Inquilab Logo Happiest Places to Work

نریندر دابھولکر معاملے میں کچھ لوگوں کو سزا ضرور ہوئی لیکن مکمل انصاف نہیں مل سکا

Updated: May 19, 2024, 4:09 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

جو دانشور آزاد خیال تھے، ضعیف الاعتقادی کو پسند نہیں کرتے تھے اور اس کے خلاف زندگی بھر آواز اٹھاتے ر ہے۔ دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے ان میں سے کئی کو یکے بعد دیگرے بے رحمی سے قتل کردیا۔

All those who were waiting for justice in this matter, are deeply disappointed by this decision. Photo: INN
وہ تمام لوگ جو اس معاملے میں انصاف کے منتظر تھے،اس فیصلے سے انہیں سخت مایوسی ہوئی ہے۔ تصویر : آئی این این

جو دانشور آزاد خیال تھے، ضعیف الاعتقادی کو پسند نہیں کرتے تھے اور اس کے خلاف زندگی بھر آواز اٹھاتے ر ہے۔ دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے ان میں سے کئی کو یکے بعد دیگرے بے رحمی سے قتل کردیا۔ نریندر دابھولکر، گووند پانسرے، ایم ایم کلبرگی اور گوری لنکیش شدت پسندوں کے نشانے پر آئے اور اپنی جان گنوائے۔ افسوس کہ سوائے نریندر دابھولکر کے قاتلوں کے کسی اورکو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ پچھلے ہفتے خصوصی عدالت نے نریندر دابھولکر پر گولی چلانے والے ۲ مجرموں کو عمر قید کی سزا ضرور سنائی مگر حیرت انگیز طور پر سازش کے کلیدی ملزم اور سناتن سنستھا سے وابستہ ڈاکٹر وریندر تاوڑے کو ثبوتوں کی عدم موجودگی کے سبب بری کردیا۔ آیئے دیکھتے ہیں نریندر دابھولکر کے ملزمین کو عمر قید کی سزا ملنے پر مراٹھی اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے؟
پُڈھاری(۱۳؍مئی)
 اخبار لکھتا ہے کہ ’’مہاراشٹر، شاہو، پھلے اور امبیڈکر کاہے۔ اس ریاست میں جسٹس راناڈے سے لے کر گوکھلے تک اصلاح پسند اور ترقی پسند مفکرین کی ایک شاندار روایت رہی ہے۔ اسی روایت کے ایک امین نریندر دابھولکر بھی تھے۔ ۱۹۸۳ء میں انہوں نے اکھل بھارتیہ اندھ شردھا نرمولن سمیتی کی تشکیل دے کر بہت سے جعلی اور نام نہاد باباؤں کے کالے کارناموں کو بے نقاب کیا تھا۔ انہوں نے اس تنظیم کے ذریعے سائنسی نقطہ نظر اور سیکولرازم کو فروغ دینے کا کام بڑے پیمانے پر جاری رکھا تھا۔ دائیں بازو کی تنظیموں کو گوارا نہیں تھا کہ دابھولکر سماج میں تبدیلی کی فضا ہموار کریں۔ ۲۰؍ اگست ۲۰۱۳ء کو پونے میں انہیں گولی مار دی گئی۔ اس وقت مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوہان تھے۔ اب ۱۱؍ سال بعد دابھولکر قتل کا فیصلہ آیا ہے اور شرد کلسکر اور سچن اندورے کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ ڈاکٹر وریندر تاوڑے، سنجیو پونالیکر اور وکرم بھاوے کو ثبوتوں کی عدم موجودگی کے سبب بری کردیا گیا ہے۔ بھلے ہی ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے کچھ لوگ بری ہوگئے ہیں مگر یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں ہے کہ اس معاملے کو مکمل انصاف نہیں ملا ہے۔ ڈاکٹر وریندر تاوڑے کا اس جرم کے پیچھے کا مقصد واضح ہے، لیکن پولیس اور حکومت اس کے خلاف جرم کو ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ جج نے بھی پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ پولیس وکرم بھاوے اور سنجیو پونالیکر کے خلاف مضبوط ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی۔ ترقی پسند ریاست مہاراشٹر میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور تحقیقات سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، یہ افسوس کا مقام ہے۔ اس معاملے میں تفتیشی ایجنسیوں کے درمیان کوئی ربط ہی نہیں تھا۔ سی بی آئی اور ایس آئی ٹی کی نمائندگی کرنے والے وکیل باقاعدگی کے ساتھ سماعت کے دوران عدالت میں حاضر ہی نہیں رہتے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کیس کو کتنی سنجیدگی سے لے رہے تھے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: آر ٹی ای سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلے سے طلبہ، والدین اور سرپرستوں کو راحت

