Inquilab Logo

طلعت محمود، سہگل کی طرح گلوکار اور اداکار بننےکیلئے کلکتہ گئے تھے

Updated: May 08, 2024, 10:55 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai

 طلعت محمود کو بچپن ہی سےگلوکاری کا شوق تھا اور۱۵؍سال کی عمرمیں ہی انھوں نے لکھنؤ ریڈیو سے اپنےفنی کریئر کا آغاز کردیا تھا۔ ان کے والد بھی گلوکار تھے۔

Talat Mehmood, the owner of the velvet voice. Photo: INN
مخملی آواز کے مالک طلعت محمود۔ تصویر : آئی این این

 طلعت محمود کو بچپن ہی سےگلوکاری کا شوق تھا اور۱۵؍سال کی عمرمیں ہی انھوں نے لکھنؤ ریڈیو سے اپنےفنی کریئر کا آغاز کردیا تھا۔ ان کے والد بھی گلوکار تھے۔ یہ اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھے۔ ان کے والداپنی آواز کو اللہ کا دیا ہوا گلا کہہ کر اللہ کو ہی وقف کرنےکی تمنا رکھتے تھے۔ وہ صرف نعت گانے کے لئے مشہور تھے۔ بچپن میں طلعت نے اپنے والد کی آوازکی نقل کرنےکی بہت کوشش کی لیکن وہ اس میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ ان کی خالہ ان کی سریلی آواز سنتی تھیں اوران کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ انہوں نےہی اپنی ضدپرطلعت کو موسیقی سکھانےکیلئےماریش کالج میں داخل بھی کروایا۔ ۱۶؍ سال کی عمرمیں طلعت کو کمل داس گپتا کا گیت ’سب دن ایک سمان نہیں ہوتے‘گانے کا موقع ملا اور یہ نغمہ لکھنؤمیں کافی مشہور ہوا۔ تقریباً ایک سال بعد معروف ریکارڈنگ کمپنی ایچ ایم وی کی ٹیم کلکتہ سے لکھنؤ پہنچی اور پہلے ان کے دو گانے ریکارڈ کئے۔ پھر اس کے بعد طلعت کے چار اور گانوں کی ریکارڈنگ کی گئی۔ 
 ہندی فلموں کےلیجنڈ گلوکار طلعت محمود نے بطوراداکار راج لکشمی، تم اور میں، آرام، دلِ نادان، ڈاک بابو، وارث، رفتار، دیوالی کی رات، ایک گاؤں کی کہانی، لالہ رخ، سونے کی چڑیا اور مالک نامی فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ بطور گلوکار دیوداس، بوٹ پالش، حقیقت، ٹیکسی ڈرائیور، بابُل، سزا، ترانہ، نادان، مدہوش، سنگدل، داغ، انوکھی، فٹ پاتھ، بارہ دری، سجاتا، ایک پھول چار کانٹے، پریم پتر جیسی فلموں کے لیے گیت گائے۔ 
 ان کے یادگار گیتوں میں ’جائیں تو جائیں کہاں ‘، ’جلتے ہیں جس کے لیے‘، ’اے غمِ دل کیا کروں ‘، ’پھر وہی شام وہی غم‘، ’شامِ غم کی قسم‘، ’حسن والوں کو‘، ’یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی ‘، ’تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی‘، ’تصویر تیری دل مرا بہلا نہ سکے گی‘، ’میری یاد میں تم نہ آنسو بہانا‘، ’اے میرے دل کہیں اور چل‘، ’سینے میں سلگتے ہیں ارمان‘، ’اتنا نہ مجھ سے تو پیاربڑھا‘، ’راہی متوالے ‘، ’زندگی دینے والے سُن‘، ’دیکھ لی تیری خدائی‘، ’ہم درد کے ماروں کا‘، ’اندھے جہاں کے اندھے راستے‘، ’کوئی نہیں میرا اس دنیا میں ‘، ’ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا‘، ’دلِ ناداں تجھے ہواکیاہے‘، ’بے چین نظر بے تاب جگر‘، ’آئی جھومتی بہار‘، ’ہوکے مجبورمجھے اس نے بھلایا ہوگا‘، وغیرہ شامل ہیں۔ 
 دوسری عالمی جنگ کے وقت ان دنوں پس منظر میں گانے کی شروعات کا دور تھا۔ بیشتر اداکار اپنے گانےخود ہی گاتے تھے۔ کندن لال سہگل کی شہرت سےتحریک پاکر طلعت بھی گلوکار-اداکار بننے کے لئے کولکتہ پہنچے جو اس وقت ان سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ کولکتہ میں طلعت کی شروعات ایک بنگلہ گیت سے ہوئی۔ ریکارڈنگ کمپنی نے گلوکار کے طور پر ان کو تپن کمارکے نام سے ان کے گانے ریکارڈ کئے۔ تپن کمار کےگائے ہوئے سو سے زائد نغمے ریکارڈوں میں آئے۔ 
طلعت محمود کو۱۹۹۲ء میں فلم فیئرایوارڈ بھی ملا اور حکومت ہند نے پدم بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا۔ ۹؍مئی۱۹۹۸ءکو ممبئی میں طلعت محمود کا انتقال ہوا، تاہم آج بھی ان کے نغمے دلوں میں ایک خاص کیفیت پیدا کردیتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK