قرآنی مباحث میں مثالوں کی جو اہمیت ہے اس کا اندازہ قرآن کے ہر طالب علم کو ہوگا۔ یہ مثالیں اپنے اندر بے شمار اسرار اور حقائق کا خزانہ رکھتی ہیں، جن کے سمجھنے کے بعد قرآنی اعجاز ِبلاغت کا کمال معلوم ہوسکتا ہے۔
EPAPER
Updated: April 25, 2025, 4:40 PM IST | Maulvi Muhammad Ayub Jirajpuri | Mumbai
قرآنی مباحث میں مثالوں کی جو اہمیت ہے اس کا اندازہ قرآن کے ہر طالب علم کو ہوگا۔ یہ مثالیں اپنے اندر بے شمار اسرار اور حقائق کا خزانہ رکھتی ہیں، جن کے سمجھنے کے بعد قرآنی اعجاز ِبلاغت کا کمال معلوم ہوسکتا ہے۔
تمثیل کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی غیرواضح اور غیرمحسوس حقیقت کو مخاطب کے فہم سے قریب تر لانے کیلئے کسی ایسی چیز سے تشبیہ دی جائے جو واضح اور محسوس ہو۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھو کہ جو چیز عام نگاہوں سے اوجھل ہوتی ہے تمثیل کے ذریعہ گویا اس کا مشاہدہ کرا دیا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں یہ بیان بڑی کثرت کے ساتھ اختیار کیا گیا ہے کیونکہ جن حقائق سے وہ آگاہ کرنا چاہتا ہے وہ قریب قریب سب کے سب غیرمرئی اور غیرمحسوس ہیں۔ لہٰذا قرآن مجید کی تمثیلات کا مضمون بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس میں تدبر کرنا مطالب قرآن کو سمجھنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔
(۱) قرآن، منافقین کے بارے میں کہتا ہے:
’’ان کی مثال ایسے شخص کی مانند ہے جس نے (تاریک ماحول میں ) آگ جلائی اور جب اس نے گرد و نواح کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا، اب وہ کچھ نہیں دیکھتے، یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راہِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گے، یا ان کی مثال اس بارش کی سی ہے جو آسمان سے برس رہی ہے جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (بھی) ہے تو وہ کڑک کے باعث موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں، اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے، یوں لگتا ہے کہ بجلی ان کی بینائی اُچک لے جائے گی، جب بھی ان کے لئے (ماحول میں ) کچھ چمک ہوتی ہے تو اس میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں، اور اگر اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل سلب کر لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘
(سورہ البقرہ: ۱۷؍تا۲۰)
اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے منافقین کے حسب حال دو مثالیں بیان کی ہیں۔ ایک ناریؔ دوسری مائیؔ(آگ کی اور پانی کی)۔ غور کرو تو معلوم ہوگا کہ اس میں فلسفۂ ہدایت کی گہری حکمت پنہاں ہے۔ یہی دونوں چیزیں (آگ اور پانی) روشنی اور زندگی کا سرچشمہ ہیں۔ آگ روشنی کی اصل ہے اور پانی زندگی کی اصل ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی وحی کے متعلق فرماتا ہے کہ اس کے اندر دلوں کیلئے زندگی اور نور ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام اس نے روح اور نور رکھا ہے۔ اسے قبول کرنے والوں کو ’’احیاء‘‘ (زندہ) کہتا ہے جو روشنی میں ہیں، اور منکرین کو ’’اموات‘‘ (مردہ) بتاتا ہے جو تاریکی کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ یہاں منافقین کی حالت اس مناسبت سے بیان ہے کہ انہوں نے وحی الٰہی کو دلیل ِ راہ بنایا لیکن اپنی ہی خریدی ہوئی بدبختیوں کی بدولت اس پر قائم نہ رہ سکے۔ اسی لئے ان کو اس شخص کے مشابہ قرار دیا ہے جس نے آگ جلائی روشنی حاصل کرنے اور بہرہ مند ہونے کے لئے لیکن اس کی یہ کوشش نتیجہ خیز نہ ہوئی۔ منافقین کی حالت اس سے بالکل ملتی جلتی ہے بایں طور کہ انہوں نے دائرۂ اسلام میں قدم رکھا، اس کی روشنی میں چلنا چاہا، فوائد حاصل کئے، اس کے دامن میں پناہ لی اور مسلمانوں میں مل گئے، لیکن چونکہ اس میل ملاپ کا محرک کوئی ایمانی جذبہ نہ تھا جس کا نور ان کے دلوں میں واقعتاً موجود ہوتا اس لئے اللہ نے اسلام کی یہ روشنی ان کے دلوں سے بجھا دی اور ان پر ظلمت و تاریکی کا پردہ ڈال دیا۔ ذرا قرآن کی اس حکمت پر بھی ایک نظر ڈالو کہ اس نے ذھب اللہ بنورھم (ان کی روشنی زائل کردی) کہا ہے بنارھم (یعنی ان کی آگ بجھا دی) نہیں کہا۔ آگ کی خاصیت روشنی بخشنا اور جلانا دونوں ہے۔ سو اللہ نے روشنی تو ان سے سلب کرلی اور جلانے کی تاثیر باقی رکھی اور ان کو تاریکیوں میں بھٹکتا چھوڑ دیا۔ یہی اس شخص کی صحیح تصویر ہے جس نے بینائی سے کام لیا، پھر آنکھوں پر خود ہی پٹی باندھ لی۔ معرفت و ہدایت کی سعادت حاصل کی پھر خود ہی انکار و تکذیب کی لعنت اوڑھ لی۔ حدودِ اسلام میں داخل ہوا پھر باطنی لحاظ سے آپ ہی آپ الٹے پاؤں پھر گیا اور ادھر کا رخ نہ کیا۔ اس کی وجہ ان کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ ’’وہ اب لوٹنے والے نہیں ہیں۔ ‘‘
اب ذراقرآن کی آبی تمثیل کے آئینہ میں بھی منافقین کی تصویر دیکھ لو۔ قرآن کہتا ہے کہ منافقین کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو چلتے چلتے زور و شور کی بارش میں گھر گئے ہوں، بادلوں کی ہمہ گیر تاریکی ان پر مسلط ہے، ہولناک بجلیوں کی کڑک چمک ہے، ضعف قلب اور سراسیمگی سے ان کا برا حال ہے۔ تاریکی میں کبھی کبھی رہ رہ کر بجلی چمکتی ہے تو اس کی مدد سے دوقدم چل لیتے ہیں لیکن جب زور کی بجلی کڑکتی اور کوندتی ہے تو ڈر کے مارے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اور آنکھیں بند کرلیتے ہیں کہ کہیں صاعقہ ٔ آسمانی (آسمان کی بجلی) آ نہ لے اور تارِ حیات ٹوٹ نہ جائے۔ بس اسی طرح ان منافقین کے لئے بھی رحمت ِ الٰہی کی وہ بارش جو قرآن کی صورت میں ہوئی، ان کی اپنی کمی ٔ عقل، ضعف ِدماغ اورقلت ِ علم و بصیرت کی وجہ سے زحمت بن گئی۔ قرآن کے احکام امر و نہی اور نفس پرستوں پر اس کی زجر و توبیخ ان کے لئے بجلی کی کڑک اور چمک بن گئے ہیں جن کی تاب لانا ان کے بس میں نہ تھا۔ ہلکی ہلکی بے ضرر تعلیمات کی روشنی میں تو وہ کچھ چل لیتے ہیں مگر جہاں آزمائش کے معاملات آجائیں یا جہاں تاویلات کی گنجائش نہ دے کر دو ٹوک فیصلہ کردینے والی آیت آجائے وہاں وہ سخت کشمکش اور پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ یہ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ جب گمراہ اور بدعتی فرقوں کے سامنے قرآن کی کوئی صریح آیت پیش کر دی جاتی ہے تو وہ ایسے سٹپٹاتے ہیں کہ گویا بکریوں کے سامنے شیر آگیا، حالانکہ قرآن کی آیت تو فی نفسہ رحمت ہے، مگر ان کیلئے سخت مصیبت بن جاتی ہے۔ اس کی چکاچوند میں وہ راستہ بھول جاتے ہیں اور اس کی آواز ان کیلئے بجلی کا کڑکا بن جاتی ہے جس سے جان بچانے کیلئے انہیں کانوں میں انگلیاں ٹھونس لینی پڑتی ہیں۔
ان کی یہ حالت کیوں ہوتی ہے؟ صرف اس بنا پر کہ ان کی عقلو ں اور دلوں پر حق سے نامانوسیت اور بیگانگت کا پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے کمزور دل صفات ِ الٰہی کے روحانی بار کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس وجہ سے وہ اعراض و نفرت پر تل جاتے ہیں ۔ انہی کے مثل ان مشرکوں کا حال بھی ہے جن کے سامنے خالص مسئلہ ٔ توحید مبرہن (روشن اور واضح) ہوکر آجاتا ہے اور قطعی دلائل و نصوص ان کے مشرکانہ اوہام کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہیں تب بھی ان کے دلوں میں ایمان کی روشنی پیدا نہیں ہوتی بلکہ ان پر قرآن کی بات اتنی شاق گزرتی ہے اور وہ اس سے اس قدر وحشت کھاتے ہیں کہ اگر ان کا بس چلے تو اپنے کانوں کو بند کرلیں۔ اسی طرح اگر تم اصحابؓ سرور کونین ﷺ سے بھی دشمنی رکھنے والوں کو دیکھو گے تو انہیں بھی اسی مرض میں گرفتار پاؤ گے۔ جب خلفائے راشدین اور صحابہؓ کی حقانیت اور بزرگی ثابت کرنے والی صریح نصوص ان کے سامنے بے نقاب ہوکر آتی ہیں تو ان سے بڑھ کر کوئی چیز ان کیلئے سوہانِ روح نہیں ہوتی اور نہایت بے باکی کے ساتھ وہ ان حقائق کا انکار کردیتے ہیں۔
غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان تمام عوارضِ قلوب کو منافقین کی اس معنوی حالت سے ایک خاص مناسبت ہے جس کی مثال اللہ نے بیان فرمائی ہے۔ اسلئے کہ ان کے حالات اور اعمال بالکل انہی کے سے ہیں اور دلوں کی مشابہت ہی اعمال کی مشابہت کا باعث ہوتی ہے۔ ایک جماعت یا ایک فرد کے افعال و کردار میں اگر ہم رنگی ہے تو جان لو کہ اس کی کیفیت نفسی اور ان کی صورت روحانی میں بھی ضروری مشابہت ہے۔
(۲) سورۂ رعد میں مومنین کو سامنے رکھ کر ان کے بارے میں بھی یہی دونوں ، ناری و مائی، تمثیلیں بیان فرمائی گئی ہیں مگر دنوں میں بڑا فرق ہے:
’’اس نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا تو وادیاں اپنی (اپنی) گنجائش کے مطابق بہہ نکلیں، پھر سیلاب کی رَو نے ابھرا ہوا جھاگ اٹھا لیا، اور جن چیزوں کو آگ میں تپاتے ہیں، زیور یا دوسرا سامان بنانے کے لئے اس پر بھی ویسا ہی جھاگ اٹھتا ہے، اس طرح اﷲ حق اور باطل کی مثالیں بیان فرماتا ہے، سو جھاگ تو (پانی والا ہو یا آگ والا سب) بے کار ہو کر رہ جاتا ہے اور البتہ جو کچھ لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے، اﷲ اس طرح مثالیں بیان فرماتا ہے۔ ‘‘
(سورہ الرعد:۱۷)
یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کو جسے وہ قلب انسانی کو زندہ کرنے کے لئے اتارتا ہے پانی سے تشبیہ دی ہے جو زمین کو زندہ کرنے کے لئے برسایا جاتا ہے اور دلوں کو ندی نالوں سے تشبیہ دی ہے۔ جس طرح ندی نالے آسمان کی بارش کو اپنی اپنی وسعت کے مطابق اپنے سینوں میں بھر لیتے ہیں اسی طرح انسانی قلوب بھی دریائے معرفت سے بقدر ظرف لے لیتے ہیں۔ جو قلب جتنی زیادہ وسعت رکھتا ہے وہ اسی قدر علم و بصیرت کا خزانہ وحی ٔ الٰہی کے فیضانِ عام سے حاصل کرلیتا ہے۔ پانی کے ساتھ وحی اور ندی نالوں کے ساتھ قلوب کی تشبیہ کس قدر بلیغ ہے۔ پھر دیکھو بادلوں سے جب بارش ہوتی ہے اور زمین پر پڑ کر دھارے کی شکل میں بہنے لگتی ہے تو اس وقت زمین کی تمام غلاظتیں اور میل کچیل اور خس و خاشاک سب ابھر کر سطح آب پر آجاتے ہیں مگر چند لمحوں کے بعد کہیں ان کا نام و نشان تک نہیں رہتا، اور وہی پاک صاف پانی باقی رہ جاتا ہے جو انسان کےلئے مفید ہے۔
(۳) دنیوی زندگی اور صاحب ِ دنیا کی مثال یوں بیان کی گئی ہے:
’’بس دنیا کی زندگی کی مثال تو اس پانی جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا پھر اس کی وجہ سے زمین کی پیداوار خوب گھنی ہو کر اُگی، جس میں سے انسان بھی کھاتے ہیں اور چوپائے بھی، یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی (پوری پوری) رونق اور حسن لے لیا اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے باشندوں نے سمجھ لیا کہ (اب) ہم اس پر پوری قدرت رکھتے ہیں تو (دفعتاً) اسے رات یا دن میں ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا تو ہم نے اسے (یوں ) جڑ سے کٹا ہوا بنا دیا گویا وہ کل یہاں تھی ہی نہیں، اسی طرح ہم ان لوگوں کے لئے نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں جو تفکر سے کام لیتے ہیں۔ ‘‘
(سورہ یونس:۲۴)
یہاں اللہ تعالیٰ نے دنیوی زندگی کی تشبیہ اس طرح دی ہے کہ دنیا جب زیب و زینت کے لباس میں بن سنور کر سامنے آتی ہے تو انسان اس پر مفتوں ہوجاتا ہے اور حصول دنیا ہی اپنا مطمح نظر قرار دے لیتا ہے حتیٰ کہ یہ فریب نفس اسے یہاں تک پہنچا دیتا ہے کہ وہ اس زینت ِ حیات کو اپنی ملک اور اپنے قبضۂ قدرت میں سمجھنے لگتا ہے۔ اس وقت یکایک کرشمۂ الٰہی نمودار ہوتا ہے اور اس کے ہاتھوں سے یہ محبوب ترین متاع چھین کر اسے خسران و ناکامی کی ناگہانی مصیبتوں اور حیرتوں میں چھوڑ جاتا ہے۔ اس کیفیت ِ زندگی کی تشبیہ اللہ تعالیٰ نے زمین سے دی ہے جس پر بارش کی کرشمہ سازی سے نباتات کی ہری ہری چادریں بچھ جاتی ہیں اور اس باصرہ نواز منظر کو دیکھ کرکسان بے خود و بےاختیار ہوجاتا ہے۔ اس وقت خدا اسے یاد نہیں آتا۔ نفس کے فریب میں آکر وہ اسے اپنے تدبر کا نتیجہ اور اپنی ملک سمجھنے لگتا ہے کہ اچانک حکم ِ الٰہی جاری ہوتا ہے اور یہ سارا سامان غرور آفات و حوادث کی نذر ہوکر رہ جاتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے اس کا طلسم ظن و غرور ٹوٹ جاتا ہے اور اسے دکھائی دیتا ہے کہ جس جگہ اس کے خوش آئند تخیلات کی حسین عمارت قائم تھی وہاں شکستہ کھنڈروں کے نشان بھی اب موجود نہیں ہیں۔ یہی حال دنیا کی رعنائیوں اور اس کے پرامید اور خودفریب پرستاروں کا ہے۔ اگر غور کروگے تو عملوم ہوگا کہ دنیا اور دنیاپرست کی کتنی بلیغ تشبیہ ہے۔
(۴) قبول حق کی استعداد اور عدم استعداد کی تمثیل:
’’(کافر و مسلم) دونوں فریقوں کی مثال اندھے اور بہرے اور (اس کے برعکس) دیکھنے والے اور سننے والے کی سی ہے۔ کیا دونوں کا حال برابر ہے؟ کیا تم پھر (بھی) نصیحت قبول نہیں کرتے۔ ‘‘ (ہود:۲۴)
قرآن نے اس آیت میں کفار کا ذکر کرتے ہوئے ان کی صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ سننے سے معذور اور بصارت سے محروم ہیں۔ اور پھر ان کے مقابل مومنین کے اوصاف مثلاً ایمان، عمل صالح، محبت ِ الٰہی اور انابت الی اللہ وغیرہ کو بینائی اور سماعت سے تشبیہ دی گئی۔ پہلے گروہ کو اندھا بہرا اس لئے کہا گیا کہ ان کی پیشانی کی آنکھیں تو دیکھتی ہیں لیکن دلوں کی آنکھیں بے نور ہیں۔ حق کا بے نقاب چہرہ دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح وہ اوپر کے کانوں سے تو سنتے ہیں مگر اندر کے کانوں تک آوازِ حق کا گزر نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی تشبیہ ایسے شخص سے دی ہے جس کی دیکھنے اور سننے کی قوتیں سلب کرلی گئی ہوں۔ دوسرا گروہ مومنین کا ہے جو بیدار مغز ہے، جس کے دل کی آنکھ بھی صحیح سلامت ہے اور کان بھی۔ یہ تمثیلیں بیان کرکے اللہ تعالیٰ ان دنوں کے برابر ہونے کی خودنفی نہیں کرتا بلکہ مخاطبوں کی عقل و فکر سے سوال کرتا ہے کہ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟
(۵) اولیاء مشرکین کی بے بسی کی مثال:
’’ایسے (کافر) لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اوروں (یعنی بتوں ) کو کارساز بنا لیا ہے مکڑی کی داستان جیسی ہے جس نے (اپنے لئے جالے کا) گھر بنایا، اور بیشک سب گھروں سے زیادہ کمزور مکڑی کا گھر ہے، کاش! وہ لوگ (یہ بات) جانتے ہوتے۔ ‘‘ (عنکبوت:۴۱)
یہاں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ مشرکین تو مکڑی کی طرح کمزور و ناتواں ہیں ہی لیکن ان کے اولیاءو شرکاء ان سے بھی زیادہ بے بس اور مجبور ہیں۔ سو ان مشرکین کی ذاتی کمزوری و بے چارگی اور پھر اپنے سے بھی بے بس تر اولیاء سے مدد و قوت حاصل کرنے کی مثال مکڑی اور اس کے گھرکی سی ہے۔ اس مثل کے تحت مشرکین کے انتہائی خسران کا ذکر ہے کہ اگرچہ وہ بے یار و مددگار ہیں لیکن اپنی محرومی اور کمزوری کے نقطۂ کمال پر اس وقت پہنچے جب کہ انہوں نے اپنے سے بھی زیادہ مجبور مخلوق کو اپنا ولی و مددگار بنایا جن سے وہ سوائے ضعف و خسران کے کچھ نہیں پاسکتے۔
(۶) کفار کے اعمال اور ان کی امیدوں کے نتیجہ کی مثال: کفار کے اعمال کا، اور ان امیدوں کا جو انہوں نے اپنے اعمال کے نتیجہ سے وابستہ کررکھی ہیں، کیا حشر ہوگا؟ قرآن ایک تمثیل کے پیرایہ میں اس کی توضیح یوں کرتا ہے:
’’اور کافروں کے اعمال چٹیل میدان میں سراب کی مانند ہیں جس کو پیاسا پانی سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو اسے کچھ (بھی) نہیں پاتا (اسی طرح اس نے آخرت میں ) اللہ کو اپنے پاس پایا مگر اللہ نے اس کا پورا حساب (دنیا میں ہی) چکا دیا تھا، اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے، یا (کافروں کے اعمال) اس گہرے سمندر کی تاریکیوں کی مانند ہیں جسے موج نے ڈھانپا ہوا ہو (پھر) اس کے اوپر ایک اور موج ہو (اور) اس کے اوپر بادل ہوں (یہ تہ در تہ) تاریکیاں ایک دوسرے کے اوپر ہیں، جب (ایسے سمندر میں ڈوبنے والا کوئی شخص) اپنا ہاتھ باہر نکالے تو اسے (کوئی بھی) دیکھ نہ سکے، اور جس کے لئے اللہ ہی نے نورِ (ہدایت) نہیں بنایا تو اس کے لئے (کہیں بھی) نور نہیں ہوتا۔ ‘‘
(نور:۳۹۔ ۴۰)
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں دو مثالیں بیان فرمائی ہیں : ایک دور سے چمکتی ہوئی ریت کی، دوسری تہہ بہ تہہ تاریکیوں کی۔ اس لئے کہ حق و ہدایت سے اعراض کرنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے اوہام و خرافات کی بابت یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ بے بنیاد نہیں ہیں بلکہ کوئی نہ کوئی بنیاد رکھتے ہیں۔ لیکن جب حقیقت بے نقاب ہوتی ہے تو ان کے گمان کی اصلیت آشکارا ہوجاتی ہے اور خیالات و اوہام کا تارپود بکھر جاتا ہے۔
منکرین حق کی دوسری قسم وہ ہے جس کے حالات کی تشبیہ ظلمات ِ بحر سے دی گئی ہے۔ یہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو حق اور رشد و ہدایت کو جان پہچان کر ترک کردیتے ہیں اور باطل ہی کی تاریکیوں کو اپنے لئے پسند کرتے ہیں۔
(۷) کلام باری تعالیٰ سے اور اس میں تدبر کرنے سے اعراض کرنے والوں کی مثال:
’’تو ان (کفّار) کو کیا ہوگیا ہے کہ (پھر بھی) نصیحت سے رُوگردانی کئے ہوئے ہیں، گویا وہ بِدکے ہوئے (وحشی) گدھے ہیں جو شیر سے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘ (مدثر: ۴۹؍تا۵۱)
یہ ایک نہایت عمدہ اور بلیغ تشبیہ ہے۔ قرآن سے بھاگتے ہی وہ لوگ ہیں جو اس کی حقیقت سے بالکل نابلد ہوتے ہیں۔ ان کی ہیئت نفسی ان جنگلی گدھوں کی کیفیت ِ باطنی سے بالکل مشابہ ہوتی ہے جو کسی بات کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے اور جب کسی چیز کی آہٹ پاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ شیر ہی ہوگا لہٰذا سر پرپیر رکھ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ قرآن سے بھاگنے والے بھی اپنی حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی پھاڑ کھانے والی چیز ہے، حالانکہ یہ سرچشمہ ٔ خیر و سعادت اور منبع حیات ہے۔ پھر رازِ زندگی کو پیامِ موت سمجھنے والا گدھا نہ ہوا تو اور کیا ہوا؟
(۸ ) غیبت کی مثال: ’’اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں ) اﷲ سے ڈرو بیشک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ (الحجرات:۱۲)
کسی مسلمان کے پردۂ ناموس کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی تشبیہ اس کے گوشت کو پارہ پارہ کرنے سے دینا قیاس تمثیلی کی کیسی بے نظیر مثال ہے۔ چونکہ غیبت کرنے والا اپنے مسلمان بھائی کی عزت پر اس وقت حملہ کرتا ہے جب وہ آنکھوں کے سامنے نہیں ہوتا اس لئے اس کا حال بالکل اس شخص کا ہے جو کسی روح کے غائب ہوجانے یعنی اس کے مرجانے کے بعد اس کے جسم سے گوشت نوچتا ہو۔
گہری نظر سے اس تشبیہ کے موقع و محل کے محاسن پر غور کریں اور یہ بھی دیکھیں کہ انداز بیان کیسا بلیغ اور موثر ہے۔ بھائی کا گوشت نوچ نوچ کر کھانا طبعاً ہر شخص کو گھناؤنا معلوم ہوتا ہے اور تمام مخاطبین کے اندر اس فطری احساس کراہیت کا موجود ہونا یقینی ہے۔ لہٰذا پہلے تو خدا نے اس احساس کے وجود کی خود خبردی پھر آیت کے آخر میں تمام مخاطبین کو اس وصف خاص سے متصف قرار دیا نیز اس سے قبل آیت کے شرو ع میں استفہام انکاری کے ذریعے اس حقیقت کی موجود توثیق کردی۔ اس طرح ایجابی اور سلبی دونوں پہلوؤں سے اس فطری احساس کو دماغ میں مستحضر کرنے کے بعد ان پر اس امر کو واضح کیا کہ جب یہ شے تمہاری طبیعت کو گھناؤنی معلوم ہوتی ہے تو پھر کس طرح وہ شے تمہیں مرغوب خاطر ہوسکتی ہے جو اسی کے مشابہ ہے؟ گویا اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ایک ناپسندیدہ شے سے اُس شے کے خلاف حجت قائم کی جو انہیں مرغوب ہے۔ پھر شے مرغوب کو اس شے نامرغوب کے ساتھ تشبیہ دی جس سے انہیں کامل نفرت اور نہ کم ہونے والی کراہیت ہے۔ پس عقل، فطرت اور حکمت عام کا تقاضا ہے کہ وہ اس شے سے بھی ویسی ہی نفرت اور کراہیت رکھیں جیسی اُس کی نظیر اور مماثل سے رکھتے ہیں۔
(۹) دنیا پرست کا قلب، حق کو حق جان لینے کے بعد بھی کس طرح اس کی پیروی سے بھاگتا ہے اس کی تمثیل:
’’اور آپ انہیں اس شخص کا قصہ (بھی) سنا دیں جسے ہم نے اپنی نشانیاں دیں پھر وہ ان (کے علم و نصیحت) سے نکل گیا اور شیطان اس کے پیچھے لگ گیا تو وہ گمراہوں میں سے ہوگیا، اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان (آیتوں کے علم و عمل) کے ذریعے بلند فرما دیتے لیکن وہ (خود) زمینی دنیا کی (پستی کی) طرف راغب ہوگیا اور اپنی خواہش کا پیرو بن گیا، تو (اب) اس کی مثال اس کتے جیسی ہے کہ اگر تو اس پر سختی کرے تو وہ زبان نکال دے یا تو اسے چھوڑ دے (تب بھی) زبان نکالے رہے۔ یہ ایسے لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، سو آپ یہ واقعات (لوگوں سے) بیان کریں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘ (الاعراف : ۱۷۵۔۱۷۶)
یہاں اللہ تعالیٰ نے علم ہدایت رکھنے والے دنیاپرست کی مثال کتے سے دی ہے۔ دونوں کی کیفیات کا تجزیہ کرکے دیکھو کہ دونوں کی فطرت میں کس قدر یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو اپنا ہدایت نامہ (کتاب) دیتا ہے، اسے بخشش سے نوازتا ہے لیکن وہ شکر بجالا کر اس پر عمل کرنے کے بجائے اسے پس پشت ڈال دیتا ہے اور عمل کا ہر قدم خواہشِ نفس کی پیروی میں اٹھاتا ہے یعنی خدا کی ناراضگی کو اس کی رضا پر، مخلوق کو خالق پر اور چند روزہ دنیائے دنی کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے۔ کتے کی جبلت میں اس کے علاوہ اور کیا چیز ہے؟ اپنے پیٹ کے سوا دنیا کی کسی چیز سے اسے سروکار نہیں۔ چلتے پھرتے اس کی ناک بہرحال زمین سونگھنے میں لگی رہتی ہے کہ شاید کہیں سے بوئے طعام آجائے اور اسے اپنی آتش معدہ کی تسکین کا موقع مل جائے۔ جب اسے پتھر سے مارا جاتا ہے تب بھی اس کی یہ توقع دور نہیں ہوتی کہ شاید یہ پتھر کے بجائے نوالہ ہو۔
جو شخص کتاب الٰہی سے واقف ہوجانے اور اس کی صداقت کو جان لینے کے بعد عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کی حالت کتے سے کس قدر مشبہ ہے۔ اپنے علم اور اقرار کے خلاف عمل پر جو چیز اسے مجبور کرتی ہے وہ اس کی حد سے بڑھی ہوئی نفس پرستی کے سوا اور کیا ہے؟
(۱۰) کتاب الٰہی پر عمل چھوڑ دینے والوں کی مثال
’’اُن لوگوں کا حال جن پر تورات (کے احکام و تعلیمات) کا بوجھ ڈالا گیا پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا (یعنی اس میں اِس رسولؐ کا ذکر موجود تھا مگر وہ اِن پر ایمان نہ لائے) گدھے کی مِثل ہے جو پیٹھ پر بڑی بڑی کتابیں لادے ہوئے ہو، اُن لوگوں کی مثال کیا ہی بُری ہے جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ہے، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘ (جمعہ:۵)
یہاں ان بدبختوں کی مثال بیان کی گئی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب دی تاکہ وہ اس پر ایمان لائیں اور اس میں غور و تدبر کریں ، اس کے فرمان کے مطابق عمل کریں، لیکن انہوں نے اس عطیہ ٔ الٰہی کے ساتھ اعتناء نہ کیا، اس کی تعلیمات کی عملاً مخالفت کی اور اس کی آیات کو طوطے کی طرح پڑھ لینے کے سوا ان سے کوئی تعلق نہ رکھا۔ وہ جب کتاب ِ الٰہی کے الفاظ زبان سے دہراتے تو ان کی تلاوت بس حلق سے اوپر ہی اوپر رہتی، دل پر ایسا قفل چڑھا رہتا کہ کتاب کی ہدایت کا کوئی اثر اندر تک نہ پہنچنے پاتا۔ اس طرح فہم و تدبر اور عمل و اتباع کے بغیر محض کتاب کے الفاظ دہرانے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اس گدھے سے تشبیہ دی ہے جس کی پشت پر کتابوں کا انبار لدا ہوا ہوتا ہے اور اسے مطلق علم نہیں ہوتا کہ اس میں کیا ہے۔ اس کا واسطہ ان کتابوں سے بس اتنا ہی ہے کہ وہ انہیں لادے پھر رہا ہے۔
یہ تمثیل اگرچہ یہود کی بیان کی گئی ہے لیکن معنوی حیثیت سے یہ ان لوگوں پر بھی چسپاں ہوتی ہے جنہیں قرآن دیا گیا ہے مگر نہ وہ اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ اس کے مطابق عمل کرتے ہیں ، نہ اس کے حقوق ادا کرتے ہیں اور نہ اس کو قانون کی حیثیت سے مانتے ہیں۔ ان کا اس کے ساتھ کمال اعتناء صرف اس قدر ہے کہ حریر و دیبا کے خوشنما جزدانوں میں اسے لپیٹ کر طاقچوں پر رکھ دیا جائے اور بس تبرک کے لئے اس کی تلاوت کرلی جائے۔
(۱۱)انفاق فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل الطاغوت کی مثال:
’’جو لوگ اﷲ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں )، اور اﷲ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘ (البقرہ:۲۶۱)
’’اے ایمان والو! اپنے صدقات (بعد ازاں ) احسان جتا کر اور دُکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اﷲ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے (پھر وہی) سخت اور صاف (پتھر) کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں ) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اﷲ کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتا۔اور جو لوگ اپنے مال اﷲ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے آپ کو (ایمان و اطاعت پر) مضبوط کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی سطح پر ہو اس پر زوردار بارش ہو تو وہ دوگنا پھل لائے، اور اگر اسے زوردار بارش نہ ملے تو (اسے) شبنم (یا ہلکی سی پھوار) بھی کافی ہو، اور اﷲ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے، کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں اس کے لئے اس میں (کھجوروں اور انگوروں کے علاوہ بھی) ہر قسم کے پھل ہوں اور (ایسے وقت میں ) اسے بڑھاپا آپہنچے اور (ابھی) اس کی اولاد بھی ناتواں ہو اور (ایسے وقت میں ) اس باغ پر ایک بگولا آجائے جس میں (نِری) آگ ہو اور وہ باغ جل جائے (تو اس کی محرومی اور پریشانی کا عالم کیا ہو گا)، اسی طرح اﷲ تمہارے لئے نشانیاں واضح طور پر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور کرو۔ ‘‘ (البقرہ:۲۶۴؍ تا ۲۶۶)
یہ ایک مفصل تمثیل ہے جس میں انفاق لوجہ اللہ اور انفاق ریائی دونوں کی حقیقت اور دونوں کے انجام اور ثمرات کی تصویر کھینچی گئی ہے۔ اللہ کے لئے مال قربان کرنے والا یونہی اپنا مال ضائع نہیں کرتا بلکہ درحقیقت کئی گنا اسے بڑھاتا ہے۔ اس بڑھوتری کا انحصار خرچ کرنے والے کے خلوص اور ایمان پر نیز مال کی نافعیت اور حقدار کی حیثیت پر ہے کیونکہ صدقہ کا ثواب دینے والے کی قلبی کیفیت کے لحاظ سے گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ نیت ایک میزان ہے جس پر ہر عمل کا وزن کرکے اس کا بدلہ متعین کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آگے چل کر اُس انفاق کی، جس کا ثواب مذکورہ حد تک پہنچنے والا ہے، یعنی کمال انفاق کی دو صفتیں بیان کی ہیں : ایک تو یہ کہ وہ محض اللہ کے لئے ہو، شہرت پسندی اور ریاکاری کا اس میں شائبہ تک نہ ہو۔ دوسری صفت کا مفہوم یہ ہے کہ صدقہ خیرات دینے والا دل میں کسی قسم کی تنگی نہ محسوس کرے بلکہ کھلے دل سے اور ثبات قلب کے ساتھ دے اور مال کو اپنے ہاتھ سے نکالنے سے پہلے اپنے دل سے نکال دے، یہ ہے اصل معیار۔