مہاراشٹر ٹائمز(۱۱؍مئی)
 اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’اندھ شردھا نرمولن سمیتی کے بانی نریندر دابھولکر کے قتل کے ۱۱؍ سال بعد مہذب سماج کا سر شرم سے جھک جائے ایسا عدالت کا فیصلہ آیا ہے۔ خصوصی عدالت نے ۲؍ ملزمین کو عمر قید اور۳؍ کو بری کردیا ہے۔ یہ نتیجہ قطعی تسلی بخش نہیں ہے۔ عدالتیں ایک مخصوص فریم ورک کے دائرے میں کام کرتی ہیں۔ گواہوں، دستاویزات، تفتیش، تکنیکی رپورٹس، وکلاء کی جرح اس فریم ورک کو مضبوط بناتا ہے تحقیقاتی ایجنسیاں اور حکومت انصاف کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے مگر اس معاملے میں شروع سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔ دابھولکر کا قتل ایک لحاظ سے مہاراشٹر کی تہذیب اور ثقافت کا قتل تھا۔ اس درد کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ اس قتل کے بعد تفتیشی ادارے ٹھیک سے کام کرتے اور تمام پارٹیاں سیاسی عزم کا مظاہرہ کرتیں تو دابھولکر کے قتل کے بعد قاتلوں کی گولیوں سے مزید تین جانیں (گووند پانسرے، گوری لنکیش، ایم ایم کلبرگی )بچ جاتیں لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ سماج دشمن عناصر کی ایک بڑی سازش کامیاب ہوگئی اور نریندر دابھولکر سمیت چار افراد کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ اس سازش کے رچنے والے کچھ لوگ گرفتار ہوئے مگر اس فیصلے کو اطمینان اور تسلی بخش نہیں کہا جاسکتا ہے۔ مہاراشٹر کی سماجی تحریکوں کو اس عدالتی فیصلے سے مدد ملنی چاہئے تھی مگر صرف مایوسی ہاتھ آئی۔ دابھولکر کے بعد گوری لنکیش، کلبرگی اور گووند پانسرے جیسے دانشوروں کو نشانہ بنانے والوں کو بھی قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ ‘‘
سکال(۱۳؍مئی)
 اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’آزادی کے ۷۵؍ سال بعد `امرت کال `مناتے ہوئے ہم اس بات پر فخر محسوس کررہے ہیں کہ پڑوسی ممالک سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں حکم شاہی اورفوجی آمریت کے سائے میں وہاں کے عوام کو اپنی زندگی بسر کرنی پڑ رہی ہے اور ہمارا ملک جمہوریت کا پاسدار بنا ہوا ہے۔ جدوجہد آزادی کی تکمیل کے بعد ہم نے یہ سب کچھ حاصل کیا۔ اس جدوجہد کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک اُس وقت کی روشن خیالی کی تحریک تھی۔ ملک کی ترقی کی بنیاد اسی روشن خیالی پر رکھی گئی۔ اگر اسے جدوجہد آزادی سے منہا کردیا جائے تو ایک بہت بڑا خلا رہ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں میں بہت سے لوگوں نے یہ کوشش کی ہے کہ آج کے معاشرے کا رشتہ روشن خیالی سے مضبوط رہے۔ اس کیلئے تحریکیں چلائی گئیں۔ ایسی تحریک چلانے والوں میں ایک اہم نام نریندر دابھولکر کا بھی ہے۔ اگرچہ قانونی عمل کا ایک مرحلہ اُس وقت پورا ہوا جب خصوصی عدالت نے دابھولکر کے قتل کے معاملے میں ۲؍ قصورواروں کو عمر قید کی سزا سنائی لیکن اس قتل کے پیچھے چھپی ذہنیت ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی ہوگی۔ اس سنگھی ذہنیت کا چیلنج جیسے جیسے سامنے آرہا ہے ویسے ویسے ہماری پولیس اور انتظامیہ کی خام کڑیاں بھی ایک ایک کرکے کھل کر سامنے آگئیں۔ اس پر سنجیدگی سے کچھ اقدامات کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK