Inquilab Logo

خلاء میں سائنس کی پیش رفتیں اور ہمارا تجربہ

Updated: July 16, 2023, 12:12 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

انسانی کوشش کہ خلاء کو فتح کرلیا جائے، ابتدائی مراحل میں تو نہیں ہے مگر ابھی یہ واضح بھی نہیں ہے کہ یہ کوشش کن ثمرات کی حامل ہوگی۔ اس کے باوجود ہندوستان کی پیش رفت قابل ذکر ہے۔

Science
سائنس

۱۹۵۷ء سے ۱۹۶۹ء تک کے بارہ سال کے درمیان امریکیوں اور روسیوں نے کئی خلائی مقابلے کئے۔ اس دور میں روسیوں کو ہر کام سب سے پہلے کرنے کا امتیاز حاصل تھا۔ وہ مدار میں سب سے پہلا خلائی جہاز بھیجنے کے قابل ہوئے (۱۹۵۷ء میں اسپوٹنک)، خلاء میں پہلی زندہ چیز بھیجنے کے اہل بنے (۱۹۵۷ء میں ایک کتا بھیجا گیا تھا)، مدار میں جیتا جاگتا انسان بھیجنے کا شرف بھی اسی کو حاصل ہوا تھا جب ۱۹۶۱ء میں یوری گیگرین پہنچے تھے۔ خلا۱ء میں اپنے پاؤں سے چلنے والا پہلا انسان بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ ۱۹۶۵ء میں یہ کارنامہ الیسکی لیونوف نے انجام دیا تھا۔ 
 مگر اب امریکیوں کی باری تھی۔ اس نے چاند پر پہلا انسان بھیجنے کی جرأت کی اور کامیاب ہوا۔ یہ ۱۹۶۹ء کی بات ہے۔ اب تک بھی یہ اعزاز امریکہ ہی کو حاصل ہے کہ اس کا ایک خلاء باز چاند کی سرزمین پر پہنچا تھا۔ یہ تجربہ ۱۹۷۲ء میں بھی دُہرایا گیا۔ اُس دور میں روسیوں نے وسیع تر راکٹ بنانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اس کے بعد خلائی مسابقت کا سلسلہ تھم گیا۔ ۷۰ء کی دہائی میں ایسا ہوا تھا۔ تب سے لے کر اب تک پچاس سال گزر چکے ہیں، سائنس کی چاند میں دلچسپی کم ہوگئی ہے، اس نصف صدی میں کوئی انسان چاند پر نہیں پہنچا کیونکہ اس غیر معمولی تجربہ پر خرچ بہت آتا ہے۔
 مذکورہ تجربوں کے بعد خلائی شٹل کو کم قیمت تجربہ سمجھا گیا جس کے پیش نظر امریکہ نے اپنے خلاء بازوں کو مدار میں بھیجا اور پھر بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک روانہ کیا۔ لیکن، دو غیر معمولی طور پر بھیانک واقعات ایسے ہوئے جن سے یہی نتیجہ نکلتا تھا کہ کم خرچ کے یہ تجربے بہت زیادہ مہنگے ہیں کیونکہ ان تجربوں میں انسانی جانیں تلف ہوئی تھیں، پہلی بار ۱۹۹۰ء کی دہائی میں اور پھر ۲۰۰۰ء کی دہائی میں، جس میں کلپنا چاؤلہ فوت ہوئیں۔
 اس کے بعد امریکہ نے جیتے جاگتے خلا بازوں کو مدار میں بھیجنے کی جرأت نہیں کی مگر ۲۰۲۰ء میںایک نجی ادارہ نے اپنی پہلی خلائی سروس کا آغاز کیا۔ روسی اب بھی چند ترمیمات اور اضافوں کے ساتھ۱۹۶۰ء کی تکنالوجی کا سہارا لے کر خلاء میں راکٹ داغتے ہیں ۔  اس کیلئے وہ ۹۰؍ سال پرانی نازی دور کی تکنالوجی سے بھی استفادہ کرتے ہیں ۔ یہ تھوڑی بہت تفصیل تھی جسے مَیں نے قارئین کے اعادہ کیلئے ضروری جانا۔ اب آئیے یہ بھی سمجھ لیں کہ خلائی پیش رفتیں پچاس سال تک کیوں تعطل کا شکار رہیں۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ خرچ بہت تھا اور حکومتیں ایسے پروجیکٹوں کو روک نہیں سکتی تھیں جن کا تعلق عوام کی بہبود سے تھا۔ وہ یہ سننا گوارا نہیں کرسکتی تھیں کہ حکومت خلائی تجربوں پر رقومات صرف کررہی ہے اور عوامی پروجیکٹ رُکے ہوئے ہیں۔آج بھی امریکی خلائی ادارہ ’’ناسا‘‘ کا بجٹ ۲۵؍ بلین ڈالر ہے جبکہ ہندوستانی خلائی ادارہ ’’اِسرو‘‘ کا بجٹ صرف ۱ء۵؍ بلین ڈالر ہے۔یہی وجہ ہے کہ اِسرو کی پیش رفتوں کو کافی سراہا جاتا ہے۔
 خلائی تحقیقات میں کیا کیا جانا چاہئے اور کیا نہیں، یہ گزشتہ پندرہ سال میں واضح ہوا ہے بالخصوص تب جب یہ علم ہوا کہ خلائی رابطہ کا جی پی ایس سسٹم اور انٹرنیٹ یہ دونوں چیزیں معیشت کو غیر معمولی فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نجی اداروں نے سب سے پہلے انٹرنیٹ پر اپنی توانائی صرف کی اور پھر ٹیکنالوجی پر محنت کی جس کے سبب سیٹلائٹ بنے اور پھر راکٹ تیار ہوئے۔ یہ راستہ بھی ہموار کیا امریکہ نے، جس کی کوشش تھی کہ اسپیس اسٹارٹ اَپس کو مالی مدد فراہم کی جائے اور راکٹ ٹیکنالوجی تیار کرنے میں اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ چونکہ راکٹ بھی میزائلوں سے کم نہیں ہوتے اس لئے اُن پر حکومت کی نگاہ ضروری تھی۔ امریکہ نے اپنی فرموں کو راکٹ بنانے کی جو اجازت دی وہ مشروط تھی۔ مثال کے طور پر ایک شرط یہ تھی کہ ان فرموں میں، جو راکٹ ٹیکنالوجی تیار کررہی تھیں، صرف امریکیوں کو کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ اپنی صلاحیتوں کو اپنے ہی استعمال میں رکھنے کی تدبیر تو تھی ہی، اپنی ٹیکنالوجی کو دوسروں بالخصوص ’’غلط ہاتھوں‘‘ سے بچانے کی بھی تدبیر تھی۔ نجی اداروں نے ان شرطوں کو قبول کرلیا کیونکہ انہیں خلائی زمرہ میں شامل ہونے کا موقع مل رہا تھا۔ 
 اس کے بعد ایک چھوٹی سی مسابقت کی دَوڑ تب شروع ہوئی جب امریکہ نے دو فرموں کو مدار میں انسان کو بھیجنے کے پہلے تجربہ کیلئے مالی امداد فراہم کی۔ بوئنگ نامی کمپنی بہت بڑی تھی لیکن اسے  بعد میں قائم ہونے والی کمپنی اسپیس ایکس کیلئے پیچھے ہٹنا پڑا ۔ آج کم از کم دو فرمیں ایسی ہیں جو پچاس سال پرانے راکٹوں جیسے حجم کے راکٹ تیار کررہی ہیں۔ ان کے سامنے دو اہداف ہیں: پہلا یہ کہ خلائی تجربوں پر آنے والی لاگت کو کم کیا جائے اور دوسرا یہ کہ ایسے خلائی جہاز تیار کئے جائیں جن میں انسان سفر کرے نیز مریخ پر بستیاں بسائی جاسکیں۔ اگر مریخ ’’فتح‘‘ ہوگیا تو سوچئے یہ کتنی بڑی انسانی پیش رفت اور کامیابی ہوگی۔اب تک جن ملکوں نے مدار میں انسان کو بھیجا اُن میں روس، امریکہ اور پھر چین شامل ہے، اس کے علاوہ وہ کمپنی جس کا ابھی ذکر کیا گیا یعنی اسپیس ایکس۔ 
 اب اگر مذکورہ اہداف کو پورا کرلیا گیا تو اس کے پورا کرنے والوں کی گویا خلاء پر اجارہ داری ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو ممالک اتنی بڑی پیش رفت نہیں کرسکتے اُنہیں مذکورہ ملکوں یا فرموں سے معاونت حاصل کرنی پڑے گی۔ آج برطانیہ اور جرمنی جیسے ملکوں میں بھی لانچ کی گنجائش نہیں ہے۔ اُنہیں کوئی تجربہ کرنا بھی ہوتا ہے تو امریکہ کی مدد لینی پڑتی ہے۔ایک اور مثال فرانس کی ہے جس کا ایرین پروگرام تعطل کا شکار ہے۔ اس نے اپنا پرانا راکٹ ہٹا دیا اور نیا تیار کررہا ہے۔ اس پورے پس منظر میں ہندوستانی پیش رفت (چندریان۔۳) کی بڑی اہمیت ہے۔ ہم ابھی تجرباتی سطح پر ہیں اور اگر اس میں کامیاب ہوئے تو ممکنہ طور پر آئندہ سال مدار میں انسان بھیجنے کا تجربہ کرسکیں گے۔ بہرکیف دس سال سے زیادہ عرصہ نہیں لگے گا جب ہم پر یہ واضح ہوچکا ہوگا کہ کون سے ممالک اور نجی ادارے ایسے ہیں جو خلاء کی جنگ جیت رہے ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہوگا کہ سائنسی پیش رفتوں سے سائنس اور تکنالوجی کی کتنی ترقی ظاہر ہوتی ہے اور انسانی زندگی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ n

science Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK