Inquilab Logo

برطانوی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میںرِشی سونک سب سے آگے

Updated: October 23, 2022, 11:12 AM IST | London

وزیر اعظم بننے کی ریس میں شامل ہونے کیلئے درکار کنزرویٹیو پارٹی کے ۱۰۰؍ ووٹ آسانی سے حاصل کرلئے ، بورس جانسن بھی پرتول رہے ہیں، چھٹیاں منسوخ کرکے لندن پہنچ گئے

Rishi Sonik has once again joined the race for the Prime Ministership of Great Britain. (Photo: Agency)
رشی سونک ایک مرتبہ پھر برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔(تصویر: ایجنسی )

لز ٹرس کی جانب سے محض ۴۵؍ دن کی مدت میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دینے کے بعد برطانیہ میں پیدا ہوئے آئینی اور سیاسی بحران پر سبھی کی نگاہیں ہیں۔ اس دوران برطانیہ کے سابق وزیر خزانہ رشی سونک کنزرویٹیو پارٹی کا  لیڈر اور وزارت عظمیٰ کا امیدوار بننے کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔ نیوز ایجنسیوں کے مطابق ہند نژاد رشی سونک اس ریس میں فی الحال سب سے آگے ہیں کیوں کہ جمعہ کو دیر رات   انہوں نے پارٹی لیڈر کا انتخاب لڑنے کی پہلی شرط پوری کرلی ۔ انہیں اس کے لئے پارٹی اراکین کے کم از کم ۱۰۰؍ ووٹ درکار تھے جو انہوں نے حاصل کرلئے۔ فی الحال اس ریس میں وہی اکیلے نظر آرہے ہیں کیوں کہ ان کے حریف کے طور پر صرف سابق وزیر اعظم بورس جانسن کا نام لیا جارہا ہے جو اس وقت تک ۲۳؍ووٹ ہی حاصل کرسکے ہیں۔  ادھر ٹوری پارٹی کے ایم پی ٹوبیاز اِل ووڈ نے ٹویٹ کیا کہ اُنہیںیہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ وہ پارٹی کے۱۰۰؍ویں رُکن ہیں جو رشی سونک کی حمایت میں آگے بڑھے ہیں۔
  یاد رہے کہ رخصت پذیر وزیراعظم لز ٹرس کے ڈرامائی استعفیٰ کے بعد برطانیہ کی حکمراں جماعت کی قیادت کیلئے کابینہ کی رکن پینی مورڈانٹ پہلے ہی اپنی امیدواری کا باضابطہ اعلان کر چکی ہیں لیکن ان کے پاس فی الحال صرف ۱۶؍ اراکین کی حمایت ہے ۔اگر پارٹی لیڈر بننے کی دوڑ میں شامل دیگر امیدوار ۱۰۰؍ اراکین کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو رشی سونک کنزرویٹیو جماعت کے سربراہ اور وزیراعظم منتخب ہو جائیں گے۔ اس  بارے میں وزیر دفاع ٹام گنڈاٹ نے سابق وزیراعظم بورس جانسن کو ڈھکے چھپے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا  کہ وہ اس دوڑ سے باہر رہیں۔انہوں نے رشی سونک کی حمایت کے بعد کہا کہ یہ سیاسی کھیل کھیلنے کا وقت نہیں، حساب برابر کرنے کا بھی نہیں۔ حالانکہ خود رشی سونک کی جانب سے وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہونے کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا ہے لیکن ان کا نام تقریباً طے بتایا جارہا ہے۔ 
  ادھرٹام گنڈاٹ خود بھی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں اُس وقت شامل رہے جب جولائی میں بورس جانسن کو عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ انہوں نے کھل کر سونک کی حمایت کی ہے۔  سونک کے مخالف  سابق وزیر اعظم بورس جانسن جو کیریبین میں چھٹیاں گزارنے گئے تھے ، واپس لندن آگئے ہیں اور بتایا جارہا ہے کہ   وہ  ٹوری پارٹی کے ایم پیز کی جانب سے منعقدہ ممکنہ آن لائن ووٹنگ میں حصہ لینے کیلئے  موجود رہ سکتے ہیں۔
   اس درمیان رشی سونک کے قریبی ذرائع نےبتایا کہ انہیں سابق ہیلتھ سیکریٹری ساجد جاوید، وزیر دفاع ٹام گنڈاٹ اور سابق ہیلتھ سکریٹری میٹ ہینکاک سمیت کئی سینئر ساتھیوں کی حمایت  حاصل ہے۔ ساجد جاوید نے کہا کہ رشی سونک کو یہ واضح طور سے پتہ ہے کہ آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے۔وہ ہماری پارٹی کی قیادت کرنے اور ملک کو آگے لے جانے کیلئے مناسب شخص ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ  کے مطابق  دعویداروں کے پاس ۲۴؍ اکتوبر یعنی پیرکی دوپہر ۲؍بجے تک ضروری۱۰۰؍ اراکین پارلیمنٹ کی حمایت ہونی چاہئے۔ اگر تینوں دعویدار ضروری حمایت حاصل کر لیتے ہیں تو کنزرویٹو اراکین پارلیمنٹ اسی دن ایک بار ووٹنگ کریں گے۔ اس کے بعد دو فاتح دعویداروں کے درمیان مقابلہ ہوگا اور ۲۸؍ اکتوبر کو پارٹی کے اراکین آن لائن ووٹنگ کے ذریعہ آخری فیصلہ کریں گے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK