سپریم کورٹ میں ایس آئی آر کے آئینی جوازکے خلاف پُرزوردلائل، سینئر وکلاء ابھیشیک منو سنگھوی ،ورندا گروور اور پرشانت بھوشن نےایس آئی آر میں شہریت کے تعین پر سوال اٹھایا، سنگھوی نے کہا کہ کمیشن کو شہریت کی جانچ کا اختیار ہی نہیں ہے
EPAPER
Updated: December 03, 2025, 8:24 AM IST | New Delhi
سپریم کورٹ میں ایس آئی آر کے آئینی جوازکے خلاف پُرزوردلائل، سینئر وکلاء ابھیشیک منو سنگھوی ،ورندا گروور اور پرشانت بھوشن نےایس آئی آر میں شہریت کے تعین پر سوال اٹھایا، سنگھوی نے کہا کہ کمیشن کو شہریت کی جانچ کا اختیار ہی نہیں ہے
الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ذریعہ ملک گیر ایس آئی آر کے آئینی جواز پر منگل کو سپریم کورٹ میں زوردار بحث ہوئی۔ چیف جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جوئے مالا باغچی کی بنچ کے سامنے ملک کے سینئر اور سنجیدہ وکلاء ابھیشیک منو سنگھوی، ورندا گروور اور پرشانت بھوشن نے ایس آئی آرکے قانونی اور آئینی جواز کو چیلنج پیش کیا اورپرزور دلائل دئیے۔ ایڈوکیٹ ابھیشیک منوسنگھوی نے استدلال کیا کہ الیکشن کمیشن کو آئین ہند کے آرٹیکل ۳۲۴؍ کے تحت انتخابات کے رہنما خطوط میں من مانے طریقۂ کار متعارف کروا کر شہریت کی جانچ کرانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ انہوںنے کہا کہ کمیشن نے انتخابی عمل کے ذریعے شہریت کے تعین کا ایک متوازی طریقۂ کار تشکیل دیا ہےجو غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔
ابھیشیک منوسنگھوی نے مزید کہا کہ شہریت کےتعین ایکٹ کی دفعہ ۸؍اور ۹؍کے تحت یہ اختیار صرف مرکزی حکومت، عدالتوں اور غیر ملکی ٹربیونلز کےپاس ہے۔ ’’ای آر اوز‘‘ کے لئے شہریت کے دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنے، مشتبہ شہریوں کو نشان زد کرنے اور انہیں محکمۂ داخلہ کو رپورٹ کرنےکا التزام کرکے الیکشن کمیشن نے آئین وقانون کے خلاف کام کیا ہے۔ انتخابی عمل کے ذریعے شہریت کے تعین کا متوازی طریقۂ کار قانونی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے اور پارلیمانی منظوری کے بغیر بالواسطہ این آر سی کے خدشات کو جنم دیتا ہے۔ سنگھوی نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن فرضی طور پر لوگوں کو ’عارضی شہریت کی فہرست‘ میں ڈال رہا ہے۔ انہوںنے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے لئے وہ اختیارات طے کرلئے ہیں،جو اس کے پاس نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن کو اس طرح کی مشق کا حکم دینے کیلئے حلقہ وار وجوہات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
سینئر ایڈوکیٹ ورندا گروور نے بھی ایس آئی آر کے آئینی جواز کے خلاف دلائل پیش کئے۔ انہوںنے کہا کہ اس عمل کیلئے فارم، ووٹرز کو خارج کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ جو خواتین جنوری۲۰۲۵ء تک الیکشن کمیشن کی سمری ریویژن کے مطابق ووٹرلسٹ میں تھیں، وہ اب ڈرافٹ رول میں بھی نہیں ہیں۔ یہ گزشتہ ۶؍ماہ میں ہوا، اس کی وجہ ایس آئی آر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔گروور نے استدلال کیا کہ ایس آئی آر الیکشن کمیشن کی طرف سے اپنے آپ کو اختیارات دینےکی ایک کوشش ہے جس کا قانون میں تصور نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن قانون سازی کے دائرے میں داخل ہو رہا ہے۔
ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے اپنی دلیل میں کہا کہ موجودہ ایس آئی آر ۲۰۰۲ء کے ایس آئی آر سے بالکل مختلف ہے۔ انہوں نے ایس آئی آر کی عجلت پر بھی سوال اٹھایا۔ پرشانت بھوشن نے کہا کہ ایسی صورتحال کیوں پیدا کی جارہی ہے جہاں ۳۰؍بی ایل اوز خودکشی کرچکے ہیں۔ بھوشن نے الیکشن کمیشن کے بارے میں مبینہ عوامی تاثر کا بھی حوالہ دیا۔ انہوںنے کہا کہ ہم اس حقیقت سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے کہ بہت سے لوگ الیکشن کمیشن کو غاصب کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