• Mon, 08 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

احمدآباد کی گلبرگ سوسائٹی کی ویرانیوں میں آج بھی۶۹؍ شہیدوں کی چیخوں کی گونج محسوس ہوتی ہے

Updated: December 12, 2022, 9:55 AM IST | saeed Ahmed | Mumbai

۱۸؍بنگلوں،۸؍ فلیٹ اور۱۳؍دکانوں پر مشتمل یہ سوسائٹی فساد میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کی گواہ ہے ، اس میں اب صرف محمد قاسم منصوری رہتے ہیں جو اس سانحہ میں اپنے خاندان کے۱۹؍ افراد کو کھو چکے ہیں

Qasim Mansuri showing the ruined Gulberg society. The bungalow of late Ehsan Jafri can be seen behind them
قاسم منصوری تباہ حال گلبرگ سوسائٹی دکھاتے ہوئے ۔ ان کے عقب میں مرحوم احسان جعفری کا بنگلہ دیکھا جاسکتاہے

 گجرات فساد کو ۲۰؍ سال ہوگئے مگر آج بھی  احمدآباد کی گلبرگ سوسائٹی کی ویرانیوں میں  یہاں شہید ہونے والےرکن پارلیمنٹ احسان جعفری سمیت ۶۹؍ افراد کی چیخیں  گونجتی ہوئی محسوس ہوتی  ہیں۔غیر آباد ہوچکی یہ سوسائٹی  فسادیوں کی حیوانیت اور درندگی کی گواہ بن   چکی ہے ۔ یہاں کی خاموشی میں عجیب سی بے قراری محسوس کی جاسکتی  ہے۔اس  سوسائٹی کی نگرانی  اب محمد قاسم منصوری کرتےہیںجن کے گھرکے ۱۹؍ افراد بھی فساد کے دوران شہید کردیئے گئے تھے۔  ۱۸؍بنگلوں،۸؍ فلیٹ اور۱۳؍دکانوں پر مشتمل یہ سوسائٹی کبھی  احمدآباد کے پڑھے لکھے اورمتمول مسلم طبقے کا مسکن تھی ۔چمن پورہ کی اس سوسائٹی کا پچھلا حصہ اساروا ریلوے اسٹیشن سےملا ہوا ہے ۔امن اور انسانیت کے دشمنوں نے روڈ اور ریلوے اسٹیشن دونوں جانب سے دھاوا بولاتھا اور ۲۸؍ فروری ۲۰۰۲ء کو۶۹؍ہنسی کھیلتی زندگیو ں کو آن واحد میں ختم کردیا تھا۔ 
   سوسائٹی  میں داخل ہوتے ہی  دائیںجانب جماعت خانہ ہے جو اب بھی آباد ہے۔ قریب میں بیکری چلانے والے اوروہاںکا عملہ اورکچھ اورلوگ یہاں نماز ادا کرتے ہیں۔آگے بڑھنے پر بوسیدہ بنگلوںکی قطار اور عمارت نظر آتی  ہے ۔ درمیان میںواقع اُس بنگلےپرنگاہ ٹک گئی جس میںاحسان جعفری رہا کرتے تھے۔ اس بنگلے کے سامنے والے حصے میںدرندوں کی حیوانیت صاف دکھائی دی  جوگ آگزنی کی گواہی دے رہاتھا ۔ جلنے کے نشانات اب بھی کسی حدتک موجود ہیں جبکہ اندر کےکمرے اوربالائی منزل پردراڑیں پڑ گئی ہیں،کچھ پرندوں نےاپنا آشیانہ بنالیا ہے اورخس وخاشاک اُگ آئے ہیں۔ 
  بنگلوں  اورعمارتوں کو بغور دیکھیں تو   اندازہ ہوتا  ہے کہ یہاں کے مکینوں نے  اپنے آشیانوں کو بڑی خوبصورتی سے سجایاتھا لیکن انہیںشاید یہ اندازہ نہیںتھا کہ امن کےدشمن  ایک  د ن  یاتو ان کی جان لے لیں گے یا پھر نقل  مکانی پرمجبور کردیں گے۔ ۲۸؍ فروری ۲۰۰۲ء کوجو شہید ہو گئے وہ تو دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن جو رہ گئے انہوں نے یہاں  سے نقل مکانی میں ہی عافیت سمجھی ۔ یہ لوگ اب ہرسال ۲۸؍ فروری کو اپنے مرحومین کو یادکرنےاوران کے حق میں ایصال ثواب   کیلئے گلبرگ سوسائٹی میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ علاقہ چمن پورہ کہلاتا ہے۔یہاں مسلمان کم ہیںجبکہ دلت ،مارواڑی، واگری جنہیںپٹنی بھی کہا جاتا ہے زیادہ ہیں۔  یوپی  سے تعلق رکھنے والوں  کی بھی خاصی تعداد اس علاقہ میں آباد ہے۔لیکن اسی چمن پورہ کی گلبرگ سوسائٹی اپنے اندر وہ درد اور بھیانک زخم چھپائےہوئے ہے جسے شاید کبھی بھلایا نہیں  جاسکے گا ۔
 سوسائٹی کی نگرانی کرنے والے ۷۸؍سالہ محمدقاسم منصوری سےملاقات ہوئی۔ علیک سلیک سے قبل ہی نمائندہ  نے تصویرکشی شروع کردی تھی ۔ کچھ وقفے کےبعد وہ آئے اوربات چیت شروع ہوئی۔انہیںایسا محسوس ہوا جیسے ۲۰؍ سال بعد پھر کوئی ان کا درد اورغم بانٹنے آگیا ہو۔ وہ کہتے ہیںکہ ’’میںخوش نصیب ہوں کہ فساد کے وقت بچ گیاتھا ،ہمیں توکوئی اندازہ ہی نہیںتھاکیونکہ کبھی ایسا دیکھنا تودور سنا بھی نہیں تھا۔ اس دن میں اسپتال میںاپنے ایک مریض رشتہ دار کو خون عطیہ کرنے گیا تھا، تبھی یہ اطلاع ملی کہ شرپسندوں نے سوسائٹی پرحملہ کردیا ہے اور آگ لگادی ہے۔ حالات ایسے تھے کہ آنامشکل تھا اورکچھ پڑوس کے لوگ بھی خوف کے سبب سوسائٹی میںآگئے تھے اور بیشترلوگ جعفری صاحب کے بنگلےمیں پناہ لینے کیلئےجمع ہوگئے تھے۔اس میں میری ماں، بیوی ،۶؍پوتے پوتیاں، ۳؍بہوئیں، ایک بیٹا،ایک بیٹی ، ۲؍ بھائی کی بہوئیں اوران کے ۲؍بیٹے ، اس طرح ۱۹؍افراد تھے جو شہید کردیئے گئے۔‘‘  قاسم منصوری نے  اخبارات میںشائع ہونے والی خبریں  اور اہل خانہ کی ایک گروپ تصویر بھی دکھائی جسے وہ بہت سہیج کر رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ۲؍بیٹے بچ گئے تھے ،ان کی دوبارہ شادی کی، اب بیٹوں، بہوؤں اور پوتےپوتیوںکے ساتھ یہاں نگرانی کرتا ہوں ۔ بچے گزر اوقات  کے لئے چھوٹے بچوں کا جھولا بناتے ہیں۔
 حکومت سے کوئی شکایت اورمطالبے پران کا کہنا تھا کہ ’’سب کچھ چھین لیا گیا ،کم ازکم معاوضے کے تئیںتو انصاف کیا گیا ہوتا ، اب تک  معاوضے کے۱۸؍ لاکھ ۸۶؍ہزار ۴۷۵؍ روپے ملنے باقی ہیں۔بار بار کوشش کرکے تھک گیا ہوں۔‘‘  انہوں نے شکایت کی کہ ’’جب سکھ فسادات میںمارے جانےوالوں کیلئےمعاوضے کی رقم بڑھاکر ۵؍لاکھ روپے کردی گئی   تو ہماراکیاقصور ہے کہ ہمیںمعاوضےسے بھی محروم رکھا جا رہا  ہے۔ حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہئے ۔‘‘قاسم منصوری کے مطابق ’’میرا ممبئی سےپرانا رشتہ ہے اورمیرے کئی رشتہ دار جوگیشوری، گورے گاؤں اوردیگر علاقوں میں رہتے ہیں اور میں  بھی  وہاں آتا جاتا رہتا ہوں ۔‘‘اہل خانہ کو یاد کرتے ہوئے انہوں  نے کہا کہ ’’بس اب جانے والوں کی یادیں ساتھ ہیں،دعا ہے کہ آئندہ پھر کبھی ایسا نہ ہواورکسی کے اپنے نہ چھینے جائیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK