۲۷؍ جولائی کو ’’ میزائل مین‘‘ ڈاکٹر عبدالکلام کی ۱۰؍ ویں برسی کی مناسبت سے: طلبہ سے خطاب کے بعد وہ انہیں سوال پوچھنے کا وقت دیتے اور ان کے ہر سوال کا دلچسپ اور منفرد جواب دیتے تھے۔
EPAPER
Updated: August 05, 2025, 4:51 PM IST | Afzal Usmani/Alia Syyed | Mumbai
۲۷؍ جولائی کو ’’ میزائل مین‘‘ ڈاکٹر عبدالکلام کی ۱۰؍ ویں برسی کی مناسبت سے: طلبہ سے خطاب کے بعد وہ انہیں سوال پوچھنے کا وقت دیتے اور ان کے ہر سوال کا دلچسپ اور منفرد جواب دیتے تھے۔
ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام جو طلبہ کیلئے ایک مثالی شخصیت تھے، ہمیشہ ان کے درمیان رہ کر خوشی محسوس کرتے تھے، ۲۷؍ جولائی کو انہیں دنیا سے رخصت ہوکر ۱۰؍ سال ہوجائیں گے۔ ان کے یوم وفات پر ہندوستان کے تعلیمی ادارےان کی شاندار خدمات کو یاد کرتے ہیں۔ وہ اپنی تقاریر کے بعد طلبہ سے ’’سوال و جواب کا خاص سیشن‘‘ کرتے تھے۔ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں طلبہ کے سوالوں کے جوابات دیتے اور انہیں عملی زندگی میں کامیابی کے گُر بھی سکھاتے تھے۔
(۱) ہم ایسا نصاب کس طرح تیار کریں جس کا مقصد ڈگری کے بجائے انسانوں کی تربیت ہو؟
ہمارے اسکولوں کے نصاب تین حصوں پر مشتمل ہونے چاہئیں، پرائمری ایجوکیشن، سیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن۔ پرائمری ایجوکیشن کا مقصد بچوں میں اختراع کو فروغ دینا ہونا چاہئے جس کے بعد قدرتی طور پر سیکنڈری اسکول کے نصاب کو تبدیل کیا جاسکے گا۔ ہائر ایجوکیشن کا مقصد انسان کو سیکھنے کیلئے خودمختار بنانا ہونا چاہئے۔اسی طرح تعلیم کا مقصد طلبہ میں تخلیق، اختراع اور اخلاقیات پیدا کرنا نیز انٹرپرینیورشپ کیلئے درکار صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہونا چاہئے۔
(۲) ہم کیسے جانیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟
اپنی زندگی کے مقصد کو جاننے کیلئے سب سے پہلے انسان کو اپنے دل کی آواز سننی چاہئے۔ انسان جس کام کو شوق، لگن اور خوشی کے ساتھ کرے وہی اس کے مقصد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ خود سے تین سوال ضرور پوچھیں اور اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں: (۱) میں کس چیز میںاچھا ہوں؟ (۲) میں کس کام کو دل سے کر سکتا ہوں؟ (۳) میری صلاحیتیں کس میدان میں دوسروں کے کام آ سکتی ہیں؟
(۳) کیا آج کے زمانے میں ’’اَن ایڈیڈ فیس سسٹم‘‘ سے دوسرا اے پی جے عبدااکلام بناناآسان ہے؟
میں نے۲۰؍ سال تک اسرو اوراس کے اگلے ۲۰؍سال ڈی آر ڈی او میں کام کیا ہے۔وہ انجینئرز اور سائنسداں، جنہوں نے میرےساتھ کام کیا تھا، آج وہیکل ڈیولپمنٹ اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اسی طرح میزائل ٹیکنالوجی کے میدان میںایسے لوگ ہیں جنہوں نے میرے ساتھ کام کیا ہے اور اب مختلف فیلڈز میں مجھ سے بہتر ٹاسک انجام دے رہے ہیں۔ انفرادی صلاحیت اہمیت نہیں رکھتی ہے۔جہاں ان ایڈیڈ فیس سسٹم کی بات ہے، میں نے اسکالرشپ سے تعلیم حاصل کی ۔ اس طرح کا تعلیمی اور فیس کانظام مطلوبہ نہیں ۔ اس مسئلے کے حل کیلئے کام کر رہے ہیں۔ اس تعلق سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے جس میں عدالت نے اداروں کو حکم جاری کیاہے کہ وہ پیشہ ورانہ کورسیز کیلئے مناسب لاگت کی فیس کا نظام نافذ کریں۔
(۴)انٹرپرینیور کی تعداد کس طرح بڑھا سکتے ہیں؟
نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت کے نصاب کو ۲۵؍ فیصد تک کم کر کے اور مہارتوں سے لیس تعلیم کو فروغ دے کر ہم انٹر پرینیور پیدا کر سکتے ہیں۔ اسکول کے اختتام میںطلبہ کے پاس اسکولی اور مہارت(Skill) کے سرٹیفکیٹس بھی ہوں گے۔ اس طرح ہم کسی بھی قوم میں انٹرپرینیور پیدا کرسکتے ہیں۔
(۵) سائنس و ٹیکنالوجی کس طرح ایک معیاری سماج کی تشکیل میں مددگار ہوسکتی ہیں؟
ہمارا تہذیبی ورثہ دیہاتی علاقوں میں موجود ۷۰۰؍ ملین افراد پر مشتمل ہے جس میں مشترکہ خاندان شامل ہیں۔ گاؤں میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان کتنے اچھے تعلقات ہیں، وہ ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے تئیں اپنائیت رکھتے ہیں۔ اتحاد کے اس خوبصورت تانے بانے کو معروف سماجی مفکرین، سائنسدانوں، مذہبی رہنماؤں وغیرہ کے ذریعہ ہفتہ میں ایک گھنٹے کی اخلاقی سائنس کی کلاس سے مزید پڑھائےجا سکتے ہیں۔ ایسے کسی ادارے سےنکلنے والے نوجوان معیاری سماج کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سائنس اورٹیکنالوجی نے انسانوں کو کئی سہولتیں دی ہیں اور آگے بھی فراہم کرتی رہیں گی۔
(۶) اگرآپ سیاسی لیڈربنے تو کیا کریں گے؟
میں ایسا لیڈر بنوں گا جو لوگوں کو خواب دیکھنا سکھائے اور ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ دے۔ میں ایسی قیادت کو پسند کروں گا جو نوجوانوں کی طاقت، تعلیم اور کردار سازی پر یقین رکھتی ہو۔ اس کے علاوہ میرا مقصد ہندوستان میں ایک ارب سے زائد عبدالکلام پیدا کرنا ہو گا۔ اس سے میرے ملک کا سر فخر سے بلند ہو گا۔
(۷) کامیابی(Success) اور ناکامی (Failure) میں کیا فرق ہے؟
کامیابی وہ چیز ہے جو تمہارے صبر، محنت اور سیکھنے کے جذبے کا صلہ ہے۔ ناکامی وہ استاد ہے جو تمہیں کامیابی کیلئے تیار کرتا ہے۔ناکامی دراصل کامیابی کا پہلا قدم ہے۔ اگر تم نے اسے سمجھا، سیکھا اور ہمت نہ ہاری — تو ناکامی دراصل تمہیں کامیابی کے قریب لے جا رہی ہے۔ناکامی سیکھنے کا ایک موقع ہے، اسے قبول کرو، تجزیہ کرو کہ کہاں غلطیاں ہوئیں اور آگے بڑھو اورجب تم مسلسل سیکھتے، بہتر بنتے اور کبھی ہار نہیں مانتے تو کامیابی تمہیں خود تلاش کرتی ہے۔ اس لئے ناکام ہونے سے کبھی نہیں گھبرائیں۔
(۸) ’’بیک بینچرز‘‘ کے متعلق آپ کے خیالات؟
میں اکثر سامنے کی سیٹوں پر بیٹھتا تھا لیکن کبھی کبھار پیچھے کی سیٹوں پر بھی بیٹھتا تھا۔ ہر طالب علم کی صلاحیت مختلف ہے۔ یہ بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے پہچان کر اس کی ان خوبیوں کو پروان چڑھائیں، پھر وہ سامنے والی بینچ پر بیٹھنے والے طلبہ ہوں یا پیچھے والی بینچوں پر۔ طلبہ کو ان کی صلاحیتوں کی مناسبت سے آگے بڑھانا چاہئے۔ ہر طالب علم ہر کام نہیں کرسکتا۔
(۹) ہندوستان کی طاقتیں اور کمزوریاں کیا ہیں؟
ہندوستان کی طاقت نوجوان ہیں اورکمزروری نوجوانوں میں مقصد کی کمی ہے۔وژن کے بغیر قوم ختم ہوجاتی ہے۔ نوجوانوں کے پاس عظیم مقاصدہونے چاہئیں۔
(۱۰) بچپن میں انگریزی یا دیگر مادری زبانوں پر توجہ کیوں دینا چاہئے؟ کیا کریئر کیلئے انگریزی زبان میں مہارت ضروری ہے؟
میری سیکنڈری اسکول میں مادری زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔ میں نے کالج کی تعلیم انگریزی میں حاصل کی ہے۔ کالجز میں مادری زبان میں پڑھایا جاسکتا ہے۔ مادری زبان سوچ کو وسیع کرتی ہے۔ بین الاقوامی روابط کیلئے انگریزی میں مہارت ضروری ہے۔
(۱۱) صدر بننے پر خوشی ہے یا اسرو کا سائنسداں؟
ڈاکٹر اے بی جے عبدالکلام، جو اساتذہ کے بچوں کی زندگی کو رخ دینے اور ملک کی ترقی میں شراکت داری کرنے کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں، نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ دنیا ہمیشہ مجھے ایک استاد کے طورپر یاد رکھے۔
(۱۲) بطورطالب علم مستقبل کے ہندوستان کا خواب پورا کرنے کیلئے ہم طلبہ کیا کرسکتے ہیں؟
بطور طالب علم آپ اپنے مقاصد پورے کر کے اور کامیابی حاصل کرنے کیلئے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ختم کر کے مستقبل کے ہندوستان کے خواب کو شرمندہ ٔ تعبیر کرنے میں شراکت داری کرسکتے ہیں۔ آپ کو اخلاقی اقدار کو اپنانا چاہئے اور انٹرپرینیور بننے کی طرف راغب ہونا چاہئے۔ چھٹیوں میں طلبہ غریبوں اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو پڑھاسکتے ہیں۔ وہ درخت لگا سکتے ہیں اور ماحولیاتی توازن بہتر بنانےمیں شراکت داری کرسکتے ہیں۔ اس طرح آپ ترقی کریں گے۔
(۱۳) آپ کے خیال میں سب سے خطرناک دشمن کیا ہے؟
مایوسی!یہی وہ کیفیت ہے کہ جب یہ آپ پر طاری ہوجاتی ہے تو انسان مثبت کے بجائے منفی سوچنا شروع کردیتا ہے۔ اگر آپ مایوس ہو جائیں گے، تو کچھ نہیں کر پائیں گے۔ امید اور حوصلہ ہمیشہ زندہ رکھو۔
(۱۴) آپ کو ’’ونگز آف فائر‘‘ لکھنے کی ترغیب کس نے دی ؟
میں نے سیکڑوں انجینئروں اور عملے کے ساتھ کام کیا ہے، یہی میری ترغیب تھی۔ میں نے یہ سیکھا کہ پہلی یہ کہ کوئی ملک کی ترقی میں شرکت داری کرسکتا ہے۔ میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ جو طلبہ غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے وہ مسلسل محنت اور ذہانت سے ترقی کرسکتے ہیں۔ انسانی دماغ طاقتور ہتھیار ہےجو ہرچیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
(۱۵) ملک کی ترقی میں نوجوانوں کا کیا کردار ہو؟
نوجوانوں کو خود پر اعتماد رکھنا چاہئے،مسلسل علم حاصل کرنے پر توجہ دینا چاہئے، اپنے ذمہ جو کام ہے اسے ایمانداری سے کرنا چاہئے اور ملک کی سماجی اور معاشی خدمت کیلئے خود کو ہمیشہ تیار رکھنا چاہئے۔
(۱۶) کوئی بھی نسل زندگی میں کامیاب کس طرح ہوسکتی ہے؟
کسی بھی نسل کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ طلبہ کو عظیم مقاصد تک پہنچنے کا خواب دیکھنا چاہئے، علم حاصل کرتے رہنا چاہئے،جدوجہد کرنی چاہئے اور ثابت قدمی کامیابی کا باعث بنے گی۔ زندگی میں کامیاب ہونےکیلئے آپ یہ منتر یاد رکھیں، نمبر ایک یہ کہ آپ کا مقصد عظیم ہونا چاہئے، نمبر دو یہ کہ آپ مسلسل علم حاصل کریں گے، نمبر تین یہ کہ آپ جدوجہد کریں گے اور نمبر چار یہ کہ آپ ثابت قدم رہیں گے۔اس طرح زندگی میں کامیاب ہوسکیں گے۔
(۱۷) ’’ٹائم مشین‘‘ کی ایجاد ہوجائے تو آپ سب سے پہلے اس کا استعمال کہاں کریں گے؟
ٹائم مشین کی ایجاد کا آئیڈیا مل جائے تو میں کائنات کی تعداد گنوں گا، یہ معلوم کرنے کی کوشش کروں گا کہ ستاروں کی پیدائش کس طرح ہوتی ہے اور انسانی زندگی کی شروعات کس طرح ہوئی؟
(۱۸) آپ کے ماضی کا ایسا واقعہ جس نے آپ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں؟
فرسٹ ایس ایل وی کے لانچ نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ ترقی کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کا سامنا کیسے کرنا ہے۔ ناکامیوں کا سامنا کیسے کرنا ہے اور انہیں کامیابی میں کیسے تبدیل کرناہے۔
(۱۹) کیا سائنس اور مذہب ایک ساتھ چل سکتے ہیں؟
بالکل! سچا مذہب سوال کرنے کی اجازت دیتا ہے، اور سائنس جواب تلاش کرتی ہے۔ سائنس حقیقت کی تلاش کرتی ہے اور مذہب بھی ہمیں سچائی، اخلاق اور روحانی ترقی کی راہ دکھاتا ہے۔ اگر سائنس انسانی فلاح کیلئے استعمال ہو اور مذہب انسان کو اچھائی، رحم اور دیانتداری سکھائے تو یہ دونوں مل کر ایک مثالی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ مذہبی اقدار اور سائنسی سوچ کو متوازن رکھ کر ہم انسانیت کی بہتر خدمت کر سکتے ہیں۔ یاد رکھئے کہ یہ دونوں مختلف ضرور ہیں مگر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