Inquilab Logo

لتا منگیشکر نے فلمی زندگی میں تین نسلوں کو اپنی آواز دے کر ایک کارنامہ انجام دیا ہے

Updated: February 04, 2024, 12:19 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

انہوں نے اپنے کریئر کے ابتدائی دَور میں شوبھنا سمرتھ کو اپنی آواز دی، اس کے بعد اُن کی اگلی نسل میں نوتن اور تنوجہ کیلئے گیت گائےاور پھر تیسری نسل میں کاجول کیلئے بھی بہترین نغمے گائے۔

Every actress wanted Lata Mangeshkar to be her voice and support her in making her film career. Photo: INN
ہر اداکارہ کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ لتا منگیشکر اس کی آواز بنیں اور اس کے فلمی کریئر کو سنوارنے میں اس کے ساتھ تعاون کریں۔ تصویر : آئی این این

لتا منگیشکر کی پیدائش ۲۸؍ ستمبر ۱۹۲۹ء کوایک برہمن خاندان میں ہوئی۔ ان کا بچپن کا نام ’ہیما‘ تھا۔ آواز کی دنیا میں انہوں نے جو شہرت حاصل کی، وہ شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی ہو۔ کم عمری ہی میں اپنے والد پنڈت دیناناتھ منگیشکر کی ڈراما کمپنی میں کام کرنے کے ساتھ لتا کا کریئر شروع ہوگیا تھا۔ بعد میں اداکارہ نندہ کے والد ماسٹر ونائک کی پارٹنرشپ والی ایک فلم کمپنی میں انہوں نے۴۰؍ روپے ماہوار کی کل وقتی چائلڈ آرٹسٹ کی ملازمت قبول کرلی تھی۔ اس کمپنی میں ان کی بطور اداکارہ پہلی فلم ’پہیلی منگلا گور‘ (۱۹۴۲ء) تھی۔ اس فلم میں انہوں نے دادا پاندیکر کی موسیقی میں ایک گیت بھی گایا تھا۔ 
 ۱۹۴۲ء میں لتاجی کے والد کا انتقال ہو گیاتھا۔ اُس وقت اُن کی عمر ۱۳؍ سال رہی ہوگی۔ ان کی تین بہنیں آشا، اوشا اور مینا کے علاوہ ایک بھائی ہردئے ناتھ منگیشکر تھے۔ لتا اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھیں۔ والدہ اور چار چھوٹےبہن بھائیوں کا پیٹ بھرنے کیلئے کچھ نہ کچھ کام کرنا ضروری تھا۔ ان کے پاس اسٹیج پر اداکاری اور فلم ’کتی ہنسال‘ میں گلوکاری کا تجربہ تھا لہٰذا وہ کام کی تلاش میں بمبئی کے اسٹوڈیوز کے چکر لگانے لگیں۔ دریں اثنا اُن کو اپنے والد کے ایک دوست شری پد جوشی کی سفارش پر ماسٹر ونائک کی یہ مراٹھی فلم ملی تھی۔ کچھ دن بعد ہی مراٹھی کی ایک اور فلم میں ماسٹر ونائک نے لتا کو ایک یتیم بچے کا کردار دیا، جس کوانہوں نے بہت پُراثر انداز میں ادا کیا تھا۔ اس طرح وہ فلموں میں کام کرتی رہیں، مگر اُن دِنوں اُن کے کریئر کی سب سے اہم فلم ’بڑی ماں ‘ ثابت ہوئی، جس میں اُنہوں نے ملکۂ ترنم نورجہاں کے ساتھ کام کیا تھا۔ پرفل پکچرس کی اِس فلم میں ستارہ دیوی، کشوری لال، یعقوب اور لیلا مشرا جیس فنکار شامل تھے۔ یہ ایک کامیاب فلم تھی۔ اِس کے ساتھ ہی انہوں نے گلوکاری کا ریاض بھی جاری رکھا تھا۔ 
لتا منگیشکر نے پہلی بار سولو گانا فلم ’آپ کی سیوا میں ‘ کیلئے گایا تھا۔ یہ فلم ۱۹۴۷ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی۔ اس فلم کی شوٹنگ کے دَوران جب نورجہاں فرصت میں ہوتیں تو لتا سے کہتیں کہ تم گائو، ہم بھی ساتھ گائیں گے۔ نورجہاں نے ایک دن ماسٹر ونائک سے کہا تھا کہ ونائک صاحب! دیکھ لینا، ایک دن یہ لڑکی بہت کامیاب ہوگی۔ حقیقتاً نورجہاں کی بات سچ ثابت ہوئی اور لتا نے کامیابی کے سارے دروازے اپنے لیے وَا کر لئے۔ وہ نورجہاں سے بہت زیادہ متاثر تھیں۔ موسیقار سی رام چندر، لتا کو مراٹھی نورجہاں کہا کرتے تھے۔ اپنی گلوکاری کے ابتدائی دنوں میں وہ نورجہاں ہی کے اَنداز میں گاتی بھی تھیں۔ ۱۹۴۹ء میں حُسن لال بھگت رام کی موسیقی میں فلم ’بڑی بہن‘ کا نغمہ’’جو دل میں خوشی بن کر آئے وہ درد بساکر چلے گئے‘ اور ’چلے جانا نہیں نین ملاکر ہائے سیّاں بے دَردی‘ نے فلم شائقین کے دِلوں کو چھو لیا تھا۔ اِس کے ساتھ ہی فلم ’برسات‘ میں شنکر جے کشن کی موسیقی میں ترتیب دیا ہوا نغمہ’’ہم سے ملے تم سجن تم سے ملے ہم‘‘ بھی بہت مقبول ہوا تھا۔ ۱۹۴۹ء میں ہی فلمساز و ہدایتکار کمال امروہی کی فلم ’محل‘ آئی اور اُس میں موسیقار کھیم چند پرکاش کی دُھن پر لتا منگیشکر کا گایا ہوا نغمہ ’’آئے گا آنے والا‘‘ نے تو پورے ملک میں دھوم مچا دی تھی۔ کھیم چند پرکاش کی شاید یہ آخری فلم تھی مگر لتا پر اِس فلم سے کامیابی کے دروازے کھل گئے اورفلمی دُنیا کے اِس نئے چمکتے ہوئے ستارے کو آفتاب بننے کا موقع ملا۔ اُسی سال لتا منگیشکر کا ایک اور نغمہ’لارا لپا لارا لپا لائی رکھ دا‘بھی کافی مقبول ہوا۔ اِس طرح کل ملاکر اُس برس لتا نے ۲۷؍گانے گاکر ایک ہی جست میں مقبولیت کے آسمان پر اپنا نام درج کرا لیا تھا۔ اِس کے بعدانہوں نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ 
 لتا منگیشکر کی آواز کا جادو چلا تو ہر طرف اُن کی آواز گونجنے لگی۔ موسیقار نوشاد کے ساتھ فلم ’انداز‘ کے ترانے، انل بسواس کے ساتھ ’انوکھا پیار‘ کے گیت اور شنکر جے کشن کے ساتھ ’برسات‘ کے نغموں نے خوب دُھوم مچائی۔ لتا کی آواز کی مٹھاس نے لوگوں کو پوری طرح اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اُس زمانے کی دوسری گلوکارائیں زہرہ بائی امبالے والی، شمشاد بیگم اور نورجہاں وغیرہ کی آوازیں اپنی کشش کھو رہی تھیں۔ اُدھر اتفاق سے نور جہاں پاکستان چلی گئیں تو ہر طرف لتا کے نام کا ڈنکا بجنے لگا اور ہر چھوٹا بڑا موسیقار لتا کی آواز میں گیت ریکارڈ کرانے کیلئے بیتاب رہنے لگا۔ اِس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لتا کی آواز میں کوئی بناوٹ یا تصنع نہیں تھا۔ ساز اور لَے کے مطابق قدرتی آواز تھی جو قدرت ہی کا ایک عطیہ ہے، بقول دلیپ کمار ’’لتا کی آواز قدرت کا کرشمہ ہے جس طرح چاہے سُر کے ساتھ ڈھال لیجئے۔ ‘‘ فلم’مغل اعظم‘ کے گیت ’’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘ کو سنئے یا ’’مدر اِنڈیا‘‘ کے گیت ’’نگری نگری دوارے دوارے‘‘ کو سن لیجیے، یا پھر ’’پاکیزہ، رضیہ سلطان، دو راستے، وقت، میرا سایہ، انیتا، دو بدن، وہ کون تھی‘‘ جیسے فلموں کے نغمے سن لیں، ان کی آواز ہر بار پہلے سے زیادہ سُریلی سنائی دے گی۔ اپنی فلمی زندگی میں انہوں نے تین نسلوں کو آواز دے کر ایک کارنامہ انجام دیا ہے۔ انہوں نے ابتدائی دَور میں شوبھنا سمرتھ کو اپنی آواز دی، اس کے بعد اُن کی اگلی نسل میں نوتن اور تنوجہ کیلئے گیت گائے اور اس کے بعد اُن کی تیسری پیڑھی میں کاجول کیلئے بہترین نغمے گائے۔ 
 لتا منگیشکر کے صرف بہترین اور کامیاب فلمی نغموں کا ہی ذکر کیا جائے تو پورا ایک دفتر درکار ہوگا۔ ۱۹۶۸ء میں لتا کو پدم بھوشن سے سرفراز کیا گیا۔ شنکر آچاریہ نے اُنہیں ’سُر بھارتی‘ کے خطاب سے نوازا۔ مدھیہ پردیش کی حکومت نے ہر سال اُن کے نام پر لتا منگیشکر ایوارڈ دینے کا سلسلہ قائم کیا۔ ۱۹۵۹ء میں لتا کا نام دُنیا کی مشہور کتاب ’گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘ میں درج ہوا۔ لتا نے تقریباً بیس مختلف زبانوں میں ۵۰؍ ہزار گیت ریکارڈ کراکے ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ لتا نے فلمساز کی حیثیت سے فلم ’لیکن‘ بھی بنائی تھی جس کی ہدایت گلزار نے کی تھی۔ 
 حالانکہ لتا منگیشکر کے پاس بے حساب دولت تھی مگر کبھی اُن کے اندر غرور نہیں آیا۔ وہ عمر کے آخری دَور تک سادگی سے رہنا پسند کرتی رہیں۔ اُن کے پاس تقریباً ایک درجن گاڑیاں تھیں مگر وہ ہمیشہ اپنی سفید ایمبیسڈر کار کو سب سے زیادہ پسند کرتی تھیں۔ 
 ۲۷؍جون ۱۹۶۳ء کو دہلی کے ایک پروگرام میں جب انہوں نے اپنا مقبول ترین گیت ’’اے میرے وطن کے لوگو‘‘ گایا تو سامعین میں موجود سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی آنکھیں چھلک آئیں اور بعد میں جب فلمساز ہدایتکار محبوب خان نے لتا کو پنڈت جی کے سامنے لاکر کھڑا کر دیا تو نہرو جی نے کہا ’’بیٹی آج تم نے ہمیں رُلا دیا۔‘‘
  دلیپ کمار کے ہاتھوں پر وہ ہر سال راکھی باندھتی تھیں۔ اس کی وجہ سے وہ انہیں اپنی چھوٹی بہن مانتے تھے۔ ایک بار اُنہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ جس طرح پھول کی خوشبو یا مہک کا کوئی رنگ نہیں ہوتا، وہ محض خوشبو ہوتی ہے یا جس طرح بہتے پانی، جھرنے یا ہوا کا کوئی مسکن، گائوں یا دیس نہیں ہوتا، جس طرح اُبھرتے ہوئے سورج کی کرنوں کا، یا معصوم بچے کی مسکراہٹ کا کوئی مذہب یا بھید بھائو نہیں ہوتا، ویسے ہی لتا منگیشکر کی آواز بھی قدرت کی تخلیق کا ایک کرشمہ ہے۔ 
 اداکارہ سمی گریوال نے لتا منگیشکر کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بنائی تھی۔ لتا نے خود صرف ایک بار گلائیکو ڈین کمپنی کی ایک اشتہاری فلم میں کام کیا تھا۔ ۱۹۹۰ء کا دادا صاحب پھالکے ایوارڈ لتاجی کو دیا گیا۔ ۲۰۰۱ء میں انہیں بھارت رتن اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے زندگی بھر اپنی شرطوں پر کام کیا اور کبھی کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ بدلتے زمانے کے ساتھ فلمی موسیقی کا مزاج بھی بدلا اور لتا نے موسیقی کے نئے طور طریقوں کو بھی اپنایا، مگر معیار سے گرا ہوا کوئی گانا اُنہوں نے کبھی نہیں گایا۔ 
 ۶؍فروری ۲۰۲۲ء کی شام سے اُن کی حالت اچانک پھر بگڑنا شروع ہوئی، جس کی وجہ سے اُنہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا۔ ۹؍جنوری ۲۰۲۲ء ہی سے وہ کورونا وائرس کی مہلک بیماری سے متاثر تھیں، جس کے بعد اُنہیں ممبئی کے بریچ کینڈی اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ جنوری میں نمونیہ کے مرض سے صحت یاب ہو گئی تھیں مگر کورونا کے انفیکشن سے منفی ہونے کے باوجود وہ زندگی کی جنگ ہار گئیں اور ۹۲؍برس جدوجہد بھری زندگی گزارنے کے بعد ۶؍فروری ۲۰۲۲ء کی صبح داعی اجل کو لبیک کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ اُن کی موت کا غم نہ صرف ملک والوں نے محسوس کیا بلکہ غیرممالک کے لاکھوں فلم شائقین نے بھی اُن کی موت کی کسک کو اپنے دِلوں میں محسوس کیا۔ 
 لتا منگیشکر کا آخری گانا ۳۰؍مارچ ۲۰۱۹ء کو ریلیز ہوا تھا۔ یہ نغمہ فوج اور قومی سلامتی کے اعزاز میں پیش کیا گیا تھا۔ ۲۰۰۶ء میں اُنہوں نے فلم ’رنگ دے بسنتی‘ کیلئے اپنا آخری فلمی نغمہ موسیقار اے آر رحمان کی موسیقی میں ریکارڈ کرایا تھا۔ 
 لتا منگیشکر نے اپنی ساری زندگی فن موسیقی و گلوکاری اوراپنے خاندان کیلئے وقف کر دی تھی، یہاں تک کہ انہوں نے شادی بھی نہیں کی۔ لتا منگیشکر نے ۷۷؍برس کی عمر تک گانے گائے۔ اُن کی آواز ہماری نئی نسل کی ہیروئنوں پر خوب سجتی تھی اور ہر ہیروئن کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ اپنے فلمی کریئر میں زیادہ سے زیادہ گیت لتا منگیشکر کے گائے ہوئے فلمی پردے پر پیش کرے کیونکہ اس سے اُس کی شہرت اور مقبولیت کو بھی چار چاند لگ جاتے تھے۔ اُن کی آواز میں نوخیز کلیوں کی چٹک کا احساس ہوتا تھا اور اُن کی آواز کا جادُو کائنات کی ہر شئے کو مسحور کر دیتا تھا۔ مومن خاں مومنؔ نے شاید لتا کیلئے ہی یہ شہرہ آفاق شعر کہا تھا:
اُس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک:شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK