Inquilab Logo

’’طلبہ سے سال میں ۲؍ہی پروجیکٹ بنوانے چاہئیں‘‘

Updated: September 24, 2022, 10:04 AM IST | saadat khan | Mumbai

زیادہ پروجیکٹ بنوانے کے سبب اسکولوں میں انہیں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی اور ردی میں پھینک دیئے جاتےہیں۔ پروجیکٹ سےمتعلق اساتذہ کےایک گروپ کاکہناہےکہ طلبہ کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنےکیلئے پروجیکٹ کلاس روم میں ہی بنوایاجائے تاکہ بچوں کی صلاحیت کی صحیح جانچ ہوسکے اور پروجیکٹ کے نام پر والدین پر بے جا مالی بوجھ نہ ڈالاجائے

When students make their own projects, their skills will increase. (File Photo)
طلبہ جب خود پروجیکٹ بنائیں گے تو ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔(فائل فوٹو)

:اسکولی پروجیکٹ کی بڑھتی تعداد اور طلبہ و سرپرستوںکی پریشانی سے متعلق جنوبی ممبئی کے ایک پرائمری اسکول کی انچارج نےکہاکہ ’’ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے کنٹنیوس کامپرہینسیو اِ ویلیویشن ( مسلسل جامع قدر پیما ئی )پالیسی کے تحت طلبہ سے سال میں ۲؍مرتبہ پروجیکٹ بنوایاجاسکتاہے۔ اس کے مارکس طلبہ کےرزلٹ میں شامل ہوتےہیں۔ ہمارے اسکول میں بھی طلبہ کی صلاحیت اُجاگرکرنےاور ان کی کمیوں کو دورکرنےکیلئے پروجیکٹ بنوائے جاتےہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہےکہ سرپرستوں پر مالی بوجھ ڈالاجائے۔ا س لئے میں نے اپنے اسکول کی ٹیچروں سے کہاہےکہ طلبہ سے پروجیکٹ ضرور بنوائیں مگر پروجیکٹ کیلئے ان کےوالدین پر مالی بوجھ نہ ڈالاجائے ۔بعض اسکولوںمیں ٹیچر طلبہ سے ایک مہینےمیں ۲؍پروجیکٹ بنواتےہیں۔ حالانکہ ان پروجیکٹ کو اسکول میں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی ہےبالآخر وہ ان پروجیکٹوںکو ردی میں پھینک دیتےہیں۔ہم نے اپنے ٹیچروں کو ہدایت دی ہےکہ طلبہ سےایسے پروجیکٹ بنوائے جائیں جن کیلئے درکار سامان آسانی سے ان کے گھر اور آس پاس میں مفت میں مل سکیں۔ پروجیکٹ بنانےکیلئے کچھ سامان مثلاً گوند، پنسل ، رنگ اور پیپر وغیرہ تو ایک بار خرید ا جاسکتاہے جو کافی دن چلتے ہیں۔اس کےعلاوہ سرپرستوںپر  بوجھ نہیں پڑنا چاہئے۔‘‘
  اندھیری کے ایک پرنسپل نے کہاکہ ’’مذکورہ پالیسی کےبارےمیں ٹیچروںکو پوری معلومات یا اس کی ٹریننگ نہ ملنے سےبھی یہ مسئلہ پیداہورہاہے۔متعدد ٹیچر اس پالیسی کے تحت جو ۸؍ ٹول دیئے گئےہیں ان میں سے ۵؍ٹول کی کارروائی وہ طلبہ سے پروجیکٹ بنواکر مکمل کرنےکی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ پالیسی کے مطابق پہلے اور دوسرے سمسٹر میںبالترتیب ایک ایک پروجیکٹ کرواناچاہئے ۔ بچوںکو پروجیکٹ گھر سے بنانےکیلئے دے دیاجاتاہے ، جس کی وجہ سے پروجیکٹ بچے تو نہیں بلکہ ان کے سرپرست بناتےہیں۔ اس سے سرپرستوںکا جہاں پیسہ خرچ ہوتاہے وہیں وقت بھی صرف ہوتا ہے ۔