• Mon, 10 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

شرارت سے توبہ

Updated: November 18, 2023, 12:58 PM IST | Rahim Raza | Mumbai

ماجد کو بدتمیزی، لاپروائی اور ساتھیوں سے مار پیٹ کیلئے کئی مرتبہ سمجھانے اور تنبیہ کرنے پر بھی اثر نہ ہوا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے اس کے والدین کو بلا کر اسکول سے نکال دینے کی بات کی تھی۔ اب یہ ساری باتیں سامنے آنے والی تھیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

عادل حسین پسینے میں شرابور گیراج بند کرکے گھر لوٹ رہے تھے۔ حسب ِ معمول وہ پھل لینے کیلئے ٹھیلے پر رکے۔ پھل دیتے ہوئے دکاندار نے پوچھا، ’’عادل بھائی آج تو کافی دیر ہوگئی؟‘‘
 ’’ہاں بھائی! کام کام ہوتا ہے۔ گاہک کو اس کے وقت پر دینا پڑتا ہے۔ چاہے ہمارے کھانے پینے کا اوقات میں تبدیلی کرنی پڑے۔ گاہک کو خوش رکھنا ضروری ہے۔‘‘
 ’’بالکل صحیح کہا آپ نے۔ ویسے بھی کتنی مندی ہے بھولے بھٹکے ہی کوئی گاہک آتا ہے۔ صبح سے میرا بھی مال ویسے کا ویسا پڑا ہے پھر بھی آپ جیسے کچھ گاہک ہیں جو روزانہ اپنے گھر کچھ نہ کچھ لے جاتے ہیں سو گزر بسر چل رہی ہے۔ لوگ بھی کیا کریں ۔ ہر چیز کی قیمت اب آسمان کو چھو رہی ہے۔ روزی روٹی ٹھیک سے چلے تو لوگ پھل کی طرف بھی دیکھیں ۔‘‘
 ’’ہاں ہاں .... لیکن عبدل میاں ! جو لوگ محنت اور ایمانداری سے اپنی روزی کماتے ہیں ا ور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ اللہ ان کے رزق میں برکت دیتا ہے۔‘‘
 ’’جی صحیح کہتے ہیں آپ۔‘‘
 عادل حسین نے گھر کی طرف قدم بڑھا دیئے۔ گلی کے نکڑ پر ہی کسی نے کہہ دیا کہ ان کا چھوٹا بیٹا ساجد روتا ہوا گھر کی طرف گیا ہے۔ وہ کچھ پریشان ہوئے۔ اس وقت ساجد گھر کی طرف؟ کہیں طبیعت تو خراب نہیں ہوگئی؟ وہ اپنے بچوں کے معاملے میں کافی جذباتی تھے۔ خود تو زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن بچوں کو پڑھانا چاہتے تھے۔ بچوں کی طرف کسی کی ترچھی نگاہ بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی بچوں کی شکایت کرتا تو فوراً آگ بگولہ ہو جاتے اور شکایت کرنے والے کو ہی صلواتیں سناتے اس لئے اب پڑوسی بھی ان کے بچوں کی شرارتوں پر چپ رہنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ساجد اور ماجد دونوں بھائی شرارتی ہونے کے ساتھ ساتھ ضدی بھی ہوگئے تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ انہیں اپنی ماں کی طرف سے بھی مکمل آزادی تھی کوئی پوچھ تاچھ نہ کوئی روک ٹوک بلکہ وہ اپنے لاڈلوں کی غلطیوں پر ہمیشہ پردہ ڈال دیتی تھیں ۔ دونوں بھائی نہ وقت پر اسکول جاتے نہ ہوم ورک کرتے یہی وجہ تھی کہ ماجد میٹرک کے امتحان میں فیل ہوگیا۔
 عادل حسین جو اپنی والدہ کا بہت احترام کرتے تھے ان کی ہر بات مانتے تھے لیکن بچوں کو لے کر کبھی کبھی والدہ کی بات کو نظرانداز کر دیتے، بیچاری دل مسوس کر رہ جاتی۔ ماجد کے فیل ہونے پر انہوں نے سخت سست کہنا چاہا تو بہو کہنے لگی، ’’جانے دیجئے.... زیادہ پڑھ لکھ کر کون سے صاحب بننے والے ہیں ۔ سنو جی! اب مجّوں ؔ کو اپنے ساتھ گیراج لے جایا کریں آپ کے کام میں ہاتھ بٹائے گا۔‘‘ یوں ماجد اب گیراج جانے لگا تھا۔
 عادل صاحب گھر پہنچے دیکھا تو ساجد ماں سے لپٹا رو رو کر اپنی بپتا سنا رہا تھا، ’’دیکھنا اب مَیں کل سے اسکول نہیں جاؤں گا۔‘‘
 ’’کیا ہوا یہ گھر کیوں آگیا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ عادل صاحب نے پوچھا۔
 سعیدہ خانم نے تیوریاں چڑھاتے ہوئے ماجد کی قمیص اٹھا کر اس کی پیٹھ دکھاتے ہوئے کہا، ’’دیکھئے ٹیچر نے کتنی بے دردی سے پیٹا ہے میرے لعل کو، ہائے! میرا معصوم بچہ، خدا کرے اس کے ہاتھ ٹوٹ جائیں ۔‘‘ وہ نہ کسی بات کی تفتیش کرتی اور نہ کسی کو کچھ بولنے کا موقع دیتی تھیں ۔ وہ روہانسی ہو کر ہمیشہ کی طرح کوسنے لگی۔ دادی اماں تخت پر بیٹھی تسبیح پھیرتے ہوئے بہو کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں ان سے رہا نہ گیا، ’’ارے بہو عادل کو کھانا تو کھا لینے دے۔ صبح سے بھوکا پیاسا تھکا ہارا گھر آیا ہے۔ اپنے لاڈلے سے یہ تو پوچھ لیتی کہ آج کیا کرکے آیا ہے۔ بیٹا عادل! جا ہاتھ منہ دھو، کھانا کھا۔ ٹیچر کو برا بھلا کہنے کے سوا بہو کو کچھ آتا بھی ہے؟‘‘
 ’’ماں ! مجھے پوری بات تو سننے دو، کھا لوں گا، کھانا کہاں بھاگا جا رہا ہے؟ ہاں ! کون تھا وہ جس نے تیری یہ حالت کر دی۔‘‘ ماجد ہمدردی پاکر پھر رونے لگا۔
 ’’ارے! میں کہتی ہوں پوچھ تاچھ ہی کرتے رہو گے یا دو قدم جا کر اس کی خبر لو گے جس نے بچے کو روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا۔‘‘
 عادل حسین غصے کی حالت میں ماجد کا ہاتھ پکڑ کر اسکول کی طرف چل پڑے۔ احاطے میں پہنچتے ہی زور سے آواز لگائی، ’’ماسٹر صاحب! باہر آیئے میرے بیٹے کو اتنی بری طرح کس نے پیٹا کہ پیٹھ پر ورم آگیا اور وہ اتنا ڈر گیا کہ اسکول چھوڑنے کا کہہ رہا ہے۔‘‘ آس پاس کی جماعتوں کے ٹیچر بھی متوجہ ہوگئے اور ہیڈ ماسٹر بھی گھبرائے ہوئے آفس سے باہر نکلے۔
 ’’کیا ہو گیا عادل بھائی، کیا بات ہے؟‘‘
 ’’بات کیا ہوگی؟ اس کی ٹیچر کو بلاؤ، کیوں مارا اسے؟‘‘
 ’’آپ بات تو سنئے، عادل تو آج اسکول نہیں آیا تھا۔ ٹیچر کیسے مار سکتے ہیں ؟‘‘
 ’’تو کیا یہ جھوٹ بول رہا ہے؟‘‘
 ’’آیئے آفس میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔ مَیں خود آپ کو بلانے والا تھا۔ دراصل معاملہ یہ....‘‘
 ’’معاملہ مَیں خود نپٹ لوں گا۔ پہلے آپ ٹیچر کو بلایئے۔‘‘
 ’’آپ کا بیٹا دو تین روز سے اسکول نہیں آرہا تھا۔‘‘ ہیڈ ماسٹر نے وقت کی نزاکت بھانپتے ہوئے نرم لہجے میں کہا، ’’آپ اسی سے پوچھئے کس نے مارا؟‘‘ ماجد کی طرف اشارہ کرکے انہوں نے کہا۔
 ’’یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟‘‘ عادل صاحب نے بیٹے سے پوچھا۔
 ماجد ہونقوں کی طرح منہ دیکھ رہا تھا کیونکہ اب سارا معاملہ سامنے آنے والا تھا۔
 ماجد کو بدتمیزی، لاپروائی اور ساتھیوں سے مار پیٹ کے لئے کئی مرتبہ سمجھانے اور تنبیہ کرنے پر بھی اثر نہ ہوا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے اس کے والدین کو بلا کر اسکول سے نکال دینے کی بات کی تھی۔ اب یہ ساری باتیں سامنے آنے والی تھیں ۔
 وہ منہ لٹکائے کھڑا رہا۔ تب تک اس کی جماعت کے بچےا ور کلاس ٹیچر بھی آچکے تھے۔ انہوں نے آتے ہی کہا، ’’ساجد میاں اپنے ساتھیوں کے بستے سے کبھی کتاب کبھی بیاض تو کسی کی کمپاس بکس نکال کر دوسرے کسی بچے کے بیگ میں ڈال دیتا ہے۔ ٹیچر تلاشی لیتے ہیں تو یہ میاں صاف بچ نکلتے ہیں اور بے قصوروں کو سزا ملتی ہے۔ آخر چند بچوں نے فیصلہ کیا کہ خاموشی سے نظر رکھی جائے کہ کون ایسا کرتا ہے اور ایک دو بار نہیں تین مرتبہ ساجد میاں کی شرارت سامنے آئی۔‘‘
 ’’لیکن! یہ بات تو مجھے کسی نے نہیں بتائی۔‘‘
 ’’کیسے بتاتے؟ آپ اپنے بچوں کی شکایت سننے کے بجائے دوسروں کو پھٹکارتے ہیں ۔ اپنے بچوں کی غلطیوں پر ہمیشہ پردہ ڈالتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شرارتیں کم ہونے کے بجائے بڑھتی گئیں اور یہ خود سر اور ضدی تو تھے اب جھوٹ بھی بولنے لگے۔‘‘ ہیڈ ماسٹر صاحب نے کھنکارتے ہوئے کہا۔
 ماجد بت بنا کھڑا تھا۔
 ’’دیکھئے جناب! ماں باپ کا بے جا لاڈ پیار اور ان کی غلطیوں کو چھپانا ٹھیک نہیں ۔‘‘
 ’’لیکن اس کو کس نے مارا اس کا تو پتہ چلے۔‘‘ عادل صاحب بچوں سے مخاطب ہوئے۔ ’’پتہ نہیں انکل۔‘‘ بچوں نے کہا۔
 ’’ابو!‘‘ ماجد میاں نے سسکتے ہوئے کہنا شروع کیا، ’’مجھے کسی ٹیچر یا ان بچوں نے نہیں مارا، دراصل میرے پرانے ساتھی جو ہمیشہ میرے ساتھ رہا کرتے تھے اور مجھ سے زیادہ شرارتی تھے۔ کسی نے ساتویں تو کسی نے آٹھویں جماعت ہی سے اسکول آنا بند کر دیا تھا، مجھے انہوں نے پیٹا۔‘‘ ’’کیوں ؟‘‘ عادل صاحب نے چیخ کر کہا۔
 ’’اس لئے کہ ان کے بہن بھائیوں نے میری شکایت ان سے کی تھی۔ وہ مجھے پیٹتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ تمہاری وجہ سے ہمارا مستقبل خراب ہوگیا اور اب تمہاری وجہ سے بے قصور بچوں کو سزا ملتی ہے۔ تمہیں سبق سکھانا ضروری ہے۔ مجھے میری شرارتوں کی سزا مل گئی۔ ابو مَیں معافی چاہتا ہوں اب دوبارہ ایسا نہیں کروں گا۔ مَیں اپنی غلطیوں پر شرمندہ ہوں ۔‘‘
 عادل صاحب کا چہرہ دیکھنے لائق تھا۔ اپنے بیٹے سے زیادہ خود انہیں ندامت محسوس ہو رہی تھی ان کی خفت مٹانے کے لئے ہیڈ ماسٹر صاحب نے ماجد سے کہا، ’’شاباش بیٹا! چلو ہم نے تمہیں معاف کیا۔ جایئے عادل صاحب گھر جایئے۔ ماجد نے شرارت سے توبہ کر لی۔ کل کا سورج نئی روشنی لے کر آئے گا۔ ان شاء اللہ ہمارا ماجد ایک ہونہار اور فرمانبردار طالب علم ثابت ہوگا۔‘‘
 عادل صاحب گھر تک یہی سوچتے رہے میری طرح کتنے والدین اور سرپرست ہمارے معاشرے میں یقیناً ایسے ہوں گے جو اپنے بچوں کی محبت اور بے جا لاڈ پیار میں اس قدر اندھے ہوجاتے ہیں کہ ان کی شرارتیں اور غلطیاں انہیں نظر نہیں آتیں اور آنکھیں اُس وقت کھلتی ہیں جب سوائے افسوس اور ندامت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ کاش! یہ بات مَیں پہلے سمجھ پاتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK