رِشی سونک برطانیہ کے سب سے کم عمر وزیراعظم ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات جس سے ہندوستان کو سبق لینا چاہئے وہ برطانیہ کا اس کی اقلیتوں کےتئیں وسیع القلبی اور فراخدلانہ رویہ ہے۔
EPAPER
Updated: November 10, 2022, 1:50 PM IST | Khalid Sheikh | Mumbai
رِشی سونک برطانیہ کے سب سے کم عمر وزیراعظم ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات جس سے ہندوستان کو سبق لینا چاہئے وہ برطانیہ کا اس کی اقلیتوں کےتئیں وسیع القلبی اور فراخدلانہ رویہ ہے۔
ہندوستانی نژاد رِشی سونک کا برطانیہ کا وزیراعظم بننے پر ہم ہندوستانیوں کا خوش ہونا اور فخر کرنا بجا ہے لیکن وہاٹس ایپ پر جس طرح’ اپنا لڑکا ‘برطانیہ کا وزیراعظم بن گیا، کا راگ الاپا گیا وہ غیر مناسب تھا کیونکہ یہ اعلیٰ منصب انہیں ان کے نسلی پس منظر کی بنیاد پر نہیں ان کی لیاقت وقابلیت اور کنزرویٹیو پارٹی کی حکومتوں میں ان کی اچھی کارکردگی اور تجربہ کی بناء پر ملا ہے ورنہ سبھی جانتے ہیں کہ وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میںوہ لزٹرس سے ہارگئے تھے، اور مؤخرالذکر کو ان کی غلط پالیسیوں اور اقدامات کے چلتے مستعفی ہونا پڑا جس سے رِشی سونک کے وزیراعظم بننے کا راستہ ہموار ہوگیا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اس بار پارٹی نے ان کے مدّمقابل سفید فام امیدواروں کو حائل ہونے نہیں دیا اور ۳۵۷؍ میں سے ۲۰۰؍ سے زائد ممبروں نے رِشی سونک کو ووٹ دے کر ان پر اعتماد کا اظہارکیا لیکن ان کے لئے یہ ڈگراتنی آسان نہیں ہوگی۔ برطانوی معیشت جس ابتری کا شکارہے اسے راستے پر لانا کارے دارد ثابت ہوگا۔ برٹش راج میں رِشی کے دادا دادی نے تقریباً سوسال پہلے برصغیر کو خیر باد کہہ کر بہتر زندگی کی خاطر نیروبی میں سکونت اختیار کی تھی۔ان کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا جو اب پاکستان کا حصہ ہے۔ اس لحاظ سے رِشی پر جتنا حق ہم ہندوستانیوں کا ہے اتنا ہی پاکستانیوں کا بھی ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ ہم اس جھمیلے میں پڑے بغیر رِشی کی کامیابی کا جشن منائیں جو ان گنے چُنے ہندوستانی ، پاکستانی اور ایشیائی نژاد باشندوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی محنت ومشقت سے بیرون ملک سکونت اختیارکرکے اپنے آباواجداد کے ملک کی شان بڑھائی اور اقتدار کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے۔ ہمیں اس غلط فہمی کو بھی جگہ نہیں دینی چاہئے کہ رِشی کے ہوتے برطانیہ کی پایسی ہندوستان حامی ہو گی۔ وہ برطانوی شہری ہیں جن کی پیدائش وپرورش برطانیہ میں ہوئی۔ انہوںنے تعلیم برطانیہ اورامریکہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں حاصل کی اس لئے ایک شہری اور سیاستداں کی حیثیت سے ان کی وفاداری ہمیشہ برطانیہ کے ساتھ ہوگی۔ انہیں اس لئے بھی محتاط رہنا ہوتا کہ ان کے سیاسی رقیب اور مقامی میڈیا ہندوستان کے تئیں ان کی ہر حرکت اورکارروائی پر نظر رکھیں گے ۔ یہ اور بات ہے کہ عالمی سطح پر ہندوستان کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا جو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک اور سیاستدانوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود کثرت میں وحدت کی تابندہ مثال ہے۔ آبادی اور کاروباری نقطۂ نظر ہندوستان ایک ایسا بڑا بازار ہے جس سے دنیاکے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک تجارتی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ۴۲؍ سالہ رِشی کو البتہ یہ اعزاز جاتا ہے کہ ۲۰۰؍ سال سے زیادہ عرصے میںوہ برطانیہ کے سب سے کم عمر وزیراعظم ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات جس سے ہندوستان کو سبق لینا چاہئے وہ برطانیہ کا اس کی اقلیتوں کے تئیں وسیع القلبی اور فراخدلانہ رویہ ہے۔ وہاںکی ۶ء۸؍ فیصد آبادی ایشیائی نژاد ہے جس میں ۲ ء ۳؍ فیصد کا تعلق ہندوستانی نسب سے ہے، اس کے ایک ایسے فرد کو ملک کا وزیراعظم بنانا جس کے آباواجدادساٹھ کی دہائی میں برطانیہ آئے، جمہوریت اور مذہبی رواداری کی اعلیٰ مثال ہے۔ ویسے یہ پہلا موقع نہیں ۔ سابق وزیراعظم بورس جانسن کی کیبنٹ میں ۲۰؍ فیصد وزراء افریقی یا ایشیائی نسل کے تھے۔ ہم یہ بھی بتادیںکہ گزشتہ چار چانسلروں(وزیرخزانہ) دو وزیر داخلہ اور حال کے وزیر خارجہ کا تعلق تارکینِ وطن کے خاندانوں سے رہا ہے۔ برطانیہ میں یہ تمام عہدے خاصی اہمیت وعظمت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ اب آیئے ان حالات کا موازنہ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں سے کریں جن کی آبادی۱۴ء۳؍فیصد ہے۔ اس لحاظ سے لوک سبھا میں ان کا تناسب ۷۸؍ہونا چاہئے جو موجودہ لوک سبھا میں صرف ۲۷؍ ہے ۔ملک کی ۲۸؍ریاستوں میں ایک بھی مسلم وزیراعلیٰ نہیں اور ۱۵؍ ریاستوں میں ایک بھی وزیرنہیں۔ ۱۰؍ ریاستوں میں صرف ایک مسلم وزیر ہے جس کے ذمہ عموماً اقلیتی امور کی وزارت ہوتی ہے۔ آج پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بی جے پی کاایک بھی مسلم ممبر نہیں ۔یوپی میں مسلمانوں کی آبادی ۲۰؍ فیصد ہے لیکن وہاں بھی اسمبلی میں مسلم ممبر ندارد ہیں۔ گجرات میں ۱۹۹۸ء یعنی گزشتہ ۲۴؍ سال سے کسی بھی مسلمان کو پارلیمنٹ یا اسمبلی الیکشن کا ٹکٹ نہیں دیا گیا جبکہ وہاں مسلمانوں کی آبادی ۹؍فیصد ہے۔ جہاں تک پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی ملازمتوں میں مسلم نمائندگی کاتعلق ہے تو وہاں بھی صورتحال ابتر نظر آتی ہے۔ مرکزی و ریاستی سطح کی سرکاری ملازموں میں ان کا فیصد ۴ء۹؍ فیصد، پیراملٹری فورسز میں ۴ء۶؍فیصد، آئی اے ایس، آئی ایف ایس اور آئی پی ایس افسروں میں ۳ء۲؍فیصد ہے جبکہ فوج میں صرف ایک فیصد ہے۔ مسلمانوں کے برعکس ہندو جن کی آبادی ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق ۸۰ء۲؍فیصد ہے، پبلک سیکٹر میں ان کی نمائندگی آبادی کی حدوں کو پارکرکے ۸۶؍ فیصد ہوگئی ہے۔ یوپی میں ۲۰۱۰ء میں مسلمانوںکی نمائندگی ۵؍فیصد تھی جو ۲۰۱۲ء میں سماج وادی کے دور میں بڑھ کر ۱۱ء۵؍ فیصد ہوگئی لیکن یوگی کے دور میں ۲۰۱۹ء اور ۲۰۲۰ء میں گھٹ کر بالترتیب ۷؍ اور ۶ء۵؍ فیصد رہ گئی ہے ۔ ہندوتوا کی تجربہ گاہ گجرات میں ان کا حال سب سے بُرا ہے۔ وہاں کی نمائندگی ۷؍فیصد سے گھٹ کر ۱ء۵؍ فیصد پر آگئی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر اور کارپوریٹ سیکٹر میں بھی مسلم نمائندگی کی صورتحال سرکاری اور پبلک سیکٹر سے بہتر نہیں۔ ان سب کے پس پشت مسلمانوں کے تئیں نفرت وعصبیت کا جذبہ کارفرما نظرآتا ہے جسے فروغ دینے میں سب سے بڑا ہاتھ مودی حکومت کی فرقہ وارانہ سیاست اور مودی بھکتوں کا ہے جس کا اظہار کبھی شمشان و قبرستان اور دیوالی و رمضان کے ذریعے کیاجاتا ہے تو کبھی لنچنگ اور لوجہاد کے ذریعے۔ کبھی ہندوؤں کو ان کے قتل عام اور معاشی بائیکاٹ پر اکسایاجاتا ہے ، کبھی انہیں بربا کی اولاد کے نام سے پکارا جاتا ہے، دیمک سے تعبیر کیاجاتا ہے اورپاکستان جانے کو کہا جاتا ہے۔ ہندوتوا وادیوں کی پریشانی یہ ہے کہ ۲۰؍ کروڑ مسلمانوں کو وہ ملک بدر کرسکتے ہیںنہ دریا بُرد ۔ ہمارے پردھان سیوک اور بی جے پی لیڈر سب کا ساتھ سب کا وکاس، وشواس اور پریاس کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتے لیکن عمل سے کورے رہتے ہیں ۔ کاش رِشی کی بے مثال کامیابی پر فخروانبساط کا اظہار کرنے والے لیڈر خود سے یہ سوال بھی کریں کہ کیا ہندوستان میں کسی مسلمان کووزیراعظم بنایا سکتا ہے؟