یہ اجلاس عراق میں سیکوریٹی کی صورتحال کا جائزہ لینے کےبہانے طلب کیا گیا ہے
EPAPER
Updated: December 22, 2022, 12:25 PM IST | Washington
یہ اجلاس عراق میں سیکوریٹی کی صورتحال کا جائزہ لینے کےبہانے طلب کیا گیا ہے
ایک طرف یورپ ان دنوں معاشی مشکلات میں گرفتار ہے اور ایندھن کی قلت کا سامنا کر رہا ہے تو دوسری طرف عرب ممالک امریکہ کی مرضی کے بر خلاف تیل کی پیداوار اور قیمتوں کے تعلق سے اپنے فیصلے خود کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں خلیجی ممالک اور یورپی ممالک کے درمیان ایک اہم اجلاس ہو رہا ہے ۔ حالانکہ یہ اجلاس عراق میں سیکوریٹی کی صورتحال کا جائزہ لینےکے بہانے طلب کیا گیا ہے۔
اطلاع کے مطابق مشرق وسطیٰ اور یورپی ممالک کے سربراہان کے اجلاس کا آغاز اردن میں شاہ عبداللہ دوم کی میزبانی میں ہوگیا ہے۔یہ اہم ترین اجلاس اردن کے بحیرہ مردار کے کنارے سویمیہ میں’ بغداد کانفرنس برائے تعاون اور شراکت داری‘ کے عنوان سے منعقد کیا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ گزشتہ برس عراق میں ہونے والے اجلاس کا تسلسل ہے۔اجلاس سے افتتاحی خطاب میں اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ دوم نے کہا کہ یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب خطے کو سلامتی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور عراق میں سلامتی اور استحکام کے فروغ کا نادر موقع بھی ہے۔ یاد رہے کہ عراق ایک شورش زدہ ملک ہے جہاں ۲۰۰۳ء میں امریکہ نے حملہ کیا تھا جس کے بعد یہاں جو تباہی ہے اس سے نہ عوام باہر آسکے ہیں نہ ہی حکومتیں خود کو سنبھال سکی ہیں۔
اجلاس میں سعودی عرب، فرانس، عراق، ترکی، مصر، کویت، بحرین، عمان، یورپی یونین اور ایران کے اعلیٰ عہدیدار شامل ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کی نمائندگی وزرائے خارجہ کر رہے ہیں۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا کہ فرانس خطے کے استحکام سے منسلک ہے اور وہ بحیرۂ روم کے وسیع طاس میں امن و سلامتی کو فروغ دینے کے مفادات میں تعطل، تقسیم، غیر ملکی مداخلت اور سلامتی کے مسائل سے نبرد آزما ہے۔ایمانوئیل میکرون نے مزید کہا کہ عراق کئی برس سے علاقائی عدم استحکام کا سب سے بڑا شکار رہا ہے، ہمیں اس قابل ہونے کی ضرورت ہے کہ اس ملک کو بحرانوں سے نکال پائیں۔واضح رہے کہ عراق میں ۲۰۱۴ءسے داعش کے خلاف جنگ میں ملکی فوج کے ساتھ اتحادی ممالک نے بھی حصہ لیا اور طویل جنگ کے بعد داعش کا قبضہ واگزار کرالیا تاہم سیاسی بحران تاحال برقرار ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا ۔ اس وقت بھی خلیجی ممالک کے ساتھ چینی حکام کا ایک اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔ چینی صدر کے جانے کےبعد اس اجلاس کی اہمیت یوں بھی بڑھ جاتی ہے کہ چین اور یورپی ممالک میں ان دنوں چپقلش جاری ہے اور یہ دونوں ہی عرب ممالک کو اپنی جانب کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن اس وقت صورتحال میں یہ تفریق ہے کہ چین نے حال ہی میں سعودی عرب کے ساتھ کئی معاہدے کئے ہیں اور فلسطین کی ہر حال میں حمایت کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ یورپی ممالک عرب ممالک پر تیل کی پیداوار بڑھانے اور اس کے دام کم کرنے کیلئے دبائو بنا رہے ہیں۔ جبکہ فلسطین کے تعلق سے تاریخی اعتبار سے یورپی ممالک کا جھکائو اسرائیل کی جانب ہے۔ خبر لکھے جانے تک مذکورہ اجلاس کی کارروائیاں جاری تھیں اور کئی اہم مندوبین کا خطاب باقی تھا۔ اسلئے اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کی تفصیل حاصل نہیں ہو سکی۔