Inquilab Logo

کیا منصور علی خان بنگلور سینٹرل لوک سبھا حلقے کی تاریخ بدل سکیں گے؟

Updated: May 02, 2024, 10:01 AM IST | Mumbai

اس حلقےمیں ساڑھے چار لاکھ مسلم اور ۲؍ لاکھ عیسائی رائے دہندگان کے علاوہ ساڑھے پانچ لاکھ تمل ووٹرس ہیں جنہیں آج کی تاریخ میں کانگریس حامی تصور کیا جاتا ہے، بی جے پی کو’ مودی میجک‘ پر بھروسہ

Congress leader Mansoor Ali Khan
کانگریس کے امیدوارمنصور علی خان

 کرناٹک میں لوک سبھا کی کل ۲۸؍ سیٹیں ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات میں کانگریس کے حصے میں صرف ایک سیٹ ہی آسکی تھی لیکن اس مرتبہ کانگریس کافی پُرامید ہے۔ وہ ریاست کی ۲۰؍ لوک سبھا  سیٹوں پر کامیابی کیلئے کام کررہی ہے۔ کرناٹک میں کانگریس جن سیٹوں پر کامیابی کے تئیں زیادہ مطمئن ہے، ان میں سے ایک سیٹ ’بنگلور سینٹرل لوک سبھا ‘سیٹ   ہے جہاں سے اس مرتبہ منصور علی خان اس کے امیدوار ہیں۔وہ ایک کامیاب تاجر اور ایجوکیشنسٹ ہیں جس کی وجہ سے وہ شہر اور بیرون شہر کافی مقبول ہیں۔ریاست کے ٹاپ پانچ امیر امیدواروںمیں ان کا شمار ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن میں  داخل حلف نامے کے مطابق ان کے جائیداد کی کل ملکیت ۹۷؍ کروڑروپے ہے۔ ان کی تنظیمی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے کانگریس نے انہیں کرناٹک میں پردیش کانگریس کمیٹی میں جنرل سیکریٹری اور تلنگانہ کے انچارج کی ذمہ داری سونپی ہے۔
 ان کی امیدواری کے بعد ہی سے کانگریس نے ان کی کامیابی کے تئیں اطمینا ن کااظہار کردیا تھا۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ بنگلور سینٹرل لوک سبھا حلقے میں مسلم اور عیسائی  رائے دہندگان کی تعداد بالترتیب ساڑھے چار لاکھ اور دو لاکھ ہے۔ آج کی تاریخ میں کانگریس کو پوری امید ہے کہ اس کے یہ ووٹ کہیں اور جانے والے نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس حلقے میں ساڑھے پانچ لاکھ تمل ووٹرس ہیں جن پر ڈی ایم اے کے واضح اثرات ہیں جو کانگریس کی اتحاد ی جماعت ہے۔ اس طرح حلقے کے ۲۱؍ لاکھ رائے دہندگان میں سے آج کی تاریخ میں ۱۲؍ لاکھ  ووٹرس کو کانگریس کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔ کانگریس اگر ایسا سوچ رہی ہے تواس میں کچھ غلط بھی نہیں ہے کیونکہ ۲۰۲۳ء کے اسمبلی انتخابات میں اس خطے میں ووٹنگ کا پیٹرن کچھ اسی طرح کا تھا۔  بنگلور سینٹرل لوک سبھا حلقے کے تحت ۸؍ اسمبلی حلقوں میں سے پانچ پر کانگریس کو کامیابی ملی تھی جبکہ بی جے پی کے حصے میں صرف تین سیٹیں ہی آسکی تھیں۔  ووٹنگ فیصد میں بھی کانگریس کافی آگے تھی۔ کانگریس کو مجموعی طورپر ۴۹؍ فیصد، بی جے پی کو ۴۳؍ فیصد اور جے ڈی ایس کو۳ء۲؍ ووٹ ملے تھے۔ اسمبلی الیکشن میں یہاں سے کانگریس کے تین مسلم امیدوار رضوان ارشد، این اے حارث اورضمیر احمد خان کامیاب ہوئے تھے۔  ان تینوں لیڈروں کے حلقے کے مسلم رائے دہندگان پر خاصے اثرات ہیں، جس کا فائدہ منصور علی خان اورکانگریس کو ملنے کا پورا امکان ہے۔
 یہ اور بات ہے کہ گزشتہ تین انتخابات سے یہاں بی جے پی کے امیدوار پی سی موہن کامیاب ہوتے آرہے ہیں۔ ۲۰۱۹ء کے الیکشن میں انہیں ۵۰؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ کانگریس کے رضوان ارشد کو ۴۴؍ فیصد ووٹوں پراکتفا کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح ۲۰۱۴ء میں انہیں ۵۱؍ فیصد اور رضوان ارشد کو ۳۹؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ ۲۰۰۹ء میں  بی جے پی اور کانگریس کے درمیان مقابلہ ذرا سخت تھا۔ اُس وقت انہیں بالترتیب ۴۰؍ اور ۳۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔۲۰۰۹ء کے الیکشن میں جنتادل سیکولر کی طرف سے ضمیراحمد خان امیدوار تھے جنہیں ۱۹؍ فیصد سے زائد ووٹ ملے تھے۔ بی جے پی امیدوار پی سی موہن کو امید ہے کہ وہ لگاتار چوتھی مرتبہ کامیابی حاصل کریں گے۔ ان کا خیال ہے کہ ایک بار مودی میجک چل گیا تو سارے انتخابی مساوات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔   
 بنگلور سینٹرل لوک سبھا حلقے میں ۲۶؍ اپریل کو پولنگ ہوچکی ہے۔ انتخابی نتائج تو بہرحال ۴؍ جون کو سامنے آئیں گے لیکن  یہاں سےکانگریس سے اطمینان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جیسا چاہ رہی تھی، اس طرح کی عوامی حمایت اسے ملی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK