• Wed, 09 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہیرے والا شترمرغ

Updated: November 04, 2023, 12:53 PM IST | Dr Rauf Parekh | Mumbai

’’اگر تم پرندوں کی قیمت کی بات کرتے ہو تو میں تمہیں بتاؤں کہ میں نے ایک ایسا شترمرغ بھی دیکھا ہے جس کی قیمت تین ہزار پاؤنڈ لگائی گئی تھی۔ سمجھے؟‘‘

Photo: INN
تصویر:آئی این این

’’اگر تم پرندوں کی قیمت کی بات کرتے ہو تو میں تمہیں بتاؤں کہ میں نے ایک ایسا شترمرغ بھی دیکھا ہے جس کی قیمت تین ہزار پاؤنڈ لگائی گئی تھی۔ سمجھے؟‘‘ اس نے مجھے چشمے کے اوپر سے گھورتے ہوئے کہا۔ اس کا کام پرندوں کی کھال میں بھُس بھر کر انہیں بیچناتھا، اسی لئے وہ پرندوں اور ان کی قیمتوں کے قصےسنایا کرتا تھا۔
میں نے حیرت ظاہر کی، ’’کیا وہ شترمرغ کسی نایاب نسل کا تھا؟‘‘’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ اور باقی چار شترمرغ جن کا قصہ سنانے والا ہوں، وہ پانچوں عام سے شترمرغ تھے، بلکہ ایک کی کھال کا رنگ بھی مناسب دانہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے اڑ گیا تھا، لیکن ان میں سے ایک شترمرغ نے ایک نہایت قیمتی ہیرا نگل لیا تھا۔‘‘’’شترمرغ نے ہیرا نگل لیا تھا؟‘‘ ’’ہاں۔‘‘ اس نے ہماری دلچسپی کو دیکھ کر پورا قصہ سنایا:  وہ ہیرا ایک بیوپاری کا تھا جس کا نام موہن تھا۔ موہن کی پگڑی میں وہ ہیرا لگا ہوا تھا۔ شترمرغ نے اس کی پگڑی پر چونچ ماری اور ہیرا نگل لیا۔ جب موہن کو پتا چلا تو اس نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ میں ان لوگوں میں شامل تھا جو سب سے پہلے وہاں پہنچے۔ دراصل ہم لوگ لندن جانے کیلئے ایک بحری جہاز میں سوار ہو رہے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو موہن اور شترمرغ کے رکھوالے کے درمیان اچھی خاصی گرما گرمی ہو رہی تھی۔ یہ پانچوں شترمرغ لندن لے جانے کی غرض سے بحری جہاز پر پہنچائے جا رہے تھے کہ ان میں سے ایک نے پاس کھڑے ہوئے موہن کی پگڑی میں لگا ہوا ہیرا نگل لیا۔ اس وقت شترمرغوں کا رکھوالا وہاں موجود نہیں تھا۔ اسلئے اسے بھی پتا نہ تھا کہ کون سے شترمرغ نے ہیرا نگلا ہے۔ بہرحال ہم سب بحری جہاز پر سوار ہو گئے اور جہاز روانہ ہو گیا۔ شترمرغ بھی جہاز پر سوار تھے۔بحری جہاز پر خبریں تیزی سے پھیلتی ہیں۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر بعد تمام مسافروں کو اس بات کا پتا لگ گیا۔
 ہر شخص اسی کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ رات کے کھانے پر جب سب مسافر جہاز کے کھانے کے کمرے میں جمع ہوے تو موہن ایک میز پر جہاز کے کپتان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ موہن نے کپتان پر زور دیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس کا ہیرا واپس دلوائے۔ اس کا کہنا تھا میں وہ شتر مرغ نہیں خریدوں گا بلکہ مجھے میرا قیمتی ہیرا دلوانا کپتان کا فرض ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر مجھے میرا ہیرا واپس نہ ملا تو میں لندن پہنچ کر پولیس میں شکایت درج کروں گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ شترمرغوں کو کوئی دوا کھلا کر ہیرا حاصل کیا جائے۔ اُدھر شتر مرغوں کا رکھوالا بھی ایک ضدی آدمی نکلا۔ اس نے کہا کہ میں شترمرغوں کو دوا دے کر ہیرا حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس طرح یہ مسئلہ ایک قانونی شکل اختیار کر گیا تھا، لیکن جہاز پر کوئی وکیل موجود نہ تھا، اس لئے ہر مسافر اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔ مسافر میں سے اکثر کا کہنا یہ تھا کہ موہن کو شترمرغ خرید لینے چاہئیں، پھر اس کا جو جی چاہے ان کے ساتھ کرے۔ جہاز عدن کی بندرگاہ پر رکا اور جب وہاں سے چلا تو رات کے کھانے پر موہن نے مسافروں کی بات مان لی اور پانچ کے پانچ شترمرغ خریدنے کیلئے تیار ہو گیا، لیکن اگلی صبح ناشتے پر صورتحال پھر بدل گئی کیونکہ شتر مرغوں کے رکھوالے نے اعلان کیا کہ وہ شتر مرغوں کا مالک نہیں ہے اس لئے وہ انہیں بیچ نہیں سکتا۔ اس پر ایک مسافر کھڑا ہو گیا۔ اس کا نام پوٹر تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ شترمرغوں کے رکھوالے کو میں نے بھی اچھی خاصی رقم کی پیشکش کی تھی، لیکن وہ شترمرغ بیچنے پر تیار نہیں تھا، اسلئے جب جہاز عدن پر ٹھہرا تھا تو میں نے وہاں سے شترمرغ کے مالک کو لندن میں تار دے کر تمام شترمرغ خریدنے کی پیشکش کی تھی۔ اس کا جوابی تار مجھے جہاز کی اگلی منزل یعنی سویز پر مل جائیگا۔ یہ سن کر موہن نے پوٹر کو سب کے سامنے برا بھلا کہا۔
 جب جہاز سویز پہنچا تو پوٹر کے تار کا جواب لندن سے آ چکا تھا۔ شترمرغ کے مالک نے انہیں پوٹر کے ہاتھ فروخت کرنے کی ہامی بھر لی تھی۔ اب پوٹر شترمرغوں کا مالک بن چکا تھا۔ یہ خبر سن کر موہن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آخر اس نے پوٹر سے کہا میں شترمرغ تم سے خریدنے کیلئے تیار ہوں۔ تم فی شترمرغ پانچ سو پاؤنڈ کے حساب سے پانچ شترمرغوں کے ڈھائی ہزار پاؤنڈ لے لو۔ اس پر پوٹر نے کہا کہ میں نے یہ شترمرغ بیچنے کیلئے نہیں خریدے۔ میرا ارادہ ان کے پیٹ چاک کرکے ہیرا تلاش کرنے کا ہے لیکن بعد میں پوٹر کا ارادہ بدل گیا اور اس نے شترمرغ نیلام کرنے کا اعلان کیا لیکن اس نے ایک شرط بھی رکھی۔ وہ یہ کہ کسی شخص کے ہاتھ ایک سے زیادہ شترمرغ فروخت نہیں کئے جائینگے اور ایک شترمرغ وہ اپنے لئے رکھے گا تاکہ قسمت آزما سکے۔ کیا پتا ہیرا اسی میں سے نکلے۔ وہ ہیرا بہت قیمتی تھا۔ ہمارے ساتھ بحری جہاز پر ہیروں کا ایک تاجر بھی سفر کر رہا تھا۔ جب موہن نے اسے اس ہیرے کے بارے میں بتایا کہ کیسا تھا اور کتنا بڑا تھا تو اس نے اس کی قیمت اندازاً چار سے پانچ ہزار پاؤنڈ بتائی۔ جب جہاز کے مسافروں کو ہیرے کی قیمت کا پتا چلا تو وہ بےچینی سے نیلامی کا انتظار کرنے لگے۔ اب اتفاق کی بات کہ شترمرغ کے رکھوالے سے مجھے باتوں باتوں میں پتا چلا کہ ایک شترمرغ بیمار ہے اور اس کے پیٹ میں گڑبڑ ہے۔ میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہ وہی شترمرغ ہے جس کے پیٹ میں ہیرا ہے۔ اسی لئے اس کے پیٹ میں گڑبڑ ہے۔
اگلے روز جب نیلامی شروع ہوئی تو سب سے پہلے یہی شتر مرغ لایا گیا۔ بولی آٹھ سو پاؤنڈ سے شروع ہوئی۔ موہن نے فوراً ساڑھے آٹھ سو کی بولی دی جس کے جواب میں میں نے نو سو پاؤنڈ کی آواز لگائی۔ مجھے یقین تھا کہ ہیرا اسی شترمرغ کے پیٹ میں ہے اور اتنے زیادہ بھاؤ یعنی نو سو پاؤنڈ سے کوئی آگے نہیں بڑھے گا، لیکن موہن بالکل باؤلا ہو گیا تھا۔ اس نے اندھا دھند بولی بڑھانی شروع کی۔ ہیروں کا تاجر بھی بڑھ چڑھ کر بولی لگا رہا تھا۔ اس نے بولی ایک ہزار سات سو پاؤنڈ تک پہنچا دی۔ اس موقع پر پوٹر نے اس کے حق میں بولی ایک دو تین کہہ کر ختم کر دی۔ موہن نے ایک ہزار آٹھ سو کی آواز لگائی، لیکن تب تک پوٹر تین کہہ چکا تھا۔ موہن ہاتھ ملتا رہ گیا۔ تاجر نے پوٹر کو شترمرغ کی قیمت ادا کی اور اسی وقت پستول نکال کر شترمرغ کو گولی مار دی۔ اس پر پوٹر نے خوب شور مچایا اور کہا کہ اگر شترمرغ کو اسی وقت کاٹا گیا تو اس سے نیلامی پر برا اثر پڑے گا کیونکہ اگر اس میں سے ہیرا نکل آیا تو میرے باقی شترمرغ کوئی نہیں خریدے گا، لیکن ہم سب ہیرا دیکھنے کیلئے اس قدر بےچین تھے کہ سب نے سنی اَن سنی کر دی۔ شترمرغ کو چیرا پھاڑا گیا، لیکن اس میں سے کچھ نہ نکلا۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ میرا نقصان ہوتے ہوتے رہ گیا کیونکہ میں خود اس شترمرغ کی ایک ہزار چار سو پاؤنڈ قیمت لگا چکا تھا۔ تاجر نے کسی خاص افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ البتہ پوٹر نے یہ کہہ کر نیلامی بند کر دی کہ جب تک سارے شترمرغ نہیں بک جاتے وہ کسی کو شتر مرغوں کی چیر پھاڑ نہیں کرنے دے گا مگر تاجر کا کہنا تھا کہ جب کوئی شخص ایک چیز خرید تا ہے تو اس کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ جب اور جیسا چاہے سلوک کرے۔ بات بڑھ گئی اور گرما گرمی ہونے لگی تو نیلامی اگلی صبح تک روک دی گئی۔  رات کو کھانے کی میز پر کپتان نے کہا کہ جہاز پر شترمرغ کی خرید و فروخت کی اجازت ہے، مگر ان کے قتل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ لندن پہنچنے کے بعد جہاز سے اتر کر مسافروں کا جو جی چاہے شترمرغوں کے ساتھ کریں۔ اگلی صبح بولی کل سے بھی زیادہ پر شروع ہوئی۔ میرے پاس پیسے کم تھے اس لئے میں تو پیچھے ہٹ گیا۔ ایک شترمرغ دو ہزار پاؤنڈ کا بکا۔ ایک کی قیمت دو ہزار تین سو پاؤنڈ لگائی گئی۔ تیسرا ڈھائی ہزار پاؤنڈ میں فروخت ہوا، لیکن عجیب بات تھی کہ موہن نے ان میں سے ایک بھی نہیں خریدا، بلکہ جب بولی لگائی جا رہی تھی تو وہ ایک کونے میں بیٹھا لندن پہنچ کر پولیس میں رپورٹ درج کرانے کی باتیں کر رہا تھا۔ فروخت ہونے والے تین شتر مرغوں میں سے ایک اسی ہیرے کے تاجر نے خریدا۔ ایک شترمرغ ایک افسر نے خریدا جو جہاز پر سفر کر رہا تھا۔ تیسرا اس جہاز کے انجینئروں نے آپس میں پیسے جمع کرکے خرید لیا۔ جب نیلامی ختم ہوئی تو پوٹر اُداس ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے شترمرغ بیچ کر بےوقوفی کی ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے اپنے لئے جو شترمرغ رکھا تھا وہ بھی اس نے ایک مسافر کو تین ہزار پاؤنڈ میں رات ہی بیچ دیا تھا، لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس میں بےوقوفی کی کیا بات ہے۔ جو شتر مرغ اس نے ۸؍ سو پاؤنڈ میں خریدے ہوں گے وہ اس نے ایک ایک کرکے ساڑھے گیارہ ہزار پاؤنڈ میں بیچ دیئے۔ آخر جہاز لندن کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔
 شترمرغ خریدنے والوں نے انہیں وہیں چیرنے پھاڑنے کا ارادہ کیا لیکن بندرگاہ کے افسروں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ موہن پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر دوڑتا پھر رہا تھا۔ جن لوگوں نے شترمرغ خریدے تھے وہ ان سے ان کے نام اور پتے پوچھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ان کے خریدے ہوئے شترمرغ سے ہیرا نکل آئے تو مجھے خط لکھ کر بتائیں لیکن کسی نے بھی اسے اپنا نام پتا نہیں دیا۔ موہن نے پوٹر کو بھی برا بھلا کہا لیکن پوٹر نے اپنا سامان اٹھایا اور چل پڑا۔ باقی مسافر بھی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ شتر مرغ خریدنے والوں نے انہیں لدوایا اور وہ بھی چل پڑے۔
 یہ کہہ کر وہ چپ ہوگیا اور ایک پرندے کی کھال میں بھس بھرنے لگا۔ میں نے بےصبری سے کہا، ’’پھر کیا ہوا؟ ہیرا کون سے شترمرغ میں تھا؟‘‘ وہ مسکرایا اور بولا، ’’میرے خیال سے کسی میں بھی نہیں۔‘‘ ’’وہ کیوں؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ اس نے بتانا شروع کیا، ’’یہ بات مجھے کبھی معلوم نہ ہوتی اور میں یہی سمجھتا رہتا کہ موہن کا ہیرا کسی شترمرغ نے نگل لیا تھا، لیکن اتفاق کی بات ہے کہ لندن پہنچنے کے ایک ہفتے بعد میں لندن کی ریجنٹ اسٹریٹ میں خریداری کر رہا تھا کہ مجھے موہن اور پوٹر نظر آئے۔ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، بہت خوش خوش، مسکراتے ہوئے جا رہے تھے۔ دونوں نے بہت عمدہ اور مہنگے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میں چُپ چاپ انہیں دیکھنے لگا۔ انہوں نے کوئی چیز خریدی۔ موہن نے پیسے دینے کیلئے بٹوا نکالا تو وہ نوٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ لگ رہا تھا کہ دونوں کو کہیں سے بہت سا روپیہ ہاتھ لگا ہے۔‘‘میں نے ایک لمبی سانس لے کر کہا، ’’بہت خوب! تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی شترمرغ نے کوئی ہیرا نہیں نگلا تھا۔ موہن اور پوٹر دونوں ساتھی تھے اور انہوں نے اس طرح نیلامی کے ذریعے سے ہزاروں پاؤنڈ بٹور لئے۔‘‘ اس نے مسکرا کر ’’ہاں۔‘‘ کہا اور سر جھکا کر پرندوں کی کھال میں بھُس بھرنے لگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK