حادثہ کے وقت طلحہ ۵؍ سال کے تھے،، اب ان کی عمر ۲۲؍ سال ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اچھی ملازمت حاصل کرچکے ہیں، ان کے بقول ’’ والدین کی قربانیوں ، دعاؤں اور محبتوں کا صلہ ہے کہ آج میں زندہ بھی ہوں اور پائندہ بھی ‘‘
EPAPER
Updated: October 08, 2025, 12:50 PM IST | Nadeem Asran | Mumbai
حادثہ کے وقت طلحہ ۵؍ سال کے تھے،، اب ان کی عمر ۲۲؍ سال ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اچھی ملازمت حاصل کرچکے ہیں، ان کے بقول ’’ والدین کی قربانیوں ، دعاؤں اور محبتوں کا صلہ ہے کہ آج میں زندہ بھی ہوں اور پائندہ بھی ‘‘
۲۸؍ جنوری ۲۰۰۸ء ہفتے کی چھٹی کے بعد اسکول کا پہلا دن مدنی ہائی اسکول میں زیر تعلیم معصوم طلبہ اور ان کے والدین پر ایسا دردناک قہر بن کر طلوع ہواتھا کہ ۱۷؍ سال بعد بھی اس کرب کو بھلایا نہیں جاسکا ہے ۔ ۱۷؍ سال قبل مدنی ہائی اسکول سے ۴؍ تا ۷؍ سال کے ۱۱؍ معصوم بچوں کو اسکول سے گھر لے جانے والی اومنی وین میں اچانک لگنے والی آگ کے دلدوز سانحہ میں تقریباً ۵؍ بچے ۹۰؍ فیصد سے زائد جھلس کر فوت ہوگئے تھے جبکہ ۶؍ معصوم طلبہ ۲۰؍ تا ۵۰؍ فیصد جھلس گئے تھے ۔زخمی ہونے والے طلبہ میں ۵؍ سال کا طلحہ عبدالعزیز شیخ بھی شامل تھا جو صرف موت کے منہ سے ہی باہر نہیں آیا بلکہ ۳۵؍ فیصد جھلس جانے کے باوجود باقاعدہ تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا اور زندگی میں آنے والی ہر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے والدین کی حوصلہ افزائی ، دعاؤں اور اپنی محنت و قابلیت کے دم پر نہ صرف ایس ایس سی اور ایچ سی امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی اورپھر بزنس مینجمنٹ اسٹیڈیز( بی ایم ایس ) کی ڈگری حاصل کرکے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بطور سیلس ایگزیکٹیو برسر روز گار ہے ۔ بذات خود طلحہ ، اس کے بھائی بلال اور ان کی والدہ نےانقلاب سےدردناک سانحہ سے اب تک کے سفر کی جو روداد بیان کی ہے وہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے ۔
روداد بیان کرنے سے قبل یہ یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ ۲۸؍ جنوری ۲۰۰۸ء کو مدنی ہائی اسکول میں زیر تعلیم معصوم طلبہ کو لے جانے والی اومنی وین میں آگ لگنے کا جو حادثہ پیش آیا اس میں ۷؍ سال کی معصوم مدیحاہندانی ، ۴؍ سال کا زبیر کروڑیا، ۶ ؍سال کی عاتقہ شیخ ، رقیہ اور ایک بچہ کا نام معلوم نہیں ہوسکا ، فوت ہوئے تھے ۔جو بچے ۲۰؍ تا ۵۰؍ فیصد جھلسے تھے ان میں طلحہ کے علاوہ زویبا، مدثر،زبیر ، شکیل اور سمیہ نامی بچی شامل تھی ۔
حادثہ سے متعلق نامہ نگار کے سوال پر طلحہ نے اپنی یادداشت پر زو دیتے ہوئے کہا’’ جس وقت یہ حادثہ پیش آیا اس وقت نہ تومجھے اتنا شعور تھا کہ میں اس کی سنگینی کو بیان کر سکوں اور نہ ہی وہ لمحہ مجھے یاد ہے کہ اس کی تفصیلات بتا سکوں لیکن حادثہ کے نشان میرے چہرے ، ہاتھ اور جسم کے علاوہ دل میں ایسے نقش کر گئے ہیں کہ میں بھولنا چاہوں بھی تو نہیں بھول سکتا ۔یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ’حوصلہ نہ چھوڑ، کر سامنا جہان کا‘ کے مصداق میرے والدین نے جو قربانیاں دیں اور حوصلہ کے ساتھ اعلیٰ تعلیم سے سرفراز کیا، آج ان ہی کی دعاؤں اور محبتوں کا صلہ ہے کہ میں زندہ بھی ہوں اور پائندہ بھی ۔‘‘
طلحہ کے بڑے بھائی بلا ل ( جو ملت ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھے اور اب میکانیکل انجینئر ہیں اور ایک انٹرنیشنل کمپنی میں برسر روز گار ہیں )دلدوز حادثہ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’مجھے اوردیگر بچوں کو معمول کے مطابق اومنی وین لینے آرہی تھی لیکن مجھ پر، میرے اور دیگر بچوں کے والدین پر اس وقت قیامت برپا ہوئی جب ہمیں حادثہ کا پتہ چلا ۔اس وقت میری عمر ۷؍ سال تھی ۔ حادثہ کے فوراً بعد سبھی متاثرہ بچوں کو پہلے کوپر اسپتال لے جایا گیا تھا جہاں چند طلبہ کی علاج سے قبل ہی موت ہوچکی تھی جبکہ طلحہ اس حادثہ میں۳۵؍ فیصد جھلس گیا تھا ۔یہ طلحہ ہی تھا جس نےگاڑی میں آگ لگنے اور جھلسنے کے باوجود کھڑکی کی کانچ توڑ کرچھلانگ لگا دی تھی۔ اس حادثہ میں اس کا چہرہ ( گال اور ماتھا )، ایک ہاتھ اور پیٹ کا حصہ بری طرح متاثر ہوا تھا۔‘‘
بلال کے بقول’’ طلحہ کو جب شدید تکلیف کے سبب مسینا اسپتال پہنچایا گیا تو میری والدہ ۶؍ماہ تک مسلسل اسپتال میں دن رات طلحہ کی تیمار داری کرتی رہی ، راتوں کو جاگر کر اپنے لخت جگر کی صحت یابی کی دعائیں کرتی رہی ۔ان تمام مشکل وقت میں ہمارے والدین نے طلحہ کے ساتھ ساتھ میری اور میری چھوٹی بہن آسیہ کی جو بی ایس سی آئی ٹی کے آخری سال میں زیر تعلیم ہے ، اعلیٰ تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم میں بھی کوئی کمی نہیں آنے دی ۔ابھی ہم اس سانحہ سے باہر نکلے ہی تھے کہ ۲۰۱۸ء میںایک بار پھر اس وقت ہم پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا جب ہمارے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا او ر ایسا لگا کہ دنیا اجڑ گئی ہو۔ اس وقت ایک پھر والدہ نے اپنی شفقت اور محبت سے ہم میں نیا حوصلہ پیدا کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علاوہ طلحہ بھی نہ صرف تعلیمی بلکہ کھیل کے میدان ( فٹ بال )میں بھی ہمیشہ نمایاں کامیابی حاصل کرتا رہا ہے ۔ ‘‘
نامہ نگار سے دوران گفتگو طلحہ کی والدہ عشرت عبدالعزیز شیخ اپنے لخت جگر کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے یوں گویا ہوئیں’’ میں ہی نہیں بلکہ حادثہ کا شکار ہونے والے تمام طلبہ کے والدین اس حادثہ کو چاہ کر بھی بھلا نہیں سکتے ۔ جن والدین نے اپنے بچوں کو اس حادثہ میں کھو دیا ان کا درد میرے درد سے کہیں زیادہ ہے ۔ میں شکر گزار ہوں کہ میرے طلحہ کو رب العالمین نے نئی زندگی عطا کی ۔اللہ ان تمام والدین کو صبر جمیل عطا فرمائے جن کے بچے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے اور انہیں بھی جن کے بچے اس حادثہ میں بری طرح متاثر ہوئے تھے ۔‘‘