مرکزی حکومت کی لابھارتھی اسکیم کے بارے میں دو رائیں ہوسکتی ہیں۔ ایک تویہ کہ ملک کے کروڑوں غربت و افلاس زدہ خاندانوں کو ہر مہینہ مفت راشن تقسیم کرکے حکومت بڑا کام کررہی ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو دو وقت کی روٹی کے بھی محتاج ہیں۔
EPAPER
Updated: May 09, 2023, 10:42 AM IST | Mumbai
مرکزی حکومت کی لابھارتھی اسکیم کے بارے میں دو رائیں ہوسکتی ہیں۔ ایک تویہ کہ ملک کے کروڑوں غربت و افلاس زدہ خاندانوں کو ہر مہینہ مفت راشن تقسیم کرکے حکومت بڑا کام کررہی ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو دو وقت کی روٹی کے بھی محتاج ہیں۔
مرکزی حکومت کی لابھارتھی اسکیم کے بارے میں دو رائیں ہوسکتی ہیں۔ ایک تویہ کہ ملک کے کروڑوں غربت و افلاس زدہ خاندانوں کو ہر مہینہ مفت راشن تقسیم کرکے حکومت بڑا کام کررہی ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو دو وقت کی روٹی کے بھی محتاج ہیں۔ حکومت کی عنایت سے یہ لوگ کم از کم اپنا پیٹ بھرنے کی فکر سے آزاد ہوگئے ہیں یا خالی پیٹ بستر پر جانے کے جبر سے ان کی حفاظت ہوگئی ہے!
دوسری رائے یہ ہے کہ حکومت انہیں محنت و ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے بجائے مفت راشن دے رہی ہے جس کی وجہ سے اُن میں خود کفیل ہونے کی سکت کبھی پیدا نہیں ہوسکے گی اور وہ جتنے غریب آج ہیں، کم از کم اُتنے ہی آئندہ بھی رہیں گے۔ مفت راشن اُن کی عزت نفس کے ساتھ کھلواڑ بھی ہے۔
ہم دوسری رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ آزادی کے وقت ہندوستان غریب ملک تھا مگر اس کے بعد جتنی حکومتیں آئیں اُنہوں نے عوام کو غربت سے نکالنے کی فکر کی اور طرح طرح کی اسکیمیں جاری کیں جن کا مقصد اُنہیں روزگار فراہم کرنا تھا، تاکہ وہ محنت کریں اور اپنی روٹی خود کمائیں۔ مفت راشن دے کر اُنہیں ناکارہ بنا دینا مقصد نہیں تھا۔ یوپی اے حکومت نے، جو ۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۴ء تک اقتدار میں رہی، دیہی علاقوں میں ’’منریگا‘‘جاری کیا تاکہ غریب خاندانوں کے افراد کو ۱۰۰؍ دن روزگار ملے۔ یہ اسکیم اس حد تک کارآمد ثابت ہوئی کہ جب یو پی اے اقتدار سے بے دخل ہوگیا اور وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں این ڈی اے کی حکومت منصہ شہود پر آئی تب ممکن تھا کہ یہ اسکیم بالائے طاق رکھ دی جاتی مگر بی جے پی کے اقتدار والی ریاستو ںنے بھی اس کے جاری رکھے جانے کی سفارش کی۔ وجہ یہ تھی کہ ’’منریگا‘‘ کے ذریعہ کام دیا جارہا تھا تاکہ جس کے پاس کام نہیں ہے، وہ محنت کرکے اپنی روٹی کمانے کے حق سے محروم نہ رہے۔ این ڈی اے حکومت نے روزگار پر توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ نو سال میں روزگار کا قحط پڑگیا اور بے روزگاری پینتالیس سال کی سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئی۔
ہمارے سامنے کوئی ایسا سروے نہیں ہے جس سے ہمارے اس خیال کی توثیق ہو کہ بہت سے لوگوں نے، جو کام کی تلاش میں تھے، اس لئے تلاش معاش سے کنارہ کشی اختیار کرلی کہ اب اُنہیں مفت راشن مل جاتا ہے۔ کیا یہی سبب ہے کہ غربت کی شرح ہمیں شرمسار کررہی ہے اور پوری دُنیا ہمیں عجب نگاہوں سے دیکھ رہی ہے کہ یہ ملک کس طرح ۵؍ کھرب ڈالر کی معیشت بنے گا جب اس کی ۷۰؍ فیصد آبادی ۲۰۲۰ء میں متوازن اور صحت بخش سے محروم تھی؟ اقوم متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن نے چند روز پہلے جو اعدادوشمار جاری کئے ہیں وہ ہمارے وکاس کے نعروں کی قلعی کھولتے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں متوازن اور صحت بخش غذا سے محروم لوگوں کی تعداد ۱۳۳۲؍ ملین ہے جن میں ۹۷۴؍ ملین ہندوستانی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی تعداد ہے۔ ۹۷۴؍ ملین یعنی کم و بیش ۹۷؍ کروڑ لوگ۔ ا س کا مطلب ہے آدھی سے زیادہ اور لگ بھگ تین چوتھائی آبادی۔ چونکہ یہ بہت بڑی تعداد ہے اس لئے حکومت نہیں چاہتی کہ یہ لوگ سڑکوں پر آئیں۔ اسی لئے لابھارتھی اسکیم کے تحت انہیں مفت راشن تقسیم کیا جارہا ہے۔ اس کے ذریعہ ہم اتنی بڑی آبادی کے ساتھ سخت ناانصافی تو کر ہی رہے ہیں اُن کی محنت کی عادت ختم کررہے ہیں جو بلاشبہ مزید غربت پر منتج ہوگی۔