Inquilab Logo

قربانی کی کھالوں کی بے وقعتی، خریدار نہ ملنے سے مدارس کا مالی نقصان

Updated: July 01, 2023, 10:38 AM IST | saeed Ahmed | Mumbai

چمڑا تاجروں کے مطابق ان کے پاس محض ایک لاکھ بکروں کے چمڑے رکھنے کی گنجائش ہے،بڑے جانوروں کا چمڑا دیونار انتظامیہ ڈمپنگ گراؤنڈ میں پھینکنے پر مجبور‌،کئی ٹیمپو واپس

A pile of leather in front of the Maloni Jamia Masjid. As the businessman did not come, he had to be dragged by the BMC vehicle.
مالونی جامع‌مسجد کے سامنے چمڑے کا ڈھیر۔ تاجر کے نہ آنے پر مجبوراً اسے بی ایم سی کی گاڑی کےذریعے پھکوانا پڑا۔

عیدالضحیٰ میں اس دفعہ بھی قربانی کی کھالوں کی بے وقعتی کی گئی اور زیادہ تر کھالیں پھینک دی گئیں۔ خریدار نہ ہونے کے سبب مدارس کا زبردست مالی نقصان ہوا۔ حالات یہ ہیں کہ دیونار انتظامیہ نے بڑے جانوروں کی کھالیں ڈمپنگ گراؤنڈ میں پھینکوادیں ۔ بکروں کی کھالیں بھی زیادہ تر  اسی طرح ضائع ہو گئیں، برائے نام فروخت ہوئیں۔ شہر اور مضافات کے بیشتر اداروں کے کچھ یہی احوال ہیں۔ذیل میں چند مدارس کی تفصیلات سےصورتحال مزید واضح ہوجائے گی۔ مدارس کے ذمہ داران سے رابطہ قائم کرنے پر انہوں نے پریشان کن حالات کا ذکر کیا۔
  دارالعلوم امدادیہ کے ناظم حافظ عظیم الرحمٰن صدیقی نے نمائندہ ٔانقلاب کو بتایا کہ بکروں کے کھالوں کی قیمت ۲۸؍ روپے طے ہوئی اور محض ایک ہی خریدار  سامنے آیا۔ اس کی وجہ سے حالات بہت خراب رہے ۔ اس دفعہ کچھ بہتری کی امید تھی لیکن حالات جوں کے توں رہے ۔ اس سے مدارس کا زبردست مالی نقصان ہوا ہے۔ یاد رہے کہ ممبئی میں دارالعلوم محمدیہ اور دارالعلوم امدادیہ وہ ادارے ہیں جہاں باقاعدہ چمڑے کی خریداری کا ٹینڈر کھولا جاتا تھا اور سب سے بہتر قیمت ملا کرتی تھی لیکن اس دفعہ یہاں بھی حالات دگرگوں رہے۔
مفت میں بھی چمڑا لے جانے پر راضی نہیں!
 مالونی انجمن جامع مسجد اور یہاں جاری دارالعلوم کے ذریعے کھالیں جمع کی گئیں اور لوگوں نے اپنے طور پر بھی پہنچائیں ۔ جامع مسجد کے صدر اجمل حسین خان نے بتایا کہ تقریباً ۷۰۰؍ کھالیں جمع ہوئی تھیں اس میں کچھ وہ کھالیں تھیں جو دوسرے اداروں کے ذمہ داران نے اس امید میں‌پہنچائی تھیں کہ جامع مسجد کے توسط سے ان کو بھی بہتر قیمت مل جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اتنے خراب حالات اس سے پہلے کبھی نہیں تھے۔ ہم نے تاجر سے رابطہ قائم کیا اس نے پہلے ۱۰؍ روپے فی کھال قیمت  لگائی اس کے بعد دوبارہ رابطہ قائم کیا تو اس نے کہا ہم ۵؍روپے میں لیں گے۔ہم لوگ اس پر بھی تیار ہو گئے۔ لیکن وہ نہیں آیا تو تیسری مرتبہ اس سے رابطہ قائم کیا کہ تم مفت‌ میں ہی کھالیں لے جاؤ اس پر اس نے جواب دیا کہ میں نے ۳؍ٹیمپو بھر کر چمڑا دھاراوی بازار میں بھیجا ہے لیکن وہاں خریدار نہ ہونے کی وجہ سے تینوں ٹیمپو اسی طرح کھڑے ہیں۔ اس لئے میں نہیں لے جا سکتا ۔
 ‌انجمن جامع مسجد کے صدر کے مطابق نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسجد کے سامنے جمع کھالوں سے زبردست تعفن پھوٹنے لگا اور جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لئے مسئلہ ہونے لگا تو نہ چاہتے ہوئے بھی بی ایم سی کی گاڑیاں منگوا کر چمڑا اٹھوانا پڑا۔
 اس سے پہلے ایسی بے وقعتی ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی
  مولانا نوشاد احمد صدیقی(جامعہ عربیہ منہاج السنہ) نے بتایا کہ ہم نے اپنے باورچی کے ذریعے ایک ٹیمپو میں کھالیں ایک تاجر کے پاس ملاڈ بھجوائیں اس نے دوسرے ٹیمپو سے دھاراوی چمڑا بازار  بجھوایا لیکن وہاں کوئی خریدار نہیں تھا۔ مولانا نے اپنے باورچی کے توسط سے یہ بھی بتایا کہ اس نے دھاراوی کا یہ منظر بیان کیا کہ وہاں قطار سے کئی ٹیمپو چمڑے سے بھرے کھڑے ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ رابطہ مدارس کے ترجمان مولانا عبدالقدوس شاکر کے مطابق قربانی کی کھالوں کے تعلق سے بہت تکلیف دہ صورتحال پیش آئی اور مدارس کا زبردست مالی نقصان ہوا ہے ۔ یہ بھی سچائی ہے کہ قربانی کی کھالوں کی بہت زیادہ بے وقعتی بھی ہوئی ہے۔ اس کے لئے منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
ہم چمڑا پھنکوانے پر مجبور ہیں 
   دیونار مذبح کے جنرل منیجر کلیم پٹھا‌ن پاشا نے انقلاب کو بتایا کہ بڑے جانوروں کی قربانی کی کھالیں کانٹریکٹر اٹھانے کے لئے تیار نہیں تھا چنانچہ ہمیں مجبوراً ڈمپنگ گراؤنڈ میں پھینکوانا پڑا۔ ہمیں اسی حصے میں دوسرے دن قربانی کا انتظام کرنا ہوتا ہے‌ اگر چمڑا نہ اٹھوایا جائے تو دوسرے اور تیسرے دن قربانی کرنا مشکل ہو جائے گا۔لہٰذا مجبوراً دیونار انتظامیہ یہ فیصلہ کرتا ہے۔ 
چمڑے کے تاجروں نے ایک لاکھ تک کھالیں خریدیں
 چمڑے کے بڑے تاجر عبدالعزیز عرف فجی نے بتایا کہ یہاں  ۱۲؍ سے ۱۳؍چمڑے کے تاجر ہیں۔ ان کے گودام میں مجموعی طور پر ایک لاکھ تک کھالیں اسٹاک رکھنے کی گنجائش ہے۔ جبکہ تقریباً ڈھائی تا ۳؍ لاکھ بکروں کی قربانی ہوتی ہے اور ۱۲؍تا ۱۵؍ہزار بڑے جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ ہم لوگوں نے بی ایم سی اور ایم ایم آر ڈی اے سے کرائے پر ۱۰؍ دن کیلئے جگہ مانگی تھی لیکن ٹال مٹول کا رویہ اپنایا گیا۔  اگر بی ایم سی نے جگہ پہلے دے دی‌ ہوتی تو ڈیڑھ تا ۲؍ لاکھ بکروں کی اور ۱۲؍ تا ۱۵؍ہزار بڑے جانوروں کی قربانی کی کھالیں ضائع نہ ہوتیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ان حالات کے لئے بی ایم سی کو ذمہ دار قرار دیا کہ ڈپو‌بنانے کیلئے جگہ دینے کے لئے صرف ایک دن قبل بی ایم سی نے فیصلہ کیا اور کہا کہ آکر اجازت نامہ لیجائیے جس سے ڈپو نہیں بنائے جاسکے، ورنہ حالات کسی قدر بہتر ضرور رہتے۔ آج دھاراوی میں قطار سے چمڑے سے بھرے ٹیمپو کھڑے ہیں لیکن خریدار نہیں ہیں۔

 

bakri eid Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK