Inquilab Logo

؍۲۰سے کم طلبہ کی تعداد والے اسکولوں کو بندکرنےکا منصو بہ

Updated: September 27, 2022, 10:06 AM IST | saadat khan | Mumbai

وزارت مالیات کے ذریعے محکمہ تعلیم سے ۲۰؍ طلبہ سے کم والے اسکول اور اساتذہ کی خالی اسامیوں کی تفصیلات طلب ۔ ۲۰۱۴ء کے اعداد وشمار کےمطابق ممبئی سمیت ریاست کے د یگر اضلاع میں ۲۰؍او ر ۱۰؍ طلبہ سے کم والے بالترتیب ۱۳؍ہزار اور ۴؍ہزار اسکول ہیں۔ تعلیمی تنظیموں کےمطابق مذکورہ تفصیلات طلب کرنےکا مقصد کم تعدادوالے اسکولوںکو بند کرنے کامنصوبہ ہے

The government is considering closing schools with low student numbers. (File Photo)
طلبہ کی کم تعداد والے اسکولوں کو بند کرنے کے بارے میں حکومت غور کر رہی ہے۔(فائل فوٹو)

کووڈ کے اخراجات پورا کرنےکیلئے حکومت نے جہاں تعلیم کے بجٹ میں کچھ کٹوتی کی تھی وہیں نئی تقرری پر پابندی عائد کررکھی تھی تاکہ حکومت پر مالی بو جھ نہ آئے ۔ کووڈپر قابواور روایتی اسکول شروع ہونے کےبعد ایک مرتبہ پھر وزارت مالیات نے محکمہ تعلیم سے ۲۰؍ طلبہ سے کم والے اسکول اور اساتذہ کی خالی اسامیوں کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ ۲۰۱۴ء کے اعداد وشمار کےمطابق ممبئی سمیت ریاست کے د یگر اضلاع میں ۲۰؍او ر ۱۰؍ طلبہ سے کم والے بالترتیب ۱۳؍ہزار اور ۴؍ ہزار اسکول ہیں۔ تعلیمی تنظیموں کےمطابق مذکورہ تفصیلات طلب کرنےکا مقصد کم  تعدادوالے اسکولوںکو بند کرنے کامنصوبہ ہے جس کی  انہوںنے شدید مخالفت کی ہے۔
 اطلاع کےمطابق وزارت مالیات نے اسکول ایجوکیشن کا بجٹ تیارکرنےکیلئے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ سےمذکورہ معلومات طلب کی ہیں۔ ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے ممبئی سمیت ریاست کےد یگر اضلاع کے تعلیمی محکموں کے ذمہ داروں سےمذکورہ معلومات فراہم کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
 واضح رہےکہ کم طلبہ والے اسکول سے متعلق ۲۰۱۴ء میں ریاستی حکومت نے جو اعدادو شمار جمع  کئے تھے ان کے مطابق ممبئی سمیت ریاست بھر میں ۱۳؍ہزارایسے اسکول تھے جن میں ۲۰؍ سے کم طلبہ زیرتعلیم تھے۔ ان میں بیشتر اسکولوں کا تعلق دیہی علاقوں سے تھا۔حالانکہ ممبئی ،تھانے ، پال گھر  اور رائے گڑھ کے بھی کچھ اسکول ان میں شامل تھے۔ ان اسکولوںکو نوٹس بھی جاری کیاگیاتھاکہ وہ اپنے اسکول کےبچوںکو اطراف کے ۳؍کلومیٹر کے علاقےمیں جو اسکول ہیں ،ان میں منتقل کریں۔ ان میں سے متعدد اسکول ایسے ہیں جو چند بچوں کے ساتھ جاری ہیں اور گورنمنٹ سے گرانٹ بھی لے رہےہیں۔ 
  ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے ۲۰؍ سے کم طلبہ والے اسکولوں کی نئی تفصیلات فراہم کرنےکی ہدایت دی ہے تاکہ اس طرح کے اسکولوںکو بندکرنے اوریہاں کے بچوںکو اطراف کے اسکولوں میں منتقل کرنےکی کارروائی پر عمل کیاجاسکے۔کووڈ کی وجہ سے کم تعدادوالے اسکولو ںکو بند کرنےکا عمل روک دیا گیا  تھا لیکن  اب اس طرح کے اسکولوں کے تعلق سے حکومت دوبارہ سرگرم ہوگئی ہےتاکہ ان اسکولوںکا ڈاٹا حاصل کرکے انہیں بند کرنےاور ان اسکولوںکے بچوںکو اطراف کے اسکول میں منتقل کرنےکی کارروائی پر فیصلہ کیاجاسکے۔
  یہاں اس بات کا بھی خیال رکھناچاہئے کہ ۲۰۱۴ءمیں ریاستی حکومت نے اس ضمن میں جو رپورٹ تیار کی تھی اس کے مطابق ریاست میںتقریباً ۴؍ہزار ایسے بھی اسکول تھے جن میں ۱۰؍ سے کم طلبہ زیر تعلیم تھے۔ اس طرح کے اسکولوںکو بند کرنے کے خلاف طلبہ اور سرپرستوںنے آزاد میدان پر آندولن بھی کیاتھا۔ اس وقت حکومت نے مظاہرین سے ان اسکولوںکوبند نہ کرنے کاوعدہ کیاتھا۔ 
  اس تعلق سے اکھل بھارتیہ اردو شکشک سنگھ  کے ریاستی جنرل سیکریٹری ساجد نثار احمد نے کہا کہ ’’صفر سے ۲۰؍ تعداد والے اسکولوں کو بند کرنے کے فیصلے پر حکومت نظر ثانی کرے۔ خاص طور پر اردو اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے۔ آئین کے مطابق ریاست میں۶؍ سے ۱۴؍ سال کے بچوں کو رائٹ ٹوایجوکیشن کا حق حاصل ہے جس کی روشنی میں ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو تعلیم فراہم کرے اور اقلیتوں کو مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے ۔  مذکورہ قانون کےمطابق حکومت کا یہ اقدام تعلیم مخالف ہے  جس کی ہم پر زور مخالفت کرتے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے اور وزیر تعلیم دیپک کیسرکر کو ہم نے میمورنڈم بھی دیاہے جس میں مطالبہ کیا ہے کہ کم تعددوالے اسکولوں کو بند نہ کیا جائے۔‘‘   
 واضح رہےکہ اسکولوں کو یہ بھی ہدایت دی گئی ہےکہ وہ منظور شدہ ٹیچروں اور خالی اسامیوںکی تعداد کی تفصیلات بھی فراہم کریں۔ ساتھ ہی سرپلس ٹیچروںاور ان میں سے جن ٹیچروں کو دیگر اسکولوںمیں ایڈجسٹ کیاگیاہےاس کی بھی معلومات طلب کی ہے۔  واضح رہے کہ ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے ٹیچروں کی ۶۷؍ہزار ۷۵۵؍خالی اسامیوں کی فہرست وزارت مالیات کو دی ہے ۔ وزارت مالیات کےمطابق اگر اتنےاساتذہ کی تقرری کی جاتی ہےتو مالی بوجھ کے بڑھنےکا امکان ہے۔ ریاست کے بجٹ کا ۱۸؍فیصد اسکول ایجوکیشن کیلئے مختص ہے جس میں  سے ایک بڑے حصہ  سے اساتذہ کی تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔

school Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK