Inquilab Logo Happiest Places to Work

مدھوبالا کو بچپن ہی میں کسی درویش نے کہا تھا کہ بہت نام اور پیسہ کمائے گی

Updated: April 19, 2020, 2:22 PM IST | Anees Amrohi

ان کے والدعطااللہ خان انگریزی سرکار میں ایک افسر کی بگھی کے کوچوان تھے۔ ان کی کل گیارہ اولادوں میں ممتاز جہاں بیگم عرف مدھوبالا پانچویں نمبر پر تھی۔ ممتاز سے متعلق بچپن ہی میں کسی درویش نے کہا تھا کہ یہ بہت قسمت والی ہے۔ یہ کافی شہرت اور دولت حاصل کرے گی لیکن اسے ایک ناخوشگواراور مختصر سی زندگی ہی میسر ہوگی۔ عطااللہ خان کو یہ الفاظ ہمیشہ یاد رہے

Madhubala - Pic : INN
مدھوبالا ۔ تصویر : آئی این این

بات ۱۹۴۹ء کی ہے، فلمساز وہدایت کار کمال امروہی نے ایک فلم ’محل‘ بنائی تھی۔ کچھ عجیب سی دقیانوسی کہانی پر بنائی گئی یہ فلم اپنے ابتدائی دَور میں ناکام ہو گئی مگر جیسے جیسے لوگوں نے اس فلم کو اپنے احساس کی نزاکتوں کے ساتھ محسوس کیا، ویسے ویسے ہی فلم پسندیدگی کی طرف بڑھتی گئی اور عوام وخواص میں مقبولیت حاصل کرتی گئی۔ کمال امروہی کی فلموں کے ساتھ یہ المناک واقعہ کئی بار ہوا ہے۔ فلم ’پاکیزہ‘ بھی شروع میں بُری طرح ناکام ہو گئی تھی لیکن بعد میں اس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ اسی طرح فلم ’دائرہ‘ بھی بُری طرح ناکام ہوئی تھی مگر سنجیدہ طبقہ آج بھی اس کو کمال امروہی کی بہترین تخلیق کے طور پر یاد کرتا ہے۔ اسی طرح فلم ’رضیہ سلطان‘ بھی ایک نہایت خوبصورت اور مہنگی فلم ہونے کے باوجود بُری طرح ناکام ہو گئی۔ فلم’محل‘ کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا، لیکن بعد میں فلم کی موسیقی، نغمے اور سسپنس کے ساتھ ہی اس فلم کی ہیروئین بھی لوگوں کے دلوں میں اُترتی چلی گئی۔
 ویسے دیکھا جائے تو فلم ’محل‘کی کہانی بالکل غیر یقینی سی ہے۔ ’سنگم بھون‘ نام کی پرانی سی حویلی کے مالی کی نوجوان بیٹی آشا (مدھوبالا) کو حویلی میں لگی ایک تصویر دیکھ کر حویلی کے مرحوم مالک سے محبت ہو جاتی ہے اور غیر ارادی طور پر وہ اس کو اپنے پچھلے جنم کا محبوب ماننے لگتی ہے، یہاں تک کہ اس ویران حویلی میں اس کی محبوبہ بن کر گھومنے لگتی ہے۔ ایک دن حویلی کا نیا مالک ہری شنکر (اشوک کمار) حویلی میں داخل ہوتا ہے، ہری شنکر کی صورت تصویر والے پرانے مرحوم مالک کی تصویر والی صورت سے کافی ملتی جلتی ہے۔ آشا یہ سب کچھ دیکھتی ہے اور سوچتی ہے کہ اب پچھلے جنم کی ناکام محبت کی کامیابی کا وقت آگیا ہے، لیکن وہ ایک معمولی مالی کی بیٹی تھی۔ بڑے خاندان کا رئیس بیٹا ہری شنکر بھلا اس کو اپنی محبوبہ کیوںکر بنا سکتا ہے، لہٰذا اپنی محبت کو کامیاب کرنے کیلئے آشا ایک منصوبہ بنا کر ہری شنکر کے سامنے اپنے آپ کو اس کے پچھلے جنم کی محبوبہ ظاہر کرتی ہے اور کامنی نام اختیار کرکے ’سنگم بھون‘ میں کامنی کی روح کے روپ میں رہنے لگتی ہے۔ ایک زندہ دوشیزہ کا کسی روح کے روپ میں اپنے بارے میں کسی نوجوان کو یہ باور کرانا کہ وہ اس کے پچھلے جنم کی محبوبہ ہے، کتنا دقیانوسی اور غیر یقینی سا خیال ہے، لیکن مدھوبالا نے کامنی کے کردار میں اپنے آپ کو کچھ اس انداز میں ڈھال لیا تھا کہ فلم ’محل‘ کا یہ غیر یقینی سا کردار کہیں بھی بناوٹی نہیں لگتا۔
 فلم کے ابتدائی حصّوں میں جھولے پر جھولتی اور نائو میں ندی کی سیر کرتی ہوئی ’آئے گا آنے والا...‘‘  نغمہ گانے والی مدھوبالا اپنے روح ہونے کا احساس اتنے مضبوط طریقے پر کراتی ہے کہ نہ صرف فلم کا ہیرو ہری شنکر بلکہ فلم دیکھنے والے بھی آخر تک اسی میں الجھے رہتے ہیں۔ مدھوبالا کی دلفریب مسکراہٹ اس فلم میں کس قدر پُراسرار بن جاتی ہے۔ ’سنگم بھون‘  کے چور دروازوں کی مدد سے اس کا بار بار غائب ہونا اور وہ دل کو پاش پاش کرتی ہوئی اس کی مسکراہٹ.... بڑا عجیب سا تاثر پیش کرتے ہیں۔ اس کی پُراسرار نگاہوں سے نہ صرف ہری شنکر بلکہ فلم بین بھی چکرا جاتے ہیں اور تجسّس بڑھتا جاتا ہے۔ ہر لمحہ، ہر پل تجسّس بڑھانے والا کامنی کا کردار مدھوبالا نے شروع سے اختتام تک یکساں طور پر برقرار رکھا ہے..... اور وہ بھی اس کامیابی کے ساتھ کہ عدالت کے آخری اجلاس میںکنورائے کے ذریعہ اس کا برقعہ ہٹانے تک ہمارے ذہنوں میں کہیں کوئی شبہ پیدا نہیں ہوتا کہ یہی مالی کی بیٹی آشا ہوگی۔ ہم اسے ایک بے چین روح ہی سمجھے چلے جاتے ہیں اور یہی اس کی کامیابی کا مقام ہے کہ آج برسوں بعد بھی اس کی یاد ہمارے ذہنوں میں تازہ اور محفوظ ہے۔
 مدھوبالا دہلی کے ایک غریب اور کم تعلیم یافتہ مسلم پٹھان خاندان میں ۱۴؍فروری۱۹۳۳ء کو پیدا ہوئی۔ اس کے والد عطااللہ خان انگریزی سرکار میں کسی افسر کی بگھی کے کوچوان ہوا کرتے تھے اور پہاڑگنج کے علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ ان کی کل گیارہ اولادوں میں ممتاز جہاں بیگم عرف مدھوبالا پانچویں نمبر پر تھی۔ ممتاز جہاں بیگم کے بچپن ہی میں کسی باریش درویش نے عطااللہ خان سے کہا تھا کہ یہ لڑکی بہت قسمت والی ہے۔ یہ بہت شہرت اور دولت حاصل کرے گی لیکن اسے ایک ناخوشگواراور مختصر سی زندگی ہی میسر ہوگی۔ عطااللہ خان کو درویش کے یہ الفاظ یاد رہے۔
 ایک بار ’بمبئی ٹاکیز‘ کے جنرل منیجر رائے بہادر چنی لال دہلی آئے اور انہوںنے آکاش وانی کے بچوں کے ایک پروگرام میں ممتاز جہاں بیگم کو ریہرسل کرتے ہوئے دیکھا تو عطااللہ خان سے بمبئی آکر بمبئی ٹاکیز کی مالکن دیویکارانی سے ملنے کی صلاح دی جو اُس وقت فلم ’بسنت‘ بنانے کی تیاری کر رہی تھیں۔ اس فلم میں ہیرو اُلہاس اور ہیروئن ممتاز شانتی کی بیٹی کے کردار کیلئے ایک چائلڈ آرٹسٹ کی تلاش تھی اور مقبول ترین موسیقار مدن موہن کے والد رائے بہادر چنی لال کو یہ بچی اس کردار کیلئے نہایت موزوں لگی تھی۔
 درویش کے الفاظ یاد کرکے عطااللہ خان کو موقع غنیمت لگا اور وہ اپنی غریبی دور کرنے اور بیٹی کو فلم اسٹار بنانے کا خواب آنکھوں میں سجاکر ممتاز جہاں بیگم کو لے کر بمبئی پہنچ گئے۔ دیویکارانی کو بے بی ممتاز پسند آئی اور انہوںنے فوری طور پر فلم ’بسنت‘ کیلئے عطااللہ خان سے معاہدہ کر لیا۔ اس فلم میں بے بی ممتاز نے ایک گانا....’’میرے چھوٹے سے من میں میری چھوٹی سی دنیا رے.....‘‘ پردے پر خود ہی گایا تھا۔ ۱۹۴۲ء میں ریلیز ہوئی اس فلم میں بے بی ممتاز کی کافی تعریف ہوئی مگر اگلے تین سال تک بے بی ممتاز کو بمبئی ٹاکیز کی کوئی دوسری فلم نہیں ملی۔ جب دیویکارانی نے یوسف خان کو دلیپ کمار کے نام سے متعارف کراتے ہوئے فلم ’جوار بھاٹا‘ شروع کی تو ایک بار پھر بے بی ممتاز کو بلایا گیا اور اس فلم میں چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر ایک اور بچی رومادیوی نے بھی بے بی ممتاز کے ساتھ کام کیا۔ فلم’بسنت‘ میں بے بی ممتاز کی تنخواہ ڈیڑھ سو روپے ماہوار تھی جو بعد میں فلم ’جوار بھاٹا‘ کے وقت تین سو روپے ماہوار ہو گئی۔ اس فلم کے بعد ایک بار پھر بے بی ممتاز کی ملازمت اسٹوڈیو سے ختم ہو گئی۔ تب عطااللہ خان کام کی تلاش میں بمبئی کے کئی اسٹوڈیوز کے چکر لگا رہے تھے۔ تبھی ان کی ملاقات موتی لال سے ہوگئی۔ ان کی سفارش  سے بے بی ممتاز کو سردار چندولال شاہ کے رنجیت اسٹوڈیو میں داخلہ مل گیا۔ رنجیت اسٹوڈیو میں بے بی ممتاز نے ۱۹۴۴ء میں فلم ’ممتاز محل عرف ممتاز‘، ۱۹۴۵ء میں فلم ’دھنا بھگت‘، ۱۹۴۶ء میں فلم ’پھلواری‘ اور’راجپوتانی‘ میں کام کیا۔ اسی سال بے بی ممتاز نے فلمساز ہدایتکار آردیشر ایرانی کی فلم ’پجاری‘میں بھی ایک کردار ادا کیا۔ فلم ’پھلواری‘ میں ہیرو موتی لال کی بیٹی بنی بے بی ممتاز نے بعد میں ۱۹۵۰ء میں بنی فلم ’ہنستے آنسو‘ میں موتی لال کی ہیروئن کا کردار ادا کیا مگر اس وقت وہ مدھوبالا بن چکی تھی۔
 سردار چندو لال شاہ کے رنجیت مووی ٹون میں بطور ہدایتکار پنڈت کیدار شرما ملازم تھے۔ وہ بے بی ممتاز کو جانتے تھے اور اپنی کسی فلم میں ہیروئن بنانا چاہتے تھے۔ انہوںنے چندو لال شاہ کے ساجھے میں ’نیو اورینٹل فلم کمپنی‘ قائم کی اور فلم ’بیچارہ بھگوان‘ بنانے کی تیاری شروع کر دی۔ فلم کے ہیرو کے طور پر انہوںنے اپنے معاون اور پرتھوی راج کپور کے بڑے بیٹے رنبیر راج کپور کا انتخاب کیا اور ایک ہیروئن بیگم پارہ اور دوسری ہیروئن ممتاز یعنی بے بی ممتاز کا انتخاب کیا۔ اس وقت تک بے بی ممتاز کا نام مدھوبالا نہیں ہوا تھا۔ چندو لال شاہ نے رنبیر راج کپور اور ممتاز  کے انتخاب پر اعتراض کیا اور اس نئی فلم کمپنی سے اپنی  ساجھے داری واپس لے لی۔پنڈت کیدار شرما نے اپنا گھر اور  بیوی کے زیور فروخت کرکے آزادانہ طور پر اس فلم کو ’نیل کمل‘ کے ٹائٹل سے بنانا شروع کیا۔ رنجیت مووی ٹون کی ملازمت کے دوران کیدار شرما کی ہدایت میں بننے والی فلموں ’وِش کنیا، بھنور اوردھنابھگت‘ کی ہیروئن کملا چٹرجی سے تو پنڈت جی نے شادی کرلی۔’نیل کمل‘ میں پہلے تو کملا چٹرجی کو ذہن میں رکھ کر ہیروئن کا کردار تراشا گیا تھا مگر کملا کے بیمار پڑ جانے کی وجہ سے اور اُنہی کے اصرار پر کیدار شرما نے بے بی ممتاز کو ہیروئن لے لیا۔ کملا چٹرجی کی جلدی ہی موت ہو گئی اور فلم ’نیل کمل‘ بھی بہت زیادہ کامیاب نہ ہو سکی مگر اس فلم سے راج کپور اور بے بی ممتاز کو اچھی خاصی شہرت مل گئی۔ اس فلم کی تکمیل کے دوران ہی عطااللہ خان نے فلم ’نیل کمل‘ کے فوٹو دکھاکر ہدایتکار موہن سنہا کی فلم ’چتوڑوجئے‘ بھی جلدبازی میں بے بی ممتاز کیلئے سائن کر لی۔ موہن سنہا اداکارہ وِدیا سنہا کے والد تھے، ان کی یہ فلم’چتوڑوجئے‘ ۱۹۴۷ء میں فلم’نیل کمل‘ کے فوراً بعد ہی ریلیز بھی ہو گئی۔
 یہ بات مصدقہ نہیں ہے کہ ممتاز جہاں بیگم نے جب بچپن میں بے بی ممتاز کے نام سے کام شروع کیا تھا اور فلم ’نیل کمل‘ میں ممتاز کے نام سے پہلی بار ہیروئن بنی، تو مدھوبالا نام کس فلم سے قائم ہوا۔ کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ ممتاز جہاں بیگم کو یہ نام دیویکارانی نے دیا تھا مگر کچھ اس کا ذمہ دار کیدار شرما کو ٹھہراتے ہیں۔ ’مرادی پکچرس‘کی فلم ’چتوڑ وجئے‘ کے بعد مدھوبالا کی اگلی فلم امرجیوتی پکچرس کی ’دل کی رانی‘ کے ہدایتکار بھی موہن سنہا تھے اور اس کے بعد کی دو فلموں، مرادی پکچرس کی ’خوبصورت دنیا‘ اور’میرے بھگوان‘ کے ہدایتکار بھی موہن سنہا ہی تھے۔ اس کے بعد’نٹراج پکچرس‘کی فلم’امرپریم‘ میں راج کپور ایک بار پھر مدھوبالا کے ہیرو بنے۔ ہدایتکار کے بی لال کی فلم’لال دوپٹہ‘ میں مدھوبالا کے ہیرو سپرو تھے۔ اس کے بعد فلمساز ہدایتکار نجم نقوی امروہوی کی فلم’پرائی آگ‘ میں وہ منور سلطانہ اور اُلہاس کے ساتھ پردے پر دکھائی دی۔ یہ وہی نجم نقوی تھے جنہوںنے مقبول اداکار راج کمار کو پہلی بار اپنی فلم ’رنگیلی‘ میں ہیرو بناکر فلم انڈسٹری سے متعارف کرایا تھا۔۱۹۴۹ء میں مدھوبالا کی کئی فلمیںجیسے ’اپرادھی،دولت،دلاری، امتحان،نیکی اور بدی، پارس، سنگھار، سپہیا  اورمحل‘ ریلیز ہوئی تھیں۔  ان فلموں میں اے آر کاردار کی فلم’دلاری‘ موسیقار نوشادعلی اور نغمہ نگار شکیلؔ بدایونی کے مقبول گیتوں کی وجہ سے کافی کامیاب ہوئی مگر کمال امروہی کی فلم’محل‘ نے مدھوبالا کو اسٹار کا درجہ عطا کیا۔ اسی فلم سے ہندوستان میں سسپنس فلموں کی ابتدا ہوئی۔
 یہاں ایک واقعہ کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ فلم’محل‘ کی تکمیل کے دوران مدھوبالا اپنے کہانی کار، منظرنامہ نگار اور فلم کے ہدایتکار کمال امروہی سے کافی متاثر ہو چکی تھی۔ کمال امروہی اپنی خوبصورت شخصیت کے ساتھ ہی نہایت ذہین قلم کار بھی تھے اور شاندار اردو میں گفتگو کرتے تھے۔ شعر و شاعری سے بھی بڑا شغف تھا اور سہراب مودی کی فلم ’پُکار‘ میں لکھے گئے مکالموں کی وجہ سے کافی مقبول ہو چکے تھے۔ ایک دن مدھو بالا نے کمال امروہی سے کہا کہ ’’میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے اپنے والد کے علم میں لائے بغیر تقریباً پانچ لاکھ روپے بھی پس انداز کرکے رکھے ہیں لہٰذا ہماری زندگی آرام سے گزر سکتی ہے مگر میری ایک شرط ہے کہ آپ کو اپنی امروہہ والی بیوی اور بچوں کو چھوڑنا ہوگا۔‘‘
 مدھوبالا کی یہ بات سن کر کمال امروہی مسکرائے اور جواب دیا ’’مدھو،  میں امروہہ سے بیوی بچے بیچنے کیلئے بمبئی نہیں آیا ہوں بلکہ اپنے قلم کے ہنر سے ان کی پرورش کرنے کیلئے پیسہ کمانے آیا ہوں۔‘‘
 کمال امروہی کے اس جواب سے یہ معاملہ وہیں ختم ہو گیا۔

madhubala Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK