوں کے علاقے میں دفعہ ۱۴۴؍ نافذ ہے جبکہ جونا شہر اور ڈابکی روڈ تھانہ علاقوں میں دن کے وقت یہ پابندی ہے لیکن رات ۸؍ سے صبح ۸؍ بجے تک باہر نکلنے بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔
اطلاع کے مطابق تشدد کے معاملے میں ۶؍ معاملات درج کئے گئے ہیں اور ۱۰۰؍سے زائد افرادکو گرفتار کیا گیا ہے جس میں اقلیتی فرقہ کی اکثریت ہے۔ پولیس کے مطابق ۳۰۰؍ سے زائد ملزمین کے خلاف مختلف دفعات کے تحت جرائم کا اندراج کیا گیا ہے۔ الزام ہے کہ اب تک سب سے زیادہ مسلم علاقوں سے گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ اطلاع کے مطابق پولیس اقلیتی طبقہ کے ان لوگوں کو سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر گرفتار کررہی ہے جو رام داس پیٹھ اور جونا شہر پولیس تھانے میں انسٹاگرام پر متنازع پوسٹ ڈالنے والے کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے پہنچے تھے۔ ان میں شہر کی سرکردہ شخصیات، تعلیم یافتہ طبقہ، سماجی کارکنان و ائمہ مساجد و علما کرام شامل ہیں۔ اس ناانصافی پر اقلیتی طبقہ میں ناراضگی ہے۔ اسکے علاوہ شہر کے وہ مسلم علاقے جو تشدد کے دوران پر امن تھے وہاں بھی کامبنگ آپریشن کے نام پر نوجوانوں کی گرفتاریاں جاری ہیں۔ پولیس نے ۶۶؍ افراد کوپیر کو عدالت میں پیش کیا تھا۔عدالت نے انہیں ۱۹؍ مئی تک کیلئے پولیس کی تحویل میں دینے کا حکم دیا ہے جبکہ دو ملزمین کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔
مسجد کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی تھی
اطلاع کے مطابق جونا شہر میں واقع تراب علی مسجد کو فرقہ پرستوں نے آگ لگانے کی کوشش کی تھی تاہم مسجد کے صرف صدر دروازے کو نقصان پہنچا ہے۔ مسجد سے لگی چار دکانوں کو جلا کر خاک کردیا گیا۔ اس معاملے پولیس نے ایف آئی آردرج کی ہے جسکے مطابق ۱۳؍ مئی کی رات تقریباً دوہزار افراد کی بھیڑ نے ہاتھوں میں لاٹھیاں، لوہے کے پائپ، پتھر لے کر جونا شہر علاقے میں دہشت پیدا کی اور تراب علی مسجد اور اس سے لگی دکانوں کو جلا دیا۔ اس دوران مسجد کے صدر دروازے کو نقصان پہنچا ہے۔ ایک دیگر واقعہ میں ایک گھر میں آگ لگنے سے ایک خاتون کے جاں بحق ہونے کی خبر ہے۔ پولیس اس آگ کا سبب شارٹ سرکٹ بتارہی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ یہ بھی فسادیوں کی حرکت ہے لیکن پولیس کشیدگی روکنے کیلئے اسے حادثہ قرار دے رہی ہے۔