گزشتہ جمعہ کو شائع ہونے والے مضمون ’’قرآن کریم کی حقانیت نے دورِ جاہلیت کے عربی دانوں کو ’عجم‘ (گونگا)کردیا تھا‘‘ کی دوسری قسط
EPAPER
Updated: December 16, 2022, 11:29 AM IST | Mufti Taqi Usmani | Mumbai
گزشتہ جمعہ کو شائع ہونے والے مضمون ’’قرآن کریم کی حقانیت نے دورِ جاہلیت کے عربی دانوں کو ’عجم‘ (گونگا)کردیا تھا‘‘ کی دوسری قسط
مفتی تقی عثمانی
قرآن کریم کی خصوصیات کا احاطہ تو بشری طاقت سے باہر ہے تاہم انسان کی محدود بصیرت کے مطابق ان خصوصیات کو چار عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
(۱) الفاظ کا اعجاز (۲) ترکیب کا اعجاز (۳)اسلوب کا اعجاز ، اور (۴)نظم کا اعجاز۔
الفاظ کا اعجاز: کسی زبان کا کوئی شاعر یا ادیب ، خواہ اپنے فن میں کمال کے کتنے ہی بلند مرتبے کو پہنچا ہوا ہو، یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کے کلام میں کہیں بھی کوئی لفظ غیرفصیح استعمال نہیں ہوا کیونکہ بسا اوقات انسان اپنے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے کسی نہ کسی غیرفصیح لفظ کے استعمال پر مجبور ہوجاتا ہے ، لیکن… الحمدؔ سے لے کر والناسؔ تک پورے قرآن کریم میں نہ صرف یہ کہ کہیں کوئی ایک لفظ بھی غیرفصیح نہیں ہے بلکہ ہر لفظ جس مقام پر آیا ہے وہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ایسا اٹل ہے کہ اُسے بدل کر اسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ دوسرا لفظ لانا ممکن ہی نہیں ہے۔ عربی زبان ایک انتہائی وسیع زبان ہے جو اپنے ذخیرۂ الفاظ کے اعتبار سے دنیا کی دولتمند ترین زبانوں میں سے ایک ہے، چنانچہ اُس میں ایک مفہوم کیلئے معمولی معمولی فرق سے بہت سے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم الفاظ کے اس وسیع ذخیرے سے اپنے مقصد کی ادائیگی کیلئے وہی لفظ منتخب فرماتا ہے جو عبارت کے سیاق ، معنیٰ کی ادائیگی اور اسلوب کے بہاؤ کے لحاظ سے موزوں ترین ہو۔ یہ بات چند مثالوں سے واضح ہوسکے گی
(۱) زمانۂ جاہلیت میں ’’موت‘‘ کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے بہت سے عربی الفاظ مستعمل تھے ، مثلاً موت، ہلاک، فنار، حتف، شعوب، حِمام، مَنون، سام، قاضیہ، ہمیغ، نیط، فود، مقدار، جباز، قیتم، حلاق، طلاطل، طلاطلہ، عول، ذام، کفت، جداع، حزرۃ اور خالج۔ لیکن ان میں سے اکثر الفاظ کے پس منظر میں اہلِ عرب کا یہ قدیم نظریہ جھلکتا تھا کہ موت کے ذریعے انسان کے تمام اجزاء ہمیشہ کے لئے فنا ہوجاتے ہیں اور اس کا دوبارہ زندہ ہونا ممکن نہیں۔ چونکہ وہ لوگ معاد و آخرت اور حساب و کتاب کے قائل نہیں تھے اس لئے انہوں نے موت کے لئے جتنے نام تجویز کئے اُن سب میں اس نظریہ کی جھلک موجود ہے۔ اگر قرآن کریم اہل عرب کی انہی قدیم تعبیرات پر اکتفاء کرتا تو موت کے بارے میں اُن کے باطل نظریہ سے کسی درجہ میں موافقت کا شبہ ہوسکتا تھا چنانچہ جس جگہ موت کی حقیقت بیان کرنی تھی ، وہاں موت کے مفہوم کے لئے قرآن مجید نے مذکورہ چوبیس الفاظ کو چھوڑ کر ایک نیا لفظ اختیار کیا اور عربی زبان کو ایک ایسا خوبصورت ، مختصر ، جامع اور فصیح لفظ عطا کیا جس سے موت کی حقیقت بھی واضح ہوجائے، اور وہ لفظ ہے ’’تَوَفِّی‘‘ جس کے لغوی معنی ہیں ’’کسی چیز کو پورا پورا وصول کرلینا۔‘‘ اس لفظ نے یہ بھی واضح کردیا کہ موت ابدی فنا کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روح قبض کرنے کا نام ہے، چنانچہ جب اللہ تعالیٰ چاہے وہ جسم کے منتشر اجزاء کو یکجا کرکے اُن میں دوبارہ روح کو لَوٹا سکتا ہے۔
’’موت‘‘ کے لئے یہ لفظ قرآن کریم سے پہلے کسی نے استعمال نہیں کیا تھا چنانچہ ابن سیدہؒ نے ’’المخصص‘‘ میں ’’موت‘‘ کے دوسرے الفاظ کے لئے تو اہل عرب کے اشعار سے مثالیں پیش کی ہیں لیکن ’’توفی‘‘ کے لئے قرآن کریم کے سوا کوئی استشہاد پیش نہیں کیا۔
(۲) ہر زبان کے بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو صوتی اعتبار سے فصیح اور پسندیدہ نہیں سمجھے جاتے لیکن چونکہ اُن کے مفہوم کی ادائیگی کے لئے کوئی اور متبادل لفظ نہیں ہوتا اس لئے اہل زبان انہیں استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، لیکن قرآن کریم ایسے مواقع پر ایسی خوبصورت تعبیر اختیار کرتا ہے کہ ذوقِ سلیم وجد کر اٹھتا ہے۔ مثلاً عربی میں تعمیر مکان کے لئے پکی ہوئی اینٹوں کے لئے جتنے الفاظ مستعمل ہیں سب ثقیل، مبتذل اور ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں مثلاً اٰجُرُّ، قَرْمَد اور رُطوب۔ اب قرآن کریم میں یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ فرعون نے اپنے وزیر ہامان کو حکم دیا کہ میرے لئے ایک اونچا محل تعمیر کرنے کے لئے اینٹیں پکاؤ۔ اس واقعے کو ذکر کرنے کے لئے اینٹ کا لفظ استعمال کرنا ناگزیر تھا لیکن قرآن کریم نے اس مفہوم کو ایسے معجزانہ انداز سے ذکر فرمایا ہے کہ مفہوم بھی نہایت حسن کے ساتھ ادا ہوگیا اور ثقیل الفاظ کے استعمال کی قباحت بھی پیدا نہیں ہوئی، چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’اور فرعون نے کہا کہ اے سردارانِ قوم! مجھے اپنے سوا تمہارا کوئی معبود معلوم نہیں، پس اے ہامان! گیلی مٹی پر آگ روشن کرکے میرے لئے ایک محل تعمیر کرو۔‘‘ (القصص:۳۸)
(۳) عربی میں بعض الفاظ ایسے ہیں جو مفرد ہونے کی حالت میں تو سبک اور فصیح ہیں لیکن ان کی جمع ثقیل سمجھی جاتی ہے، مثلاً زمین کے معنی میں لفظ ’’ارض‘‘ ایک سبک لفظ ہے۔ اس کی دو جمعیں عربی میں مستعمل ہیں، اَرضون اور اَراضی ۔یہ دونوں ثقیل سمجھی جاتی ہیںاور ان کی وجہ سے کلام کی سلاست میں فرق واقع ہوجاتا ہے لیکن جہاں جمع کا مفہوم ادا کرنا ضروری ہوتا ہے وہاں ادبائے عرب انہی کے استعمال پر مجبور ہوتے ہیں، اس کے برخلاف قرآن کریم نے بیشتر مقامات پر سماواتُ کو بصیغۂ جمع اور اس کے ساتھ اَرض کو مفرد استعمال کیا ہے اور کہیں اَرض کو بصیغۂ جمع استعمال نہیں فرمایا البتہ ایک جگہ سات زمینوں کا ذکر کرنا تھا جس کے لئے جمع کا صیغہ لانا ضروری تھا لیکن قرآن نے اس صیغۂ جمع سے احتراز کرکے ایسی خوبصورت تعبیر اختیار کی کہ مفہوم بھی ٹھیک ٹھیک ادا ہوگیا اور نہ صرف یہ کہ کلام میں کوئی ثقل پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کے حُسن میں چنددرچند اضافہ ہوگیا ہے۔ ارشاد ہے
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ
’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور زمین میں سے بھی اتنی ہی۔ ‘‘ (الطلاق:۱۲)
دیکھئے! یہاں سماء (آسمان) کی جمع تو لائی گئی لیکن قرآن نے ارض کی جمع لانے کے بجائے اس کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ کی تعبیر اختیار فرمائی جس کے اسرار و نکات پر جس قدر غور کیجئے معجزانہ بلاغت کا دریا موجزن نظر آتا ہے۔
ترکیب کا اعجاز: الفاظ کے بعد جملوں کی ترکیب، ساخت اور نشست کا نمبر آتا ہے۔ اس معاملے میں بھی قرآن کریم کا اعجاز اوجِ کمال پر ہے۔ قرآن کریم کے جملوں کے درو بست میں وہ شوکت، سلاست اور شیرینی ہے کہ اس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔ یہاں میں صرف ایک مثال پر اکتفاء کرتا ہوں:
قاتل سے قصاص لینا اہل عرب میں بڑی قابل تعریف بات تھی اور اس کے فوائد ظاہر کرنے کے لئے عربی میں کئی مقولے مشہور تھے ، مثلاً القتل احیاء للجمیع (قتل اجتماعی زندگی ہے) اور القتل انفیٰ للقتل (قتل سے قتل کی روک تھام ہوتی ہے ۔) ان جملوں کو اتنی مقبولیت حاصل تھی کہ یہ زبان زدِ عام تھے اور فصیح سمجھے جاتے تھے۔ قرآن کریم نے بھی اسی مفہوم کو ادا فرمایا لیکن کس شان سے؟ ارشاد ہے:
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ
’’اور تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔‘‘
(البقرہ:۱۷۹)
اس جملے کے اختصار، جامعیت ، سلاست ، شوکت اور معنویت کو جس پہلو سے دیکھئے بلاغت کا معجز شاہکار معلوم ہوتا ہے اور پہلے کے تمام جملے اس کے آگے سجدہ ریز دکھائی دیتے ہیں۔
اسلوب کا اعجاز:قرآن کریم کے اعجاز کا سب سے زیادہ روشن مظاہرہ اس کے اسلوب میں ہوتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کا مشاہدہ ہر کس و ناکس کرسکتا ہے۔ اس کے اسلوب کی اہم معجزانہ خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں
۱) قرآن کریم ایک ایسی نثر پر مشتمل ہے جس میں شعر کے قواعد و ضوابط ملحوظ نہ ہونے کے باوجود ایک ایسا لذیذ اور شیریں آہنگ پایا جاتا ہے جو شعر سے کہیں زیادہ حلاوت اور لطافت کا حامل ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کا جمالیاتی ذوق نظم اور شعر میں ایک ایسی لذت اور حلاوت محسوس کرتا ہے جو نثر میں محسوس نہیں ہوتی۔ اگر آپ اس لذت اور حلاوت کے سبب پر غور فرمائیں گے تو معلوم ہوگا کہ اس کا راز درحقیقت لفظوں کی اس ترتیب میں مضمر ہے جو ایک خاص صوتی آہنگ پیدا کرتی ہے۔ عربی ، فارسی اور اردو کی قدیم شاعری میں اس آہنگ کی لذت شعر کے خاص اوزان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ جب ایک ہی صوتی وزن کے الفاظ بار بار کانوں میں پڑتے ہیں تو اس سے ذوق سلیم کو ایک خاص لذت حاصل ہوتی ہے اور پھر جب وزن کے ساتھ قافیہ بھی مل جاتا ہے تو اس کی لذت دوچند ہوجاتی ہے، اور جب اس کے ساتھ ردیف کی یکسانیت بھی شامل ہوجاتی ہے تو لذت میں اور اضافہ ہوجاتا ہے ، اور اگر مصرعوں کے بیچ بیچ میں عروضی اوزان کے ساتھ صرفی اوزان اور قوافی کی یکسانیت بھی شامل ہوجائے (جیسا کہ مرصع اشعار میں ہوتا ہے) تو یہ لذت اور بڑھ جاتی ہے۔
لیکن اوزان اور قوافی کے اصول ہر خطے اور ہر زبان میں یکساں نہیں ہوتے ۔ ہرزبان کے لوگ اپنے اپنے ذوق اور مزاج کے لحاظ سے اس کے لئے مختلف قواعد مقرر کرتے ہیں۔ مثلاً اہل عرب نے اپنی شاعری کو وزن اور قافیہ کے اُن سانچوں تک محدود رکھا ہے جو خلیل بن احمد وغیرہ نے وضع کئے ہیں۔ فارسی شاعری میں اوزان کا دائرہ کچھ اور وسیع کیا گیا اور نئی نئی بحریں اختیار کی گئیں لیکن قافیہ اور ردیف کی پابندی میں زیادہ کڑی شرائط عائد کردی گئیں۔ چنانچہ عربی شاعری میں قبور اور کبیر کو ہم قافیہ سمجھا جاتا ہے جبکہ فارسی میں یہ ممکن نہیں۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ شعر کی لذت و حلاوت میں اوزان و قوافی کے لگے بندھے قواعد کوئی عالمگیر حیثیت نہیں رکھتے۔ لیکن ایک چیز ہے جو تمام زبان اور قوموں میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے ، اور وہ ہے ایک ’’متوازن صوتی آہنگ‘‘ یعنی الفاظ کو اس طرح ترتیب دینا کہ اُن کے تلفظ سے اور انہیں سن کر انسان کا جمالیاتی ذوق حظ محسوس کرے۔ لیکن انسان چونکہ اس قدر مشترک کو اوزان و قوافی کے معروف سانچوں سے الگ کرنے پر قادر نہیں اس لئے جب وہ شاعری کا لطف پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے لازماً اپنے ماحول کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ یہ صرف قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ اس نے دنیا کے مختلف خطوں میں مقرر کئے ہوئے شعری قواعد میں سے کسی قاعدے کی پابندی نہیں کی بلکہ صرف ’’متوازن صوتی آہنگ‘‘ کی اس قدر مشترک کو اختیار کرلیا ہے جو اِن سارے قواعد کا اصل مقصود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نثر ہونے کے باوجود شعر سے زیادہ لطافت اور حلاوت کا حامل ہے اور صرف اہل عرب ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر زبان کے لوگ اسے سن کر غیرمعمولی لذت اور تاثیر محسوس کرتے ہیں۔
(قرآن کریم کی اعجازی خصوصیات کی تیسری اور آخری قسط آئندہ ہفتے ملاحظہ فرمائیں)