جبکہ پروجیکٹ بچوںسےاسکول میں بنوانا چاہئے۔اُصولاًپروجیکٹ میں لگنےوالے سامان بچوں سے منگوا کر ۴۔۵؍بچوںکا گروپ بنا کر ان سے ہی پروجیکٹ بنواناچاہئے۔گروپ میں شامل ہوکر پروجیکٹ بنانے سے بچوںکی صلاحیت اُجاگرہونے کےساتھ ان میں لیڈرشپ ،گروپ کی شکل میں کام کرنے اور ایک دوسرے کو کام سونپنےکی عادت پیداہوتی ہے۔ لیکن ٹیچر اپنا بوجھ کم کرنےکیلئے بچوں کو گھر سے پروجیکٹ بنا کرلانےکیلئے کہتے ہیں  جو مناسب نہیں ہے۔‘‘      
 گوونڈی کے ایک اسکول کے معلم نے کہاکہ ’’بچوں سے پروجیکٹ بنوانےپر اعتراض نہیں ہے مگر کسی بھی چیز کی زیادتی مناسب نہیں ہوتی ہے۔لیکن کچھ اساتذہ ایسے ہیں جو اسکول انتظامیہ کی گُڈ بُک میںآنے کیلئے ایک مہینے میں کئی پروجیکٹ بنواتےہیں جو غلط ہے۔ پروجیکٹ بنوایاجائے مگر بچوںکو ایسا پروجیکٹ دیاجائےجو بچے ازخود سے بناسکیں۔لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے تیسری اور چوتھی جماعت کے بچوںکوکارڈ بورڈ سے بنگلہ بنانےکیلئے دےدیاجاتاہے۔ ان جماعتوںکا بچہ بنگلہ کیسے بنائیگا۔ مجبوراً ان کے سرپرست یہ پروجیکٹ بناتے ہیں۔ جس سے پروجیکٹ بنانےکا مقصد فوت ہوجاتاہے۔لہٰذا بچوں سے سال میں ۲؍ہی پروجیکٹ بنوائے جائیں وہ بھی ان کی عمر اور صلاحیت کو مدنظر رکھتےہوئے ۔ ہمارےاسکول کےدور میں ۵؍ درختوں کےپتے جمع کرنےکا پروجیکٹ دیاجاتاتھا۔ اس سے ۵؍درختوںکے نام اوران کےپتوں کی شکل کا علم ہوتا تھا۔ اسی طرح پھلوںکی بیج جمع کرنےکاپروجیکٹ دیاجاتاتھا۔ لیکن ان دنوں جو پروجیکٹ دیاجارہاہے ان سے والدین پر مالی بوجھ پڑ رہاہے۔ جو غریب طبقے کےسرپرستوںاوروالدین کیلئے پریشانی کا سبب ہے۔ سال میں صرف ۲؍پروجیکٹ ہی بنوایا جائے زیادہ پروجیکٹ بنوانےسے طلبہ کی پڑھائی کانقصان ہو رہا ہے۔‘‘
 ملاڈ کےایک پرائمری اسکول کی معلمہ نے کہاکہ ’’ پروجیکٹ کا مقصد بچوںکی صلاحیت کی جانچ کرنا ہے۔ چونکہ میں اوّل جماعت کے بچوںکوپڑھاتی ہوں اس لئےمیری کوشش ہوتی ہےکہ میں اسکول میں ہی اپنے سامنے بچوں سے پروجیکٹ بنوائوں تاکہ بچوںکی صلاحیت کی جانچ بھی ہوسکےاور اگر بچوں کو پروجیکٹ بنانےمیں مشکل آرہی ہوتوان کی رہنمائی کی جاسکے۔ میں نے بھی کبھی بچوں کو گھر سے پروجیکٹ بناکرلانےکیلئے کہا تھا مگر اس کانتیجہ یہ آیاکہ گھر پر بنائے جانے والے پروجیکٹ میں بچوںکا کم سرپرستوںکا زیادہ دخل ہوتاہے۔علاوہ ازیں یہ معاملہ بھی سامنے آیاکہ سرپرستوںمیں پروجیکٹ بنانے سے متعلق حریفائی دکھائی دی ،جو اچھی بات نہیں تھی ۔ اس لئے میں نے گھر کے بجائے کلاس روم میں بچوں سے ازخود پروجیکٹ بنوانےکا سلسلہ شروع کیا۔ اس سے بچوںکی صلاحیت میں نکھار آیاہے۔ متعدد اسکولوںکے ٹیچر بچوں سے مہینےمیں کئی پروجیکٹ بنواتےہیں جو نہیں ہوناچاہئے۔ اُردو میڈیم اسکولوں میں غریب طبقے کےبچے بڑی تعداد میں پڑھتےہیں ۔ ان کے والدین پر مالی بوجھ نہیں ڈالناچاہئے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK