Inquilab Logo

اٹھارہ سال قبل لارڈس یکروزہ کی کارکردگی ناقابل فراموش: محمد کیف

Updated: July 15, 2020, 1:38 PM IST | Agency | New Delhi

کیف نے کہا :جب میں بیٹنگ کیلئے جا رہا تھا تو شائقین کی گیلری سے لوگ جانا شروع ہوگئے تھے۔ انہیں لگا کہ سچن کے آؤٹ ہونے کیساتھ میچ ختم ہوچکا ہے

Mohammed Kaif - Pic : INN
محمد کیف ۔ تصویر : آئی این این

ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے اپنے وقت کے سرکردہ کھلاڑی محمد کیف نے ۱۸؍سال قبل لارڈس یکروزہ میں اپنی کارکردگی کو یاد کرتے ہوئے اسے ناقابل فراموش قرار دیا ہے۔ کیف نے بتایا کہ لارڈس کے میدان سے متعلق میری پہلی یاد جو میرے ذہن میں آتی ہے وہ ہے جب میں بیٹنگ کے لئے جا رہا تھا تو شائقین کی گیلری سے لوگ جانا شروع ہوگئے تھے۔ انہیں لگا کہ سچن کے آؤٹ ہونے کے ساتھ میچ ختم ہوچکا ہے ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ الہ آباد میں میرے اہل خانہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ فلم دیوداس قریب کے تھیٹر میں چل رہی تھی اور میرے والد ، جو دلیپ کمار کے مداح تھے سچن  کا وکٹ گرنے کے بعد شاہ رخ خان کی فلم دیو داس دیکھنے چلے گئے تھے ۔
 انہوں نے کہاکہ مجھے یہ بھی یاد ہے جب میں میدان میں چل رہا تھا ناصر حسین نے سلیجنگ شروع کردی تھی ۔ وہ بس ڈرائیور ہے۔ وہ تینڈولکر کے ادھر ادھر منڈلاتا رہتا ہے۔ لہجے کی وجہ سے مجھے یہ سمجھنے میں تھوڑا وقت لگا کہ اس نے بالکل ٹھیک کیا کہا لیکن میں نے واضح طور پر ’بس ڈرائیور‘ سنا۔ میں کوور پر قریبی فیلڈنگ کرتا تھا اور بلے بازوں سے بھی بہت بات چیت کرتا تھا اور اس لئے آپ کو سننے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ایک بار آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میں میری ایڈم گلکرسٹ کے ساتھ فیلڈ پر تکرار ہوئی اور اس دن میں فیلڈنگ میں کافی لطف اندوز ہوا۔ ناصر اس مرحلے پر اپنی ٹیم کی تشکیل نو کررہے تھے اور اس نے اپنی پہلی سنچری بنائی تھی۔ وہ پرجوش تھے کہ وہ میچ  جیتنے والے ہیں۔ مجھے جواب دینے کے لئے صحیح لمحے کا انتظار کرنا پڑا اور یہ میچ ہمارے جیتنے کے بعد ہوا۔ میں نے ناصر سے کہا: ’’بس ڈرائیور کے لئے برا نہیں ، ہاں؟‘‘
 کیف نے مزید کہا کہ  مجھے ڈریسنگ روم کا وہ منظر یاد آیا جب ہم ہدف کا تعاقب کرنے نکلے تھے۔ ہم یہ جاننے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے کہ ان دنوں کتنے ہدف کا پیچھا کرنا ہے اور یہاں ایک احساس تھا کہ `یہاں ہم دوبارہ آغاز کرتے ہیں۔ جوش کم تھا۔ ہمارے کوچ جان رائٹ ایک سرے پر کھڑے ہوئے تھےاور یہ کھلاڑیوں کی میٹنگ جیسی تھی۔ ہم آس پاس کھڑے ہوگئے جیسے ہی سورو گنگولی نے کہا: ’’گھبرانا مت۔ ہم ابھی اچھی شروعات کریں گے ، کوشش کریں گے کہ کوئی وکٹ نہ کھوئے ۔‘‘ اور انہوں نے وہی کیا جو انہوں نے کہا تھا۔ انہوں نے کوور پر ایک چھکا لگایا ، انہوں نے اور وریندر سہواگ نے ہمیں رفتار بخشی۔ لیکن پھر وکٹ گرے اور میں مڈل میں تھا۔ میں نے کبھی بھی ایسے ماحول میں نمبر ۷؍ پر  بیٹنگ نہیں کی تھی ، سچن بھی  آؤٹ ہوگئے اور ابھی بھی۲۴؍ اوور میں۱۸۰؍ رن کی ضرورت تھی۔
 محمد کیف نے مزید کہا کہ میں اور یوراج اپنے آپ کیلئے ایک نام بنانے کیلئے کوشاں تھے  اور ہم واقعی بہتر کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے یوتھ کی ٹیموں میں ایک ساتھ کھیلا تھا اور اچھی افہام و تفہیم تھی۔ مجھے یاد ہے کہ مطلوبہ  رن ریٹ کسی بھی مرحلے پر ۸؍ سے زیادہ نہیں نکلی۔ اس نے اپنے شاٹس کھیلے، میں نے بھی ہاتھ کھولنے شروع کئے اور رن آنے شروع ہو گئے ۔ کھیل آہستہ آہستہ گھومنے لگا۔
 ہندوستانی کرکٹ کے معاملے میں آج بڑا دن ہے۔ ٹھیک اسی دن ۱۸؍سال پہلے ہندوستان نے ایسی فتح حاصل کی تھی جس نے نوجوان نسل کو بڑے اعتماد سے بھر دیا تھا اور یہ۱۳؍ جولائی کو لارڈس میں ہندوستان اور انگلینڈ کے مابین کھیلی جانے والی نیٹ ویسٹ ٹرافی کا آخری میچ تھا۔ ٹیم انڈیا۳۲۶؍ رن کا تعاقب کر رہی تھی  اور جب ہندوستان نے۲۴؍ ویں اوور کی آخری گیند پر ۱۴۵؍رن  کے اسکور پر سچن تینڈولکر کا وکٹ گنوا دیا  تو ملک کے آدھے سے زیادہ شائقین نے اپنے ٹی وی سیٹ بند کر دیئے۔ یہ دور کچھ یوں ہوا کرتا تھا جب تک سچن کریز پر رہتے اس وقت تک جیت کی امید رہتی تھی اور جب سچن آؤٹ ہوتے تو مداح ٹی وی کے سیٹ سے پیچھے ہٹ جاتے۔ اور الہ آباد میں مقیم محمد کیف کا کنبہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھا۔
 اصل تاریخ سچن کے آؤٹ ہونے کے بعد لکھی گئی تھی۔ جب ہر ایک نے امید چھوڑ دی ، لمحہ بہ لمحہ ، امید کا چراغ جلتا رہا۔ یوراج اور کیف نے چھٹے وکٹ کی رفاقت میں ۱۰۶؍ گیندوں پر ۱۲۱؍ ناٹ آؤٹ بنائے اور ۳؍ گیندوں اور۲؍ وکٹ باقی رہتے ہندوستان کو۳۲۶؍ رن کا ہدف پر پہنچا دیا  اور لارڈس کی اس تاریخی فتح کو ۱۹۸۳ء میں کپل دیو کی ورلڈ کپ جیتنے کے بعد ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی جیت سمجھا جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK