Inquilab Logo

صحافیوں کی گرفتاری، الزام اور امکان

Updated: October 13, 2023, 1:16 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

بیرون ملک کسی کی مدد لے کر یا کسی بیرونی طاقت کی ایما پر کچھ لکھنا یا کسی بیرونی طاقت کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنا تو ملک کے مفاد سے غداری کرنا ہے۔ ایسا کرنے والوں کی حمایت نہیں کی جاسکتی بشرطیکہ الزام عائد کرنے میں بے ضابطگی نہ ہوئی ہو اور عدالت میں وہ الزام ثابت ہو جائے۔

Protest against the arrest of journalists. Photo: INN
صحافیوں کی گرفتاری پر احتجاج ۔ تصویر:آئی این این

کئی معروف صحافیوں  کی گرفتاری کے خلاف احتجاج بھی ہو رہا ہے اور عدالت و انتظامیہ سے بھی رجوع کیا گیا ہے اس لئے مزید کچھ کہنا جائز نہیں  ہے البتہ یہ پوچھنا کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں  کہا جاسکتا کہ جن صحافیوں  کو گرفتار کیا گیا ہے ان پر یہ الزام ہے کہ انہوں  نے چین کی حمایت میں  تشہیر کرنے کے مقصد سے امریکی کروڑ پتی نیول رائے سنگھم سے فنڈ وصول کیا تھا۔ صحافیوں  نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے اور اب یہ فیصلہ عدالت کرے گی کہ الزامات صحیح ہیں  یا غلط؟ لیکن عدالت نے گرفتار کئے گئے صحافیوں  کو ایف آئی آر کی نقول فراہم کرنے کی ہدایت دے کر واضح کر دیا ہے کہ گرفتاری میں  عجلت یا بے ضابطگی ہوئی تھی۔ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جو ان ہی کو راس آتا ہے جو ضمیر کی آواز سنتے اور حقائق و دلائل کی بنیاد پر کوئی بات کہتے یا موقف اختیار کرتے ہیں ۔ کسی کو خوش کرنے یا کسی سے انتقام لینے کیلئے جو تحریریں  لکھی اور شائع کی جاتی ہیں  وہ صحافت کے تقدس کو داغدار کرتی ہیں ۔ ایمانداری تو یہ ہے کہ درون ملک بھی کسی کی تشہیر کے لئے لکھی گئی تحریر کو صحافت میں  نہ شمار کیا جائے، بیرون ملک کسی کی مدد لے کر یا کسی بیرونی طاقت کی ایما پر کچھ لکھنا یا کسی بیرونی طاقت کے حق میں  رائے عامہ کو ہموار کرنا تو ملک کے مفاد سے غداری کرنا ہے۔ ایسا کرنے والوں  کی حمایت نہیں  کی جاسکتی بشرطیکہ الزام عائد کرنے میں  بے ضابطگی نہ ہوئی ہو اور عدالت میں  وہ الزام ثابت ہو جائے۔ پھر یہ بات بھی لوگوں  کے علم میں  ہے کہ ویدک جی پڑوسی ملک کے ایک ایسے شخص سے ملے تھے جس کا نام ہندوستان پر مسلح حملہ کرنے والوں  میں  شامل ہے۔ ان کے خلاف تو ایف آئی آر ہوئی نہ ان کی گرفتاری عمل میں  آئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی سالمیت سے کھیلنے والوں  کو دیکھنے کے بھی دو پیمانے ہیں ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کا یہ دعویٰ ذہن میں  ہو کہ آئندہ دو سال میں  بائیں  بازو کی انتہا پسندی کا صفایا ہو جائے گا تو مطلع اور زیادہ صاف ہوجاتا ہے۔ اسی دوران (۵؍ اکتوبر) وزیر داخلہ نے یہ بھی بیان دیا ہے کہ ملک میں  دہشت گردی کو پورے طور پر ختم کرنے کے لئے اس کے پورے ایکو سسٹم کو ختم کرنا ضروری ہے۔ انہوں  نے ’ماڈل اینٹی ٹیررازم اسٹرکچر‘ بنانے پر بھی زور دیا ہے تاکہ مستقبل میں  کوئی دہشت گرد تنظیم نہ کھڑی ہوسکے۔ یہ تو صحیح بھی ہے۔ ایسا ہونا ہی چاہئے مگر کیا بدھوڑی کی پارلیمنٹ میں  بدزبانی کو اور عام زندگی میں  ایک طبقے کی دوسرے طبقے سے بدسلوکی کو ان عوامل میں  شامل نہیں  کیا جانا چاہئے جو دہشت گردی کو بڑھاوا دیتے ہیں ؟
 دہشت گردی کی حقیقی تعریف یہ ہے کہ وہ لوگ بھی دہشت گرد ہیں  جو کسی بے گناہ شخص کو کسی مذہب/ کسی خطہ/ کسی تنظیم سے وابستگی کی بنیاد پر دہشت گرد کہتے ہیں  اس وقت یہاں  بہت کثرت سے کسی شخص یا طبقے کو دہشت گرد قرار دینےکے واقعات رونما ہو رہے ہیں ، ایسے لوگوں  میں  بھی تو دوسروں  کی ایما پر کام کرنے والے لوگ شامل ہوسکتے ہیں ؟ صحافیوں  سے بھی شکایت کی جاسکتی ہے کہ بیشتر وہ مصلحت و مفاد کے تحت کام کرتے ہیں ۔
 راقم الحروف سے ایک صاحب کو ازلی بیر تھا اور انہیں  ایک پورے ٹولے کی حمایت اور پشت پناہی بھی حاصل تھی اس لئے وہ جھوٹے خطوط لکھنے اور مختلف لوگوں  کو اکسانے کا کام کیا کرتے تھے۔ یہاں  تک کہ انہوں  نے مافیا کی بھی مدد لی اور جب ہر طرح سے ناکام ہو گئے تو اپنی بیٹی کے ذریعہ پولیس میں  رپورٹ لکھوانے کی کوشش کی۔ پولیس کو اندازہ ہوگیا کہ یہ جھوٹی شکایت ہے اور اس نے شکایت کرنے والی کو شکایت واپس لینے کی تحریک دی مگر کسی اخبار میں  دو سطر کی بھی ایسی کوئی خبر نہیں  شائع ہوئی جس سے معلوم ہو کہ یہ حرکت کسی ٹولے کی ایما پر کی گئی تھی اور اس ٹولے میں  کیسے کیسے معصوم چہرے والے سازشی شامل تھے۔
 صحافت ایسا پیشہ نہیں  ہے جس سے کوئی بھی وابستہ ہو جائے۔ اس کے لئے صلاحیت کے ساتھ غیرت بھی ضروری ہے۔ غیرت نہ ہو یا غیرت و صلاحیت دونوں  نہ ہو اور کوئی شخص صحافت سے وابستہ ہو جائے تو وہ اپنے وقار کو بھی مجروح کرتا ہے اور صحافت کے وقار کو بھی۔ اسے صحافت کی بدقسمتی ہی کہیں  گے کہ چند بہت باصلاحیت اور باغیرت لوگوں  کے ساتھ اس سے ایسے لوگ بھی وابستہ ہوتے رہے ہیں  جن کے پاس صحافی ہونے کا کارڈ ہونے کے سوا کچھ نہیں  تھا۔ اُردو میں  تو ایسے صحافیوں  کی کثیر تعداد ہے جو تاعمر صحافی کہلائے مگر ان کے نامۂ اعمال میں  چار سطر بھی ایسی نہیں  ہے جو ان کے صحافی ہونے کا ثبوت فراہم کرسکے۔ راقم الحروف کا قیاس یہ ہے کہ غیر ممالک یا بڑی طاقتوں  کے آلۂ کار وہی لوگ بنتے ہیں  جو وصولی کے دھندے پر پردہ پڑا رہنے دینے کے لئے صحافت کا پیشہ اختیار کرتے ہیں ۔ غیر ملکی ایجنٹ ہونے یا غیر ملک کی مدد حاصل کرنے کے الزامات ہر دور میں  صحافیوں  کے علاوہ سیاستدانوں  پر بھی عائد ہوتے رہے ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ پیلو مودی ایسی پٹی باندھ کر پارلیمنٹ میں  پہنچے تھے جس پر لکھا ہوا تھا: مَیں  ’سی آئی اے‘ ایجنٹ ہوں ۔
 یہ تو صحیح ہے کہ بڑی طاقتیں  ذرائع ابلاغ کو اپنے قابو میں  کرنے کا جال پھیلائے ہوئے ہیں ، جنہیں  اس الزام میں  گرفتار کیا گیا ہے وہ مجرم ہیں  یا نہیں  یہ فیصلہ عدالت ہی سنائے گی۔ امریکی وزارت خارجہ کی ایک رپورٹ میں  دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین پاکستانی ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ چین اپنے خلاف شائع ہونے والی خبروں  کی تردید کیلئے روس سے اشتراک کے علاوہ بھی کئی طریقے اختیار کر رہا ہے۔ اس لئے چین کے بچھائے ہوئے جال میں  ہمارے کچھ صحافیوں  کے پھنس جانے کے امکان سے انکار ممکن ہے نہ امریکہ کے شوشہ چھوڑنے کے امکان سے۔ کسی بھی ملک کے خلاف شوشہ چھوڑ کر اس ملک میں  انتشار پیدا کرنا امریکہ کا پرانا حربہ ہے اس پہلو پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ اگر ثابت ہو جاتا ہے کہ چین سے بعض صحافیوں  نے فنڈ وصول کیا ہے تب یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ دوسرے کون سے ممالک ہیں  جو صحافیوں  کا ضمیر خریدنے کا انتظام کرتے رہتے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK