Inquilab Logo

ہیروشیما سانحہ کی ۷۵؍ ویں برسی

Updated: August 06, 2020, 7:46 AM IST | Editorial

آج کا دن ۷۵؍سال پہلے کی ایک ایسی مذموم، جارحانہ اور ظالمانہ کارروائی کی یادگار ہے جسے بیان کرنے کیلئے الفاظ کل بھی ناکافی تھے، آج بھی ناکافی ہیں۔ تاریخ، اُس دن (۶؍ اگست ۱۹۴۵ء) کو صدیوں تک عالمی طاقتو ں کے دوہرے معیار کیلئے یاد رکھے گی جس کے تحت گیت تو امن و آشتی کے گائے جاتے ہیں مگر اس کے پردہ میں تخریب کے کارزار سجائے جاتے ہیں

Hiroshima Tragedy - Pic : INN
ہیروشیما سانحہ ۔ تصویر : آئی این این

آج کا دن ۷۵؍سال پہلے کی ایک ایسی مذموم، جارحانہ اور ظالمانہ کارروائی کی یادگار ہے جسے بیان کرنے کیلئے الفاظ کل بھی ناکافی تھے، آج بھی ناکافی ہیں۔ تاریخ، اُس دن (۶؍ اگست ۱۹۴۵ء) کو صدیوں تک عالمی طاقتو ں کے دوہرے معیار کیلئے یاد رکھے گی جس کے تحت گیت تو امن و آشتی کے گائے جاتے ہیں مگر اس کے پردہ میں تخریب کے کارزار سجائے جاتے ہیں۔ جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرائے گئے انتہائی ہولناک اور تباہ کن بم اور اس کے اثرات کی تفصیل سے آج بھی روح کانپ جاتی ہے۔ وہ دن اور آج کا دن، ہیروشیما انسانیت کے خلاف کئے گئے جرم کی نشانی بن کر موجود ہے اور ہرچند کہ چپہ چپہ اُس واقعے کو نہیں بھول سکا ہے مگر ہیروشیما پیس میموریل پارک خاص طور پر اس کی یاد دِلاتا ہے، یہ الگ بات کہ اب اس شہر کی کایا پلٹ گئی ہے، اسے جاپان کے اہم مینوفیکچرنگ ہَب یا صنعتی ترقی کے مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے، ۱۹۴۵ء میں اس کی آبادی ۳؍ لاکھ نفوس پر مشتمل تھی، اب یہ ۱۲؍ لاکھ انسانوں کا مسکن ہے مگر شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب لوگ امریکی جارحیت کے اُس دن کو یاد نہ کرتے ہوں جس کے بعد وہاں کی زندگی پہلے جیسی نہیں رہ گئی۔ یاد رہنا چاہئے کہ اس شہر پر گرائے گئے بم کی وجہ سے ۸۰؍ ہزار لوگ آن واحد میں موت کی آغوش میں پہنچ گئے تھے، کم و بیش ۳۵؍ ہزار زخمی ہوئے تھے جبکہ متعلقہ سال کے اواخر تک مزید ۶۰؍ ہزار افراد شدید تابکاری اور اس کی وجہ سے مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوکر چل بسے تھے۔ 
 یہ حملہ اتنا بھیانک تھا کہ ہیروشیما کی ۷۰؍ فیصد عمارتیں زمیں بوس ہوگئی تھیں۔ یاد رہنا چاہئے کہ امریکہ نے اتنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ تین روز بعد یعنی ۹؍ اگست کو جاپان ہی کے دوسرے شہر ناگاساکی پر بھی بم گرایا تھا۔ تب سے لے کر اب تک سوائے بارک اوبامہ کسی بھی امریکی صدر نے اس جانب دیکھنا تک گوارا نہیں کیا۔ ۲۰۱۶ء میں اوبامہ پہلے اور اب تک کے آخری صدر تھے جنہوں نے ہیروشیما جاکر ۶؍ اگست ۴۵ء کے مہلوکین کو یاد کیا اور اُنہیں خراج عقیدت پیش کیا تھا، یہ الگ بات کہ اُنہوں نے بھی نیوکلیائی اسلحہ یا عام تباہی کے اسلحہ کی مخالفت یا مذمت نہیں کی بلکہ پیس میموریل پر منعقد کی گئی ایک تقریب میں، جس میں اٹامک بم سے بچ جانے والے بھی موجود تھے، کہا تھا کہ ’’نیوکلیائی ہتھیاروں جیسی وسیع تر تخریب کی حامل نئی تکنالوجی کیلئے اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہے۔‘‘ بہ الفاظ دیگر نیوکلیائی ہتھیار موجود رہیں گے، بس ان کا استعمال سوچ سمجھ کر اور اخلاقیات کی پاسداری کے ساتھ کیا جانا چاہئے۔بارک اوبامہ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ اخلاقی انقلاب کون لائے گا اور اس کیلئے خود امریکہ کس حد تک تیار ہے جس نے ’’نو فرست یوز‘‘ (نیوکلیائی اسلحہ کا ازخود استعمال نہیں) کے معاہدہ پر کبھی دستخط نہیں کئے بلکہ اس کا کہنا ہے کہ اگر کوئی تنازع ہوا اور اسے نیوکلیائی اسلحہ کے استعمال کی ضرورت پیش آئی تو وہ اس کے استعمال کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اتنی بڑی دھاندلی کرنے والو ںکو امن کا پیغامبر بن کر پوری دُنیا میں گھومنا کیونکر اچھا لگتا ہے یہ تو وہی بتا سکتے ہیں کیونکہ اس بے ضمیری کا کسی اور کے پاس کوئی جواب نہیں ہوسکتا۔ 
 موجودہ امریکی صدر تو ’اخلاقی انقلاب‘ کا تکلف بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اپنے بعض بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ ’’جب ہمارے پاس نیوکلیائی اسلحہ ہے تو ہم اسے استعمال کیوں نہ کریں۔‘‘ (If we have them, why can`t we use them)۔ ایسے بیانات سے انسان دشمنی کی بو آتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اِن لیڈران کو اپنی طاقت کا اتنا زعم ہے کہ یہ کسی کی سننا نہیں چاہتے جبکہ اگر وہ ہوش کے ناخن لیں اور اپنی سیاسی طاقت کو مثبت طریقے سے استعمال کریں تو دُنیا کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ تب وہ کسی دوہرے معیار کے بغیر حقیقی امن کے پیغامبر قرار پائیں گے!

japan Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK