Inquilab Logo

فیس کی عدم ادائیگی پر اسکول نے ۲۲؍ طلبہ کو کلاس روم سے باہر نکال دیا، والدین عدالت سے رجوع

Updated: April 07, 2022, 10:27 AM IST | Nadeem asran | Mumbai

شکایت ملنےپر پولیس نے کیس درج کرلیا۔ سرپرستوں کے مطابق ان کے بچوں کی بے عزتی کی گئی ہے ۔محکمۂ تعلیم بھی معاملے کی تحقیق میں مصروف

Kandivali Kapul Vidyandhi International School
کاندیولی کا کپول ودیاندھی انٹرنیشنل اسکول۔ (تصویر: انقلاب)

یہاں کے کپول ودیاندھی انٹرنیشنل اسکول کے خلاف والدین نے الزام لگایا ہے کہ  ’بلاجوازفیس اور کیپٹیشن‘ کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے اسکول انتظامیہ نے ان کے بچوں کی بے عزتی کی ہے ۔چند والدین نے سنیچر کو انتظامیہ کے خلاف پولیس میں شکایت بھی درج کرائی ہے اور الزام لگایا ہے کہ فیس ادا نہ کرنے پر۲۲؍طلبہ کو ۴؍دن لیباریٹری میں بیٹھنے پر مجبور کیا گیا۔ ایف آئی آر میں ودیاندھی انٹرنیشنل اسکول کی پرنسپل ریشما ہیگڑے اور دیگر ۲؍ افراد کے نام شامل ہیں لیکن اب تک کسی کی بھی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ایک اور والدین نے اسکول انتظامیہ کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا  ہے اور رٹ پٹیشن داخل کی ہے۔ چند والدین نے چائلڈرائٹس کمیشن سے رجوع کیا ہے۔ والدین اور سرپرستوں   نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ اسکول نے پیر کو اسکول کے احاطے میں باؤنسر تعینات کئے تھے۔  
 مذکورہ بالا اسکول میں پڑھنے والی طالبہ کے والد کرن شاہ اور دیگر ۱۰؍ طلبہ کے والدین نے بامبے ہائی کورٹ میں داخل کردہ عرضداشت کے ذریعہ کورٹ کو بتایا ہے کہ لاک ڈاؤن اور کورونا بحران کے سبب طلبہ اسکول نہیں جاسکے اس لئے انہیں آن لائن پڑھایا گیا ۔   آن لائن پڑھائی کے سبب مجھے اپنی بچی کو لیپ ٹاپ اور موبائل فون لاکر دینا پڑا اور میری ہی طرح دیگر والدین کو بھی  مالی پریشانی کے باوجودیہ چیزیں خرید کر دینی پڑی تھی ۔ 
 کرن شاہ نے اس تعلق سے اس نمائندے کو بتایا کہ ’’میری بیٹی نویں جماعت میں زیرتعلیم ہے اور میں فیس کے بارے میں لڑتا رہا ہوں۔ لاک ڈاؤن کے دوران طلبہ نے لیباریٹری یا اسکول احاطے کا استعمال نہیں کیا تھا اور کوئی پریکٹیکل ایکٹیویٹیز نہیں ہوئی تھیں لیکن ہم سے ان کیلئے چارج وصول کیا جارہا تھا۔ میں نے اسکول کوخط لکھ کر ان کی فیس نہ وصول کرنے کا کہا تھا لیکن اسکول حکام نے اسے قبول نہیں کیا تھا اس لئے ہم نے عدالت میں رٹ پٹیشن داخل کی  ۔‘‘  انہوں نے مزید بتایا کہ ’’یکم اپریل کو میری بیٹی اور اس کی کلاس کے ایک ساتھی کوان کی کلاس ٹیچر نے کلاس سے باہر جانے کا کہا پھر انہیں فزکس لیب کی طرف لے جایا گیا۔ میری بیٹی کے مطابق وہاں پہلے ہی ۲۰، ۲۵؍ طلبہ موجود تھے جن کی فیس بقایا تھی۔ امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والے ان تمام طلبہ کیلئے یہ انتہائی تکلیف دہ تھا۔‘‘کرن شاہ کے مطابق ’’ہم نے دوسرے ہی دن کاندیولی پولیس سے رجوع کیا لیکن انہوں نے کیس درج کرنے سے انکار کردیا پھر ہم نے ایم این ایس لیڈر دنیش سالوی کی مدد لی جس کے بعد ہماری شکایت کو قبول کیا گیا۔ ہمیں ہمارے بچوں کیلئے انصاف کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں کسی ایک بھی بچے کو اس طرح کی سزا نہ ملے۔‘‘
 ممبئی ویسٹ زون کے ایجوکیشن انسپکٹر نوناتھ وانوے نے کہا کہ ’’ والدین کے ذریعے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا ہے اور ہم ایک آفیسر کو معاملے کی تحقیق اور مناسب کارروائی کیلئے بھیج رہے ہیں۔‘‘
 اس تعلق سے سینئر انسپکٹر دنکرجادھو نے اس نمائندے کوبتایا کہ ’’ہم نے جوینائل جسٹس (کیئر اینڈ  پروٹیکشن آف چلڈرن) ایکٹ ۲۰۰۰ء کی دفعہ ۲۳؍ کے تحت کپول انٹرنیشنل اسکول پرنسپل ریشما ہیگڑے  اور ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ تورل اور سشما کے خلاف فیس کی عدم ادائیگی پر اسکول میں ۱۰،۱۵؍ طلبہ کو ذہنی طورپر ہراساں کرنے کا کیس درج کرلیا ہے۔ طلبہ کو کلاس روم کے بجائے لیب میں بٹھایا گیا تھا۔‘‘
 اس بارے میں جب اس نمائندے نے  مذکورہ اسکول کی پرنسپل  ڈاکٹر ریشما ہیگڑے سے رابطہ قائم کرکے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’یہ مسئلہ گزشتہ ۲؍ سال سے ہے۔کئی والدین تھے جو لاک ڈاؤن کے دوران مدد اور فیس میں رعایت کا مطالبہ کررہےتھے۔ ہم نے انہیں ہدایت دی تھی کہ اپنی مالی حالت کے تعلق سے ایک خط / انڈرٹیکنگ دے تاکہ ان کی درخواست پرہم غور کرسکے۔ ہمیں ۵۰؍ خطوط موصول ہوئے اور واقعی مستحق افراد کو رعایت دی گئی ، یہاں تک کہ چند والدین  کا تقریباً ۷۵؍ لاکھ کا بقایا بھی معاف کردیا گیا۔ چند والدین نے مزید کمی کا مطالبہ کیا جو ممکن نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم طلبہ کا تعلیمی سلسلہ منقطع نہیں کرنا چاہتے لہٰذا ہم نے انہیں فزکس لیب میں بٹھایا اور بنیادی اسباق دیئے۔ طلبہ کو ہراساں کرنے کا الزام غلط ہے۔ یہ کسی طرح امتیازی سلوک کا موضوع نہیں تھا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہم نے بقایافیس کی ادائیگی کیلئے والدین کو پہلے ہی ۱۰؍ نوٹس بھیجے تھے لیکن وہ اسے ادا کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ ہم  انہیں قانونی نوٹس بھیجیں گے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK