Inquilab Logo

انگلینڈ کے ایف اے کپ کے ۶؍اہم ریکارڈ س

Updated: January 12, 2024, 5:07 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai

ایف اے کپ دراصل دی فٹبال اسوسی ایشن چیلنج کپ کو کہاجاتاہے جو ہرسال انگلش ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتاہے۔ یہ ٹورنامنٹ ناک آؤٹ راؤنڈ کی بنیاد پر کھیلا جاتا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کمزور ٹیمیں بھی بڑی اور مضبوط ٹیموں کو شکست دینے میں کامیاب رہتی ہیں۔

Arsenal Football Club has won the FA Cup title the most times. Photo: INN
آرسنل فٹبال کلب نے سب سے زیادہ مرتبہ ایف اے کپ کا خطاب جیتا ہے۔ تصویر : آئی این این

ایف اے کپ دراصل دی فٹبال اسوسی ایشن چیلنج کپ کو کہاجاتاہے جو ہرسال انگلش ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتاہے۔ یہ ٹورنامنٹ ناک آؤٹ راؤنڈ کی بنیاد پر کھیلا جاتا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کمزور ٹیمیں بھی بڑی اور مضبوط ٹیموں کو شکست دینے میں کامیاب رہتی ہیں۔ یہ انگلینڈ کا گھریلو فٹبال ٹورنامنٹ ہے اور اسے بہت اہمیت حاصل ہے۔ 
 انگلینڈ کے سب سے پرانے ٹورنامنٹ میں سے ایک ہے اور اس کی تاریخ ۱۵۳؍ سال پرانی ہے۔ ۱۸۷۱ء میں اس ٹورنامنٹ کا آغاز ہوا تھا۔ ۱۸۶۳ء میں فٹبال اسوسی ایشن کی بنیاد پڑی تھی جو فٹبال کے قوانین بناتی ہے۔ ۲؍عالمی جنگ کے دوران اس ٹورنامنٹ کا انعقاد نہیں ہوسکا تھااور بقیہ برسوں میں اس کا تسلسل کے ساتھ انعقاد ہوتا رہا ہے۔ امسال اس ٹورنامنٹ میں ۷۲۹؍ٹیموں سے شرکت کی ہے کیونکہ اس مقابلے میں انگلینڈ کی ۹؍درجے کی لیگ کی ٹیموں کو بھی شرکت کی اجازت دی ہے۔ ہرسال اگست ماہ سے اس کا آغاز ہوتا ہے جو مئی میں انگلش پریمیر لیگ کے خاتمے کے بعد بھی اختتام کو پہنچتا ہے۔ اس کا فائنل مئی میں ہوتا ہے۔ 
 ٹورنا منٹ جیتنے والا فٹبال کلب یوئیفا یوروپا کپ کیلئے براہ راست کوالیفائی ہو جاتا ہے۔اس کے ساتھ ہی ایف اے کپ کی فاتح ٹیم ایف اے کمیونیٹی شیلڈ کیلئے بھی کوالیفائی ہوتی ہے جس کا فائنل میں مقابلہ انگلش پریمیر لیگ کی ٹیم سے ہوتاہے۔ اس ٹورنامنٹ کے مختلف راؤنڈس الگ الگ مقامات کھیلے جاتے ہیں لیکن سیمی فائنل اور فائنل کا لندن کے تاریخی میدان ویمبلی اسٹیڈیم میں ہوتے ہیں۔ آج ہم آپ کو ایف اے کپ کے ۶؍اہم ریکارڈس کے بارے میں بتانے والے ہیں۔ 
 ۱۴؍ مرتبہ اس خطاب کو لندن کے آرسنل فٹبال کلب نے اپنے نام کیا ہے۔آرسنل نے ۱۹۳۰ء ، ۱۹۳۶ء، ۱۹۵۰ء، ۱۹۷۱ء، ۱۹۷۹ء، ۱۹۹۳ء، ۱۹۹۸ء، ۲۰۰۲ء، ۲۰۰۳ء، ۲۰۰۵ء، ۲۰۱۴ء، ۲۰۱۵ء، ۲۰۱۷ء اور ۲۰۲۰ء میں ایف اے کپ کے فائنل میں کامیابی حاصل کی تھی۔ آرسنل کے سابق منیجر آرسن وینگر کی رہنمائی میں فٹبال کلب نے سب سے زیادہ خطاب جیتے ہیں۔ 
۲۱؍ مرتبہ ۲؍فٹبال کلبوں نے سب سے زیادہ فائنل میں جگہ بنائی ہے۔ یہ آرسنل اور مانچسٹر یونائٹیڈ فٹبال کلب ہیں۔ دونوں نے مشتر کہ طورپر ۲۱۔۲۱؍مرتبہ انگلینڈ کے گھریلو ٹورنامنٹ کے فائنل میں جگہ بنائی ہے۔ حالانکہ آرسنل نے ۱۴؍بار چمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا جبکہ مانچسٹر یونائٹیڈ نے ۱۲؍مرتبہ چمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ پچھلے سال مانچسٹر ڈربی فائنل میں یونائٹیڈ کو مانچسٹر سٹی کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔ 
۲؍ ٹیموں کے نام خطاب کی ہیٹ ٹرک فتح کا ریکارڈ درج ہے۔ یہ ۲؍ ٹیمیں وانڈیررس اور بلیک روورس ہیں۔ ان دونوں فٹبال کلب نے یکے بعد دیگرے ۳؍ سال تک خطاب جیتے تھے۔ وانڈیررس نے ۱۸۷۶ء، ۱۸۷۷ء اور ۱۸۷۸ء میں کامیابی حاصل کی تھی۔ بلیک برن رووس فٹبال کلب نے ۱۸۸۴ء، ۱۸۸۵ء اور ۱۸۸۶ء میں خطاب اپنے نام کیا تھا۔ 
۶۹؍سال کے بعد پورٹس ماؤتھ فٹبال کلب نے ایف اے کپ کا خطاب دوسری بار جیتا تھا۔ اس فٹبال کلب نے سب سے پہلے ۱۹۳۹ء میں فائنل میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعداسے ۲۰۰۸ء میں دوسری بار خطاب جیتنے کا موقع ملا۔ انگلینڈ کے اس کلب کویہ خطاب جیتنے کیلئے ۶۹؍ سال تک انتظار کرنا پڑا تھا۔ 
۹؍مرتبہ مانچسٹر یونائٹیڈ فٹبال کلب کو فائنل میں شکست ہوئی ہے۔ یونائٹیڈ کے نام سب سے زیادہ بار فائنل میں ہارنے کا ریکارڈ درج ہے۔ یونائٹیڈ کو ۱۹۵۷ء، ۱۹۵۸ء، ۱۹۷۶ء، ۱۹۷۹ء، ۱۹۹۵ء، ۲۰۰۵ء، ۲۰۰۷ء، ۲۰۱۸ء اور ۲۰۲۳ء کے فائنل میں شکست برداشت کرنی پڑی تھی۔ یہ ریکارڈ اب بھی مانچسٹر یونائٹیڈ کلب کے پاس محفوظ ہے۔ 
۶؍گول سے فائنل میں کامیابی کامشترکہ ریکارڈ ۲؍ٹیموں کے پاس ہے۔ بری اور مانچسٹر سٹی نے اپنے اپنے حریفوں کو فائنل میں ۶۔۶؍گول سے شکست دی تھی۔ ۱۹۰۳ء کے فائنل میں بری کا مقابلہ ڈربی کاؤنٹی سے ہوا تھا اوریہ میچ اس نے ۰۔۶؍گول سے جیت لیا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں موجودہ چمپئن مانچسٹر سٹی فٹبال کلب کا فائنل میں سامنا ویٹفورڈ فٹبال کلب سے ہوا تھا اور یہ میچ سٹی نے ۰۔۶؍گول سے جیت لیا تھا۔ 
 متذکرہ ۶؍ریکارڈس کے علاوہ بھی بہت سے دیگر ریکارڈس بھی ہیں جن کے بارے میں تعلیمی انقلاب کے اس گوشے میں وقتاً فوقتاً پیش کئے جاتے رہیں گے۔ ایف اے کپ میں اکثر مضبوط ٹیمیں اپنی ٹیم کو موقع دیتی ہیں اور نوجوان کھلاڑیوں کو آزمانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ اسی لئے کمزور ٹیموں سے انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑتاہے۔ بہرحال اس سے کھلاڑیوں کی کارکردگی پتہ چلتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK