• Tue, 15 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بیس روپے کا نیا سکہ …کچھ دور سے کچھ پاس سے

Updated: September 14, 2024, 2:25 PM IST | Muhammad Rafi Ansari | Bhiwandi

بچّو! تمہیں یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ۲۰؍روپے روپئے کا نیا سکہ بازار میں آگیا ہے۔ اسے دو تین برس پہلے ہی آنا تھا لیکن کورونا کی وبا کی وجہ سے اسے آنے میں دیر لگی۔

There is a very slight difference between twenty and ten coins. Photo: INN
بیس اور دس کے سکّوں میں بہت معمولی فرق ہے۔ تصویر : آئی این این

بچّو! تمہیں یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ۲۰؍روپے روپئے کا نیا سکہ بازار میں آگیا ہے۔ اسے دو تین برس پہلے ہی آنا تھا لیکن کورونا کی وبا کی وجہ سے اسے آنے میں دیر لگی۔ بارے اب یہ باقاعدہ ’سکہ ٔ رائج الوقت‘ ہو گیا ہے۔ یاد رکھو، وہ سرکاری سکہ جوکسی ملک میں رائج ہواُسے ’ سکہ ٔ رائج الوقت‘ کہتے ہیں۔ اس کے دوسرے معنی زمانے کا دستور یا معمول کے بھی ہیں۔ بیس روپے کے سکّے کی دسیوں خصوصیات ہیں۔ ۲۰؍ کا یہ سکہ ۱۰؍کے سکّے سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ دیکھنے میں دونوں جڑواں بھائی معلوم ہوتے ہیں۔ ہاں اگر ذرا سا غور کریں تو ان کے بھید کھلتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ آج کل کے سکّوں کی اصلیت سامنے آنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ بیس روپئے کا سکّہ بھی ایسا ہی ہے۔ یہ سکہ جیسے آتا ہے ویسے جاتا نہیں۔ مطلب یہ کہ بے خیالی میں ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ اگر اس پر نظر نہ رکھی جائے تو یہ ’جھونکا ہوا کاتھا اِدھر آیا اُدھر گیا ‘ کے مانند آکے چلا جاتا ہے۔ لوگ اکثر اس صورتِ حال سے دوچار ہوکر ہاتھ ملنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اکثر دکاندار اسے گاہک کے حوالے کرتے وقت تاکید بھی کرتے ہیں کہ ’ دیکھئے گا جناب !یہ بیس کا سکّہ ہے، مگر اس بات کو یاد رکھنے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یاد آنے پر بیس کا سکّہ نہیں ملتا۔ وہ لین دین کی نذر ہو چکا ہوتا ہے۔ فوری طور پرسکّوں کے بیچ میں اس کا پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔ قباحت یہ بھی ہے کہ اکیلا ہونے پر وہ جیب میں کہیں کھویارہتاہے۔ اکثر ڈھونڈنے پر بھی ہاتھ نہیں آتا…اور کبھی بغیر تلاش کے ہاتھ آکے پھر کھو جاتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:شیر ببر

ہمارے بچپن میں جو سکّے رائج تھے ان میں ایک ‘آنہ، دونّی، چونّی اور اٹھنّی کا بڑا نام تھا۔ ایک آنے کے سکّے کو ’اکنّی‘ دوآنے کے سکّے کو دونّی، چارآنے کے سکّے کو چونّی اور آٹھ آنے کے سکّے کو اٹھنّی کہتے تھے۔ ایک روپیہ میں سولہ آنے ہوتے تھے۔ آنہ روپئے کا سولھواں حصہ ہوتا تھا۔ ایک آنہ چار پیسے کے برابر کا سکّہ ہوتا تھا۔ ہم بچوں کوا سکول جاتے وقت ایک آنہ ملتا تو گویا بہت ہوتا۔ کبھی چونّی مل جاتی تو پھولے نہیں سماتے اور اٹھنّی ملنے پر تو ہمارے پاؤں زمین پر پڑتے ہی نہ تھے۔ عیدی کی شکل میں روپیہ، دو روپیہ ملنے پر عید کی خوشیاں اگلی عید تک برقرار رہتیں۔ 
 بچّو! وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ روپئے پیسوں کی شکل و صورت بھی بدلتی رہتی ہے۔ تم بھی اپنی آئندہ زندگی میں گاہے گاہے روپیوں کی بدلتی ہوئی شکلیں دیکھو گے۔ بے شک روپئے پیسوں کی اہمیت ہے۔ مگر زیادہ اہمیت محنت سے روپئے پیسے کمانے کی ہے۔ چلئے باتیں بہت ہوئیں ۔ لو اب ہم تمہیں نئے ۲۰؍روپےکے سکّے کی کچھ خاص باتیں بتاتے ہیں۔ 
٭اس سکّے کے اصل رُخ پر یعنی آگے کی طرف ’اشوک کا ستون‘بنا ہوا ہے۔ اس کے نیچے ’ستیہ مییو جئتے ‘ لکھا ہے۔ لکھاوٹ بہت خوبصورت ہے۔ 
٭سکّے کے دوسری جانب ہندی اور انگریزی میں ۲۰؍روپے لکھا ہے۔ 
٭اس سکّے کی بناوٹ میں تین دھاتوں تانبہ، جستہ اور نِکل کا استعمال ہوا ہے۔ اس طرح کہ اس میں تانبہ ۶۵؍فیصد، نِکل ۲۰؍فیصد اور جستہ ۱۵؍فیصد شامل ہے۔ 
٭ ۲۰؍ روپے والے اس سکّے کا وزن ۸ء۴۵؍ گرام ہے اورڈائی میٹر۲۷؍ملی لیٹر ہے۔ 
٭۲۰؍روپے کے سکّہ کی گولائی پر ایسے بارہ کنارے ہیں جن کی مدد سے اسے نابینا افراد بھی شناخت کر سکتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک انوکھی بات ہے۔ 
٭اس سکّے کے اگلے حصّہ پر اناج کی بال بھی بہت نمایاں ہے۔ یہ ہمارے زرعی ملک ہونے کا نشانِ امتیاز ہے۔ 
٭اسے ’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن احمد آباد ‘ کی ایک ٹیم نے ڈیزائن کیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK