Inquilab Logo

گلوبل وارمنگ میں کمی لکڑی کی عمارتوں سے ممکن ہے

Updated: October 04, 2020, 4:18 AM IST | Agency | Washington

ایک ایسے وقت میں جب دنیا کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے، ہزاروں سال پرانے گلیشیئرز اور پہاڑوں پر جمی برف تیزی سے پگھل رہی ہے

Wooden House - Pic : INN
لکڑی کا گھر ۔ تصویر : آئی این این

 ایک ایسے وقت میں جب دنیا کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے، ہزاروں سال پرانے گلیشیئرز اور پہاڑوں پر جمی برف تیزی سے پگھل رہی ہے، تبدیل ہوتی ہوئی آب و ہوا شدید طوفانوں اور قحط و خشک سالی کا سبب بن رہی ہے اور ہر آنے والے دن میں خطرے کی گھنٹی کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین اس صورتِ حال پر قابو پانے کے نئے اور قابلِ عمل طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔سائنسدانوں کا ایک گروپ اپنی توجہ عمارتوں اور ان میں استعمال ہونے والے میٹریل پر مرکوز کئے  ہوئے ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر عمارتوں میں لکڑی کا استعمال بڑھا دیا جائے تو اس سے گلوبل وارمنگ کے اثرات پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
 وہ کہتے ہیں کہ لوہا، سیمنٹ اور دیگر تعمیراتی میٹریل ان کارخانوں اور فیکٹریوں میں تیار کیا جاتا ہے جنہیں چلانے کیلئے توانائی خرچ ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں کاربن گیس  خارج ہوتی ہیں جو عالمی حدت کا ایک بڑا سبب ہیں۔
 ماہرین کے مطابق عمارتی لکڑی درختوں سے حاصل ہوتی ہے۔ درخت ہمارے قدرتی ماحول کو آلودگی اور گلوبل وارمنگ سے بچاتے ہیں۔ درخت دن کے وقت کاربن گیس جذب کر کے آکسیجن گیس خارج کرتے ہیں جو ہمارے ماحول کو صاف رکھتی ہے۔ جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے گلوبل وارمنگ میں کمی لاتے ہیں۔ اسی طرح عمارتی لکڑی بھی ماحول دوست ہوتی ہے۔ لکڑی کی عمارتیں اپنے اندر مقررہ درجہ حرارت کو دیر تک برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس لئے  انہیں گرم یا ٹھنڈا رکھنے پر کم توانائی صرف ہوتی ہے۔ لکڑی کی عمارت کے اندر کی فضا مضر صحت کیمیکلز سے پاک ہوتی ہے اور وہ انسانی صحت کیلئے اچھی ہوتی ہے۔
 ماہرین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں جنگلات موجود ہیں  وہاں عمارتوں میں لکڑی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو فروغ دینا چاہئے اور جہاں جنگل کم ہیں وہاں درخت اور جنگلات اگانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ امریکہ کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں جنگلات بکثرت ہیں، عمارتوں میں زیادہ تر لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔ امریکہ میں رہائشی مکان اور چھوٹی عمارتوں کی تعمیر میں لکڑی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔
 کچھ عرصے سے امریکہ میں دفاتر اور کاروباروں مقاصد کیلئے وسیع رقبے پر محیط لکڑی کی کیثر منزلہ عمارتیں تعمیر کرنے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں ریاست واشنگٹن میں قائم ایسٹرن واشنگٹن یونیورسٹی میں ڈیڑھ لاکھ مربع فٹ پر محیط ایک ۵؍ منزلہ مکمل ہوئی ہے جو ماسوائے ان چیزوں کے، جنہیں لکڑی سے بنایا نہیں جاسکتا تھا، تمام تر لکڑی کی ہے۔ اس کی دیواریں، ستون، چھتیں، فرش، کھڑکیاں، روشن دان، دروازے، سیڑھیاں غرض ہر چیز میں لکڑی یا لکڑی کی مصنوعات کا استعمال کیا گیا ہے۔
 ایسڑن واشنگٹن یونیورسٹی کی یہ عمارت کیسٹرا کنسٹرکشن کمپنی نے بنائی ہے۔ وہ ۲۰۱۱ءسے اب تک اس طرح کی ۳۸۴؍ عمارتیں بنا چکی ہے، جبکہ آئندہ برسوں میں۵۰۰؍ عمارتیں تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے  تاہم لکڑی کی عظیم الشان اور وسیع تر عمارتیں بنانے والی یہ واحد کمپنی نہیں ہے۔ کئی کمپنیاں لکڑی کے دیو ہیکل کیثر منزلہ دفاتر اور کاروباری ضرورت کی عمارتیں تعمیر کر رہی ہیں اور لکڑی کا عمارتی میٹریل تیار کرنے کیلئے درجنوں کارخانے بھی قائم ہو چکے ہیں۔
 امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیاں اب اپنی کاروباری سرگرمیوں کیلئے لکڑی کی عمارتوں کو ترجیح دے رہی ہیں جن میں سلیکون ویلی کی ڈیجیٹل کمپنیاں سر فہرست ہیں۔ حال ہی میں وال مارٹ نے بھی اپنے ہیڈ کوارٹرس کیلئے آرکنسا کے شہر بنٹان ول میں لکڑی کی عظیم عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وال مارٹ کی ترجمان این ہیٹ فیلڈ نے بتایا کہ تعمیر کا کام شروع ہو گیا ہے۔ یہ پانچ منزل عمارت تین لاکھ ۳۲؍ ہزار مربع فٹ پر محیط ہو گی اور یہ تمام تر لکڑی سے بنائی جائے گی۔
 انجینئرس اب لکڑی کی ایسی عمارتیں بھی ڈیزائن کر رہے ہیں جو۱۰؍ یا اس سے زیادہ منزلہ ہوں گی۔ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں لکڑی کی ایک دس منزلہ عمارت تعمیر کے مراحل میں ہے۔ وہاں اسی طرح کی دو اور عمارتیں بھی بنائی جائیں گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لکڑی کی عمارت پر میٹریل کا خرچ عام عمارتوں کی نسبت ۵؍سے ۱۰؍ فیصد تک زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن اسے بنانے کے اخراجات نمایاں طور پر کم ہوتے ہیں اور اس کی تعمیر بھی جلد مکمل ہو جاتی ہے۔ لکڑی سے بنی عمارت کی دیکھ بھال اور اس کی مرمت کے اخراجات بھی کم ہوتے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK