Inquilab Logo

سرکاری کلرک سے فلم انڈسٹری کا ہردلعزیز نغمہ نگار بننے کا شکیل بدایونی کا سفر

Updated: April 20, 2023, 11:44 AM IST | Mumbai

مشہور شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی۳؍ اگست۱۹۱۶ء کو اتر پردیش کے بدایوں قصبے میں پیدا ہوئے ۔

Shakeel Badayuni
شکیل بدایونی

مشہور شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی۳؍ اگست۱۹۱۶ء کو اتر پردیش کے بدایوں قصبے میں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب او رپیش امام تھے اسلئے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔  اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے شکیل۱۹۳۲ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ شکیل نے  علی مسلم یونیورسٹی   میں داخلہ لیا تو  انہوں نے  انٹر کالج   ، انٹر یونیورسٹی   کے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا ۔   شکیل احمد علی گڑھ سے   بی  اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد۱۹۴۲ء  میں دہلی میں سینٹرل  گورنمنٹ میں محکمۂ سپلائی میں کلرک کی حیثیت سے نوکری کی۔ شکیل  دہلی میں تقریباً ۱۹۴۶ء  تک مقیم  رہے۔ اسکے بعد وہ   فروری۱۹۴۶ء   ایک مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی گئے جہاں ان کی ملاقات  مشہور فلمساز کاردار سے ہوئی۔ اس دوران انہوں نے مختلف مشاعروں میں حصہ لیا جہاں ان کے کلام کی عزت افزائی کی گئی ۔ اے آر کاردار  کے اصرارپر   شکیل نے   مستقل طور پر بمبئی کو ہی رہائش  گاہ  بنالیا۔   انہوں نے ۱۹۴۰ء میں سلمی سے شادی کی جو ان کی دور کی   رشتہ دار تھیں۔  شکیل نے سو سے زیادہ فلموں کے اردو ، ہندی اور پوربی زبانوں میں گیت لکھے  علی گڑھ میں قیام کے دوران جگر مراد آبادی سے ملاقات ہوئی۔ ان کی وساطت سے فلمی دنیا میں داخل ہوئے اور سو سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ جو بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ جس میں مغل اعظم کے گیت سر فہرست ہیں۔ اپنی شاعری کی بے پناہ کامیابی سے حوصلہ پاکر شکیل بدایونی نے سپلائی افسر کی نوکری چھوڑ دی۔ممبئی میں ان کی ملاقات اس وقت کے مشہور فلمساز اے آر کاردار اور عظیم موسیقار نوشاد سے ہوئی۔
 نوشاد کے کہنے پر شکیل نے `ہم دل کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے، ہر دل میں محبت کی آگ لگا دیں گے گیت لکھا۔ یہ گیت نوشاد کو کافی پسند آیا جس کے بعد انہیں فوراََ کاردار صاحب کی `درد کے لیے سائن کر لیا گیا۔ ۱۹۴۷ء  میں اپنی پہلی ہی فلم `درد کے گیت `افسانہ لکھ رہی ہوںکی بے پناہ کامیابی سے شکیل بدایونی کامیابی کی چوٹی پر جا بیٹھے۔ شکیل بدایونی نے نوشاد، روی، ہیمنت کمار، ایس ڈی برمن اور سی رام چندر جیسے ممتاز موسیقاروں کی دھُنوں پر ۲۰۰؍ سے زائد  نغمے لکھے۔  ان کے گیتوں کو محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، مکیش، شمشاد بیگم، ثریا، مہندر کپور، طلعت محمود، روی شنکر شرما، گیتا دت اور ہردئے ناتھ منگیشکر جیسے صفِ اول کے گلوکاروں نے اپنی آواز میں پیش کیا۔
  دلاری، دیدار، مدر انڈیا، چودہویں کا چاند ، مغلِ اعظم ، گنگا جمنا ،صاحب بی بی اور غلام ، میرے محبوب ،دو بدن ،جیسی سپر ہٹ فلموں میں شکیل بدایونی کے نغموں نے دھوم مچا دی ۔ شکیل بدایونی کو۱۹۶۱ء  میں ریلیز ہوئی فلم  چودھویں کا چاند کے نغمے’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو’ کے لئے   فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ اس کے بعد۱۹۶۲ء میں   فلم گھرانہ کے گانے  حسن والے تیرا جوا ب نہیں کے لئے  پھر بہترین نغمہ نگار کا ایوارڈ  دیا گیا۔۱۹۶۳ء  میں   سسپینس سے بھرپور فلم  ۲۰؍ سال بعد  کے نغمہ کہیں دیپ جلے کہیں دل کے لئے انہیں ایک مرتبہ پھر  بہترین  نغمہ نگار کے طور پر منتخب کیا گیا۔ شکیل کو شاعری کے علاوہ   بیڈمنٹن کھیلنا بہت پسند تھا۔ وہ اپنے دوست احباب کے ساتھ  جب بھی پکنک پر جاتے  توہ وہ   بیڈمنٹن کے ساتھ ساتھ   پتنگ بازی بھی کرتے تھے۔   نوشاد، محمد رفیع اور کبھی کبھار   جانی واکر  بھی ان کے ساتھ  پتنگ بازی  کے مقابلے میں حصہ لیا کرتے تھے۔  فلمی گیتوں کے علاوہ شاعری کے ۵؍ مجموعے غمہ فردوس، صنم و حرم، رعنائیاں، رنگینیاں، شبستاں کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کی کلیات بھی ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھی، تاہم۱۹۶۹ء  میں لکھی گئی آپ بیتی۲۰۱۴ء میں شائع ہوئی۔ شکیل بدایونی کا محض ۵۳؍ برس کی عمر میں۲۰؍ اپریل ۱۹۷۱ء کو ممبئی میں انتقال ہوا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK