Inquilab Logo

سماجی کارکنوں کی گرفتاریو ں کے ذریعے کئی پیغام دینا مقصود ہے

Updated: September 20, 2020, 9:49 AM IST | Mubasshir Akbar

عمر خالد کی حال ہی میں گرفتاری اور اس سے قبل نتاشا نروال ، دیوانگنا کلیتا ، صفورہ زرگر ،شرجیل امام اور دیگر نوجوانوں کی گرفتاریاں محض دہلی فسادات کے نام پر نہیں ہوئی ہیں بلکہ اس سے یہ پیغام دینامقصود ہے کہ جو بھی بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کے خلاف میدان میں اترے گا اس کا یہی حشر کیا جائے گا

Umar Khalid - Pic : INN
سیتارام یچوری اور عمر خالد کو دہلی فساد معاملے میں ماخوذ کرنے پر ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے

دہلی فسادات کے نام پر گرفتاریوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی کے تحت دہلی پولیس نے سماجی کارکن اور سابق طالب علم لیڈر عمر خالد کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے ان کی گرفتاری کے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے تاہم خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق عمر خالد کو دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہونے والے `یواے پی اے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ نامی تنظیم نے ان کی گرفتاری پر ایک بیان میں کہا ہے کہ دہلی پولیس فسادات کی انکوائری کی آڑ میں حکومت مخالف مظاہروں کو جرم کے زمرے میں شامل کر رہی ہےلیکن خوفزدہ کرنے کی اس کی تمام کوششوں کے باوجود سی اے اے اور یو اے پی اے کے خلاف  جنگ جاری رہے گی۔عمر خالد کے والد اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے لیڈر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے اس سلسلے میں بتایا کہ ان کے بیٹے کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے رات گیارہ بجے گرفتار کیا۔ اس سے قبل دہلی پولیس نے عمر خالد کو پوچھ گچھ کے  لئے دفتر میں طلب کیا تھا اور تقریباً ۱۱؍ گھنٹے تک پوچھ گچھ کرتی رہی لیکن اس وقت تو انہوں نے اسے جانے دیا اور پھر گھر سے گرفتار کرکے لے گئی ۔ یاد رہے کہ عمر خالد دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیں۔ انہیں بی جے پی مخالف سمجھا جاتا ہے اور ۲۰۱۶ءمیں  انہیں  یونیورسٹی میں مبینہ طور پر `ملک مخالف‘ نعرے لگانے کے الزام میں بھی گرفتار کیا گیا تھا تاہم یہ الزام ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے اور انہیں بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ عمر خالد سے قبل  دہلی کے شاہین باغ اور دیگر علاقوں میں مظاہرے کررہے سماجی کارکنان کو بھی اسی طرح سے گرفتار کیا جاچکا ہے۔یہ سبھی وہ لوگ ہیں جو حکومت کے سی اے اے جیسے سیاہ قانون کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ ان میں نتاشا نروال ، دیوانگنا کلیتا ، صفورہ زرگر ،شرجیل امام  اور دیگر نوجوان شامل ہیں۔ ان سبھی کی گرفتاری محض دہلی فسادات کے نام پر نہیں ہوئی ہے بلکہ اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ جو بھی بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کے خلاف میدان میں اترے گا اس کا یہی حشر کیا جائے گا۔ 
 یاد رہے کہ دہلی  فسادات کا  بنیادی مقصد صرف دہلی ہی نہیں بلکہ دہلی کو مثال بنا کر پورے ملک کے مسلمانوں کو سبق سکھانا تھا اور وہ سبق اس بات کے لئے سکھانا تھا کہ آخر اس ملک کے مسلمانوں کی یہ جرأت کیسے ہوئی کہ وہ شاہین باغ جیسا احتجاج کریں۔در اصل جب سے ملک کے طول و عرض میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی مخالف تحریک شروع ہوئی تھی تب سے بی جے پی ہی نہیں تمام سنگھ پریوار بے چین تھا کیونکہ شاہین باغ احتجاج نے  پورے ملک میں ایک نئی سیاست کا آغاز کر دیا ہے جو بی جے پی کی مسلم منافرت پر مبنی سیاست سے بالکل مختلف ہے۔ شاہین باغ نے اس ملک کے عام ہندو، سکھ، عیسائی ہی نہیں ہر مذہب کے لوگوں کو مسلمانوں کی حمایت میں شانہ بہ شانہ کھڑا کر دیا ہے۔ اب اگر ہندو مسلمان ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو کر مودی حکومت کی مخالفت کرنے لگیں تو پھر بی جے پی کی مسلم منافرت کی سیاست کی جگہ کہاں بچے گی۔ یہی وجہ رہی کہ دہلی میں فسادات کروائے گئے اور پھر ان کے الزام میں انہی افراد کو گرفتار کیا گیا جو حکومت کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔  دہلی فساد کیلئے سازش رچنے ، فساد کرانے اور اس میں ملوث ہونے کی بنیاد پر جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کی طویل   فہرست ہے۔  حالانکہ اب تک مکمل ڈیٹا سامنے نہیں آسکاہے نہ بتایا جارہا ہے لیکن جن لوگوں کا نام اب تک سامنے آیا ہے   یہ سب وہ چہرے ہیں جو  احتجاج میں آگے تھے ۔ دہلی پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں کئی معروف اور سماجی شخصیات کا بھی نام شامل کردیا ہے جنہوں نے  احتجاج کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی اور ان کا ساتھ دیا ۔ سی پی ایم کے لیڈر سیتارام یچوری، سپریم کورٹ کے وکیل محمود پراچہ، سوراج ابھیان کے سربراہ یوگیندر یادو، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند اورماہر اقتصادیات جیتی گھوش وغیرہ کا نام بھی شامل ہے ۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ شاہین باغ کی تحریک جو بی جے پی کی منافرت والی پالیسی کے خلاف ہے ، اس کی سیاست کو بھی کمزور کرتی ہے بلکہ سنگھ پریوار کے ہندو راشٹر والے فلسفہ کے لئے ہی خطرہ بن گئی تھی ۔ اس لئے ضروری تھا کہ شاہین باغ کو بدنام کیا جائے  ،وہاں کی سیاست اورتحریک پر ایسے الزامات عائد کردئیے جائیں کہ پھرکوئی یہ تحریک لے کر کھڑا نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک میں کورونا کے معاملات شروع ہوئے تو ابتدا  میں اس پردھیان نہیں دیا گیا لیکن پھر اسے ہی ہتھیار بنالیا گیا۔ حکومت نے وقت سے قبل ہی لاک ڈائون   محض اس لئے نافذ کیا تھا تاکہ جہاں جہاں شاہین باغ کی تحریکیں جاری ہیں وہ لاک ڈائون کے نام پر ختم کردی جائیں۔ اس کے ساتھ ہی سماجی کارکنوں کی گرفتاری کا سلسلہ بھی شروع کردیا جائے۔ دونوں ہی کام ایک ساتھ جاری ہیں۔
  لیکن لاک ڈائون کی وجہ سے ملک کا کیا حشر ہوا ہے یہ جگ ظاہر ہے جبکہ سماجی کارکنوں کی گرفتاریوں پر پوری دنیا میں جو پیغام جارہا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہمیں اس ملک  کے برسراقتدار طبقے کی ذہنیت پر افسوس ہو تا ہے کہ وہ محض ایک طبقہ کو یا فرقہ کو نچلا بٹھانے کے لئے ہر قدم اٹھارہا ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ اس کا ہر قدم الٹا پڑجاتا ہے اور پھرپورے ملک کے لینے کے دینے پڑجاتے ہیں۔ اس کی مثال نوٹ بندی سے لی جاسکتی ہے۔ کالا دھن واپس لانے سے زیادہ یہ قدم مسلمانوں کی معیشت جو بڑی حد تک کیش لین دین پر منحصر ہے ، توڑنے کے لئے اٹھایا گیا تھا ۔ ہر چند کہ یہ پیغام نہیں دیا گیا لیکن بین السطور سمجھنے کی صلاحیت جن میں ہے وہ سمجھ گئے تھے کہ کیا اور کیوں کیا جارہا ہے لیکن اب ملک  اسی نوٹ بندی کے اثرات کو بھگت رہا ہے۔ اس نوٹ بندی نے پہلے معیشت کو ناقابل تلاشی نقصان پہنچایااور اسے اتنا سست کردیا کہ پوری دنیا کی معاشی ایجنسیاں ہندوستان کی ترقی کی رفتار کو کم بتانے لگیں اور پھر سرمایہ کار یہاں سے اپنی دولت سمیٹ کر واپس جانے لگے۔  اب  لاک ڈائون نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ لاک ڈائون بھی محض بیماری سے بچنے کے لئے نہیں  لگایا گیا تھا کیوں کہ اگر واقعی ایسا ہو تا تو لاک ڈائون اِس ماہ یا گزشتہ ماہ نافذکیا جاتا کیوں کہ کورونا کے واقعات کی رفتار اب ہزاروں میں پہنچ رہی ہے ، اُس وقت نہیں جب ملک میں کورونا کے معاملات محض ۲؍ سو یا ۳۰۰؍ رہے ہوں گے ۔ مارچ میں لاک ڈائون کا اعلان صرف اسی لئے کیا گیا تھا تاکہ شاہین باغوں کی تحریک جو اس وقت عروج پر تھی اور اسے عالمی میڈیا کوریج بھی مل رہا تھا ،کو ختم کیا جاسکے ۔ اس کے لئے عالمی وباء سے اچھا کوئی بہانہ نہیں ہو سکتا تھا۔
  واضح رہے کہ دہلی پولیس  لاک ڈاؤن کو موقع کی طرح استعمال کر رہی ہے تاکہ جمہوری آوازوں کو دبایا جاسکےاور بی جے پی کی سیاسی روٹیاں سینکی جاسکیں۔ اس وقت بہار کے انتخابات سر پر ہیں۔ وہاں بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹی نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے جس کے بل پر وہ عوام سے ووٹ مانگ سکیں۔ اسی لئے ایسے موضوعات تلاش کئے جارہے ہیں جن کی مدد سے عوام کو فرقہ وارانہ سطح پرتقسیم کیا جاسکے لیکن کیا کیجئے کورونا کی بڑھتی وباء کا کہ اس نے فرقہ وارانہ سیاست کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ عالم یہ ہے کہ ہر ریاست میں معاملات تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں اور بہار بھی ان سے اچھوتا نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے اب پورا دھیان دہلی فسادات کے معاملوں میں گرفتاریوں پر دیا جارہا ہے۔ 
 یاد رہےکہ امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی  نے بھی  ملک  میں سماجی کارکنوں کی گرفتاریوں پر تنقید کی  ہے۔ یہ بین الاقوامی سطح کے انسانی حقوق کے اداروں کے ذریعہ عار دلانے کی مسلسل کوششوں کی ایک اضافی کڑی ہے، اس سے قبل اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے حقوقِ انسانی اور یورپین پارلیمنٹ کے  داخلی تحقیقی مرکز کے ذریعے بھی  ملک کی  اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی پر تشویش کا مسلسل اظہار کیا گیا ہے۔رواں برس کے دوسرے ماہ میں ہی امریکی کمیشن نے ہندوستان کو  ان ممالک کی فہرست میں شامل کردیا ہے جہاں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور اب کمیشن کی جانب سے ایک اور رپورٹ جاری کی جاتی ہے، جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ ایسے موقع پر جب انسانی بنیادوں پر قیدیوں کی رہائی کی کوشش ہونی چاہئے سماجی کارکنوں کو مسلسل گرفتار کیا جارہا ہے اور انہیں ضمانت بھی حاصل نہیںکرنے دی جارہی ہے۔ دہلی فسادات کی آڑ میں جس طرح سے گرفتاریاں انجام دی جارہی ہیں ہمیں محسوس ہو تا ہے کہ یہ حکومت کی مزید سبکی کا سبب بنیں گی کیوں کہ جب عدالتوں میں یہ معاملات جائیں گے تو پہلا سوال تو یہی ہو گا کہ جن لوگوں  نے فساد بھڑکائے انہیں اب تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا ۔ اس طرح کے سوالا ت کا جواب شاید ہی دہلی پولیس کے پاس ہو گا ۔ وہ تو صرف اپنے آقائوں کا حکم بجالانے میں مصروف ہے لیکن عدالتوں میں اس کے بنائے گئے مقدمات کتنے وقت ٹھہر سکیں گے یہ شاید اسے بھی معلوم ہے۔  اس کے باوجود دہلی پولیس کے پاس  اپنے سیاسی آقائوں کا حکم بجالانےکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK