Inquilab Logo

ججوں کی تقرری، خالی اسامیاں اور مقدمات

Updated: September 11, 2021, 12:01 PM IST

؍ ۳۱؍ اگست کو سپریم کورٹ میں نو ججوں کی تقرری سے ملک کے عدالتی نظام کو بڑی تقویت ملی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہائی کورٹس اور نچلی عدالتوں میں جو اسامیاں خالی ہیں، حکومت اُن کی جانب بھی توجہ دے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

؍  ۳۱؍ اگست کو سپریم کورٹ میں نو ججوں کی تقرری سے ملک کے عدالتی نظام کو بڑی تقویت ملی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہائی کورٹس اور نچلی عدالتوں میں جو اسامیاں خالی ہیں، حکومت اُن کی جانب بھی توجہ دے۔ کن عدالتوں میں کتنی اسامیاں خالی ہیں یہ جاننے سے پہلے آئیے اُن مقدمات پر ایک نظر ڈالتے چلیں جو مختلف عدالتوں میں زیر التواء ہیں۔ مگر اس سے بھی پہلے ہمیں کہنے دیجئے کہ جیسے جیسے سماج میں انتشار بڑھ رہا ہے، مادیت کی جانب رجحان میں اضافہ ہورہا ہے، سائبر کرائم، جرائم کی نئی شکل میں نیا مسئلہ پیدا کررہے ہیں، دھوکہ دہی اور تشدد کے علاوہ دیگر سماجی خرابیوں میں اضافہ ہورہا ہے، ویسے ویسے مقدمات کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ اپریل ۲۱ء میں نچلی عدالتوں، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت یا داخل شدہ مقدمات کی مجموعی تعداد ہوش رُبا تھی۔ ۴ء۴؍ کروڑ۔ یہ تعداد کچھ کم ہوتی اگر وبائی حالات میں عدالتوں کا کام کاج موقوف نہ ہوتا۔ بعد میں آن لائن سماعت ضرور شروع کی گئی مگر یہ نیا طریق کار تھا اس لئے رفتار نہیں پکڑ سکتا تھا۔ اس کے باوجود عدالتوں نے بہت ضروری اور ہنگامی نوعیت کے کیسیز پر خصوصی توجہ دی جو قابل ستائش ہے۔ 
 اکثر لوگ جو مقدمات کی تعداد میںافسوسناک اضافے سے بحث کرتے ہیں، سماجی اصلاح کی ضرورت پر گفتگو نہیں کرتے۔ لاء اینڈ آرڈر کے مسائل دن بہ دن نہ بڑھیں، سماج میں قانون کے خوف اور قانون کی پاسداری کا رجحان پیدا ہو تو اس سے سماج میں امن و سکون بھی پروان چڑھے گا اور کم سے کم معاملات درج ہوں گے اور مقدمات کی تعداد بھی گھٹے گی۔ ہمارے ہاں، سماج کی اصلاح پر بات ہی نہیں ہوتی، اکثر معاملات میں شہریوں کو غلطی پر اُکسایا جاتا ہے تاکہ وہ غلطی کریں، پھنسیں اور اُس کے خلاف چارہ جوئی ہو جبکہ غلطی کے خلاف بیداری لائی جائے اور عوام کو قانون کی پاسداری کی بار بار تلقین ہو تو محکمۂ پولیس کا کام بڑھے گا نہ ہی معاملات درج ہوں گے اور مقدمات کا انبار ہو گا۔ 
 عدالتوں میں بڑھتے مقدمات کی دو اہم وجوہات وہ ہیں جن کا تعلق عدالتوں کے اپنے مسائل سے ہے۔ ایک تو ججوں کی تعداد کا ناکافی ہونا۔ ۱۵؍ اپریل ۲۰۲۱ء کو ٹائمس آف انڈیا میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق ملک کے ۲۵؍ ہائی کورٹس میں ۴۰۰؍ ججوں اور نچلی عدالتوں میں ۵؍ ہزار ججوں کی اسامیاں خالی تھیں۔ جب تک ججوں کی تقرری کو حکومت اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کرے گی، مقدمات اسی طرح فیصلے کو ترستے رہیں گے۔ اب یہی دیکھئے کہ جنوری ۲۱ء تک ۳۰؍ سال پرانے کیسیز کی تعداد ایک لاکھ پانچ ہزار پانچ سو ساٹھ ہوچکی تھی۔ یہ عدالتوں کا محض انتظامی مسئلہ نہیں، فراہمیٔ انصاف کا بھی مسئلہ ہے۔ جب تک مقدمہ فیصل نہیں ہوجاتا تب بھی انصاف کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والا،  انصاف کے بغیر زندگی گزارتا ہے۔ دوسرا مسئلہ وکلاء کا ہے جو متعدد مرتبہ سماعت کے لئے حاضر نہیں رہتے یا سابقہ سماعت میں عدالت نے جو ہدایتیں دی تھیں اُن پر عمل کرکے کمرۂ عدالت میں نہیں پہنچتے۔ اس کی وجہ سے بھی التوا ہوتا ہے۔
 یہ سب تو ہوہی رہا تھا کہ اب ہجومی تشدد، نفرت و اشتعال انگیز بیانات اور سیاسی رقابت و مسابقت کے درمیان قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھنے کے واقعات سے بھی عدالتوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ اس کیلئے سیاسی ماحول کو بدلنے اور اس میں پائی جانے والی ہیجان انگیز رسہ کشی کو روکنے کی بھی ضرورت ہے۔ کاش یہ ہو! n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK