Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’آسکر تک پہنچنا فلم انڈسٹری سے وابستہ ہر فنکار کا خواب ہوتا ہے‘‘

Updated: June 01, 2025, 12:24 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai

ماڈل، پروڈیوسر، ہدایتکار اور اداکارپلاش دتہ کا کہنا ہے کہ آسکر ایک ایوارڈ فنکشن ہے جبکہ کانز ایک فلم فیسٹیول ہے، اسلئے میری اولین ترجیح فلم فیسٹیول میں شرکت کی رہتی ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

شو بز انڈسٹری میں تقریباً ۳۰؍سال سے کاسٹنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد اب پلاش دتہ نے اداکاری، ہدایتکاری اور فلمسازی بھی شروع کردی ہے۔ انہوں نے کانز فلم فیسٹیول میں اپنی فلم کی نمائش بھی کی تھی۔ اسی کے ساتھ وہاں کے ریڈ کارپیٹ پر ہندوستان کی نمائندگی کی تھی۔ ان کی شارٹ فلم ’ڈانس آف جوئے۔ من کی اِچھا ‘ انہوں نے خود ہی پروڈیوس کی ہے۔ اس فلم کے ذریعہ انہوں نے ہدایتکاری کے شعبے میں قدم رکھا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ اس فلم میں اداکاری بھی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ پلاش نے اس سے قبل اشتہاری فلموں میں بھی کام کیاہے۔ بہرحال اب وہ اداکاری پر اپنی پوری توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح وہ بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوانا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے وہ بھرپور کوششبھی کررہے ہیں۔ نمائندہ انقلاب نےپلاش دتہ سے طویل گفتگو کی ہے جس کے بعض اقتباسات یہاں پیش کئے جارہے ہیں :
کانز فلم فیسٹیول کا آپ کا تجربہ کیسا رہا ؟
ج:کانز فلم فیسٹیول کا تجربہ بہت شاندار رہا۔ میں نے اس میں پہلی بار شرکت کی ہے۔ گزشتہ سال بھی کوشش کی تھی لیکن ویزاکی تاخیر کی وجہ سےمیں اس میں شریک نہیں ہوسکا تھا۔ یہی سبب ہے کہ اس بار میں نے پہلے ہی سے تیاری کرلی تھی کہ ۱۰؍ دنوں میں ہمیں وہاں کیا کیا کرنا ہے۔ وہاں پر ہمارا پویلین ’بھارت پویلین‘ تھا۔ میں نے ۱۰؍دنوں کیلئے الگ الگ آؤٹ فٹ تیار کرواکرلئے تھے جس میں ر وایتی طرز کے لباس زیادہ تھے۔ اس کے ساتھ ہی جب میں وہاں پہنچا تو میں نے الگ الگ ممالک کے پویلین میں جاکر وہاں کی انڈسٹری کے ہدایتکاروں اور فلمسازوں سے ملاقات کی اور انہیں اپنی ۲؍ کہانیوں کے بارے میں بتایا۔ کچھ لوگوں نے ہمیں ڈرا دیا تھا کہ کانز میں بہت سے مسائل پیش آتے ہیں لیکن میں نے پہلے ہی تیاری کرلی تھی، اسلئے زیادہ مسئلہ پیش نہیں آیا۔ بہرحال بین الاقوامی سطح کے افراد سے مل کر بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ 
کانز کے تعلق سےکوئی خاص اور یادگار واقعہ بتائیں ؟
ج:کانز کا ہمارا سفر ہی یادگار تھاجو میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ وہاں ہمیں ہر دن کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتاتھا۔ ہمارے پویلین میں بالی ووڈ کے کئی تجربہ کار اداکار اور فنکار ہمارے ساتھ رہتے تھے۔ وہاں ایک خاص بات یہ تھی کہ کوئی بھی فلم کا شو دیکھنے کیلئے ہمیں صبح ۷؍بجے رجسٹریشن کروانا ہوتاتھا اور شو کی بُکنگ کیلئے ۲؍ گھنٹے تک قطار میں کھڑا رہنا ہوتا تھا۔ بہرحال وہاں بین الاقوامی فلم انڈسٹری کے ستاروں سے ملاقات ہوئی اور ان سے ہم نے اپنی فلم انڈسٹری کے بارے کافی ساری بات چیت کی۔ 
 کیا آپ کی آسکر میں بھی جانے کی تیاری ہے؟ 
ج:جی کیوں نہیں، لیکن اس کیلئے مجھے ایک بہترین فلم بنانی ہوگی۔ اس کےبعد اسے آسکر میں بھیجنا ہوگا۔ اگر جیوری کو ہماری فلم پسند آئی تو وہ اسے آسکر ایوارڈ میں شامل کریں گے۔ فی الحال میں فلم فیسٹیول میں جانا پسند کرتا ہوں۔ آسکر ایک ایوارڈ فنکشن ہے، جہاں آپ اپنی فلم کی مارکیٹنگ کرسکتے ہیں جبکہ کانز ایک فلم فیسٹیول ہے۔ آسکر میں ہماری ہی انڈسٹری کے کئی مارکیٹنگ اسٹالس لگے ہوتے ہیں۔ بہرحال وہاں تک پہنچنا ہر کسی کا خواب ہوتاہے اور میں امید کرتاہوں کہ وہ موقع مجھے جلد ہی ملے گا۔ 
کیا ہم ہالی ووڈ کے معیار تک پہنچ سکے ہیں ؟
ج:میرے خیال میں نہیں، کیونکہ ہم آج بھی وہی پرانی طرز کی فلمیں بنا رہے ہیں۔ میں آج بھی ہالی ووڈکی فلمیں دیکھتا ہوں تو ان کا معیار دیکھ کر دنگ رہ جاتاہوں۔ ہالی ووڈ کے سوچنے اور اس پر عمل کرنے کی جو صلاحیت ہے وہ بالی ووڈ کے پاس فی الحال نہیں ہے۔ ہمارے یہاں فلموں کی کہا نی اور تکنیک پر زیادہ محنت نہیں کی جاتی ہے جبکہ ہالی ووڈ میں ان دونوں ہی چیزوں پر زیادہ محنت کی جاتی ہے۔ 
انڈسٹری میں آپ کا داخلہ کس طرح ہوا؟
ج:میں بچپن ہی سے کلچرل پروگرام میں شرکت کرتا رہا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی شو بز انڈسٹری میں داخل ہونے کی آرزو بھی ہمیشہ سے رہی تھی لیکن کالج پاس کرنے کے بعد میرے والد نے مجھے شوبز انڈسٹری میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ میں سی اے بن جاؤں یا ایم بی اے کی تعلیم حاصل کروں۔ میں نے ایم بی اے میں داخلہ حاصل کیا اور ممبئی کے ایک کالج سے کورس پورا کرلیا۔ اسی دوران۱۹۹۴ء میں ایک انگریزی اخبار میں ماڈلنگ کیلئے اشتہار شائع ہوا تھا۔ اس کیلئے میں نے آڈیشن دیا اور منتخب بھی ہو گیا۔ میں نے برٹانیہ کے اشتہار میں کام کیا تھا۔ میرے والد نے وہ اشتہار دیکھا تو مجھ پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے بعد مجھے یکے بعد دیگرے اشتہار ملتے گئے، پھر تو میری توجہ اسی جانب مرکوز ہوگئی۔ ماڈلنگ کے بعد میں نے کاسٹنگ کرنا شروع کردیا اور گزشتہ ۲۸؍سال سے میں ہی کاسٹنگ کرتارہا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میں ۲۵؍  سال سے تھیٹر کی دنیا سے بھی وابستہ ہوں۔ اس کے بعد اپنا پروڈکشن ہاؤس شروع کیا اور اب اداکاری پر توجہ مرکوز کررہا ہوں۔ 
آپ میں اتنی صلاحیتیں ہیں، کیا اور بھی کچھ کرنا باقی ہے؟
ج:میرے اندر صلاحیتیں تو بہت ہیں لیکن ان تمام کا ابھی تک استعمال نہیں ہوسکا ہے۔ میں نےشو بز انڈسٹری میں ۳؍ دہائیاں گزاری ہیں۔ میں نے ماڈل کی حیثیت سے خود کو ثابت کیا۔ اس کے بعد کاسٹنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے کامیاب رہا۔ میں نے پروڈکشن کمپنی کھولی اور اس کے ذریعہ شارٹ فلمیں بنا رہاہوں۔ ہدایتکاری بھی شروع کردی ہے لیکن اب میں اپنی پوری توجہ اداکاری پر مرکوز کرنا چاہتا ہوں۔ میں خود کو بین الاقوامی سطح پر قائم کرنا چاہتاہوں، اسلئے اس تعلق سے کوشش بھی کررہا ہوں۔ میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنا چاہتا۔ آج کل آن لائن کاسٹنگ ہوتی ہے اسلئے میرے لئے راستہ مشکل نہیں ہوگا۔ 
آپ کی نظر میں شہرت یا فیم کیا ہے؟
ج:ہردو ر میں شہرت اور فیم کے معنی الگ الگ رہے ہیں۔ میں نے انڈسٹری میں ۳؍ دہائیاں دیکھی ہیں تو تینوں میں شہرت کے معنی الگ الگ رہے ہیں۔ ۱۹۹۴ء کی بات کریں تو اس وقت اسٹارڈم طویل عرصے تک رہتا تھا۔ خان صاحبان کی مثال سب سے اچھی ہے جنہوں نے کافی عرصے تک شہرت کی بلندیوں پر خود کو براجمان رکھا۔ اس وقت سڑکوں پر کبھی کبھار ہی ہیرو یا ہیروئن نظرآتے تھے لیکن آج لوکھنڈوالا چلے جائیں تو اداکار راستوں پر نظر آتے ہیں۔ آج شہرت کے معنی بدل گئے ہیں۔ آج شہرت وقتی چیز ہوگئی ہے۔ آپ کا کوئی مکالمہ یا شو مشہور ہو جائے تو وہ جب تک وائرل رہے گا تب تک آپ کی شہرت ہے اس کے بعد آپ کو کوئی نہیں پوچھتا۔ مثلاًکسی انفلوئینسر کا کوئی ویڈیو وائرل ہوجائے تو وہ مشہور ہوجاتا ہےلیکن اس کے بعد اس سے بہتر کسی کا ویڈیو آجائے تواس کو کوئی نہیں پوچھتا۔ میرے نزدیک ہر دور میں شہرت کے معنی الگ الگ رہے ہیں۔ ہاں میرے نزدیک اداکاروں میں عرفان خان، نوازالدین صدیقی، اوم پوری، رند یپ ہڈا اور دیگر کیریکٹر آرٹسٹ کی اہمیت ہے۔ یہ لوگ انسٹاگرام یا فیس بُک کے فالوورس کی پروا نہیں کرتے بلکہ اپنی صلاحیتوں پر یقین کرتے ہیں اور کامیاب بھی رہتے ہیں۔ 
آج کی تاریخ میں چھوٹے پروڈکشن ہاؤسیز کو کتنی پریشانیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں ؟
ج:چھوٹے پروڈکشن ہاؤس کو سنبھالنا ہی سب سے بڑی پریشانی ہوتی ہے۔ سب سے پہلے تو ان کے پاس زیادہ بجٹ نہیں ہوتاہے اورانہیں محدود وسائل میں کام کرنا ہوتاہے۔ چھوٹے پروڈکشن ہاؤس بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے سے پہلے سوچتے ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہوتاہے کہ بڑے اداکار ان کے ساتھ کام کریں گے یا نہیں ؟اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ اگر چھوٹے پروڈکشن ہاؤس کے پاس اچھی صلاحیتیں ہوں تو وہ ضرور کامیاب ہوتے ہیں۔ میں نے چھوٹے پروڈکشن ہاؤس ہی سے شروعات کی ہے لیکن اب سوشل میڈیا کے ذریعہ خود کو فیمس کرنا چاہتا ہوں اور میں اس کیلئے پُراعتماد ہوں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK