Inquilab Logo

بیت اللہ: مرکز ِ ارضی، تجلی گاہِ ربانی

Updated: April 26, 2024, 3:33 PM IST | Syed Manazar Ahsan Geelani | Mumbai

کثرتوں کا ارتکازی مجموعہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہاتھی کا کوہ پیکر جثہ ہو یا برگد کے پھلوں کا خشخاشی تخم، ہر ایک میں ان کے بکھرے ہوئے اجزا کی پیوستگی اور باہمی ارتباط کو قائم رکھنے کے لئے بھی اور اپنے اپنے نوعی کمالات کو نشوونما اور ارتقاء کے آخری مقام تک پہنچانے کیلئے بھی ایک مرکزی نقطہ پایا جاتا ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

کثرتوں کا ارتکازی مجموعہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہاتھی کا کوہ پیکر جثہ ہو یا برگد کے پھلوں کا خشخاشی تخم، ہر ایک میں ان کے بکھرے ہوئے اجزا کی پیوستگی اور باہمی ارتباط کو قائم رکھنے کے لئے بھی اور اپنے اپنے نوعی کمالات کو نشوونما اور ارتقاء کے آخری مقام تک پہنچانے کیلئے بھی ایک مرکزی نقطہ پایا جاتا ہے۔ اس مرکزی نقطہ کے وجود کو اگر اس سے نکال لیا جائے تو ایک طرف سارے سمٹے ہوئے اجزاء بکھر جائینگے، اور دوسری طرف بیرونی فیوض کو جذب کرکے ارتقاء و نشوونما کے جس عمل کو یہ مرکزی نقطہ جاری رکھے ہوئے تھا وہ عمل بھی رک جائے گا۔ اِس پر یقیناً آپ بھی غور کرتے ہوں گے۔ 
 میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اس کو مثال سے سمجھئے۔ آم کی گٹھلی یا اسی قسم کے پھلوں کے تخم کو آپ نے دیکھا ہو گا۔ آم کا درخت اسی گٹھلی سے برآمد ہوتا ہے۔ پتے، شاخیں، پھول، پھل کا ایک طوفان ہوتا ہے، جو اس گٹھلی کی راہ سے اپنی اپنی شکلوں کے ساتھ باہر نکل نکل کر آم کے درخت کا جز بنتا رہتا ہے لیکن آم کی اسی گٹھلی کو چیریے، اس میں ایک چیز آپ کو نظر آئے گی جسے انکھوا کہتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ گٹھلی سے اس انکھوے کو نکال لینے کے بعد خواہ کتنی ہی اچھی، نرم اور پاکیزہ زمین میں اس کو بویا جائے اور چشموں کے کیسے ہی صاف و شفاف پانی سے اس کی آبیاری کی جائے، بجائے اس کے کہ اس گٹھلی سے پودا نکلے، گٹھلی سڑتی چلی جائے گی یہاں تک کہ بالآخر سڑ سڑ کر اس کے اجزا مٹی میں مل کر اِدھر اُدھر غائب ہو جائیں گے۔ 
  حاصل یہی ہے کہ گٹھلیوں کا یہی مرکزی نقطہ وہ نقطہ ہے کہ دیکھنے میں خواہ کتنا بھی بے حیثیت اور معمولی چیز نظر آتا ہو، لیکن کسی درخت کے شجری نظام اور اس کے سارے آثار و نتائج کا حصول یقیناً اس مرکزی نقطہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس کو نوچ کر گٹھلی سے اگر الگ کر لیا جائے تو سارے فیوض جن سے درخت کا تنہ، اس کی ڈالیاں، شاخیں، پتے، پھول، پھل مستفید ہوتے رہتے ہیں ان کا قصہ ہی ختم ہو جائے گا۔ 

یہ بھی پڑھئے: جبرئیل ؑ ایک انجان شخص کی شکل میں آپؐ کے پاس تشریف لائے اور کچھ سوال پوچھے

الغرض حیوانی و انسانی اجسام میں جو حیثیت قلب کی ہے، اور نباتی حقائق کے لحاظ سے جو اہمیت گٹھلیوں کے اس مرکزی نقطہ کی ہے، دل یہ پوچھتا ہے کہ مٹی کا یہ تودہ، جس کا نام زمین اور دھرتی ہے، جس سے علاوہ عناصر اور معدنی مرکبات کے نباتی، حیوانی، انسانی ہستیوں کی بے پناہ موجیں ابل رہی ہیں، ان ساری پیداواروں کے لئے زمین بھی اپنے اندر کیا کوئی ایسی چیز رکھتی ہے جسے ارضی فیوض و برکات کا مرکزی نقطہ ٹھہرایا جائے؟ کیا اس کا بھی کوئی دل ہے، جس سے مختلف ارضی پیدا واروں کی رگوں میں نشو نما اور ارتقاء و بقا کا خون دوڑ رہا ہے ؟ یا یوں پوچھئے کہ یہ خاکی گٹھلی بھی اپنے اندر کیا کوئی ایسا انکھوا رکھتی ہے کہ اس کے ساتھ ان ساری چیزوں کا قیام وابستہ ہو جو زمین سے پیدا ہو رہی ہیں اور تمام خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے اس خاکی کرے کی پشت پرنمایاں ہو ہو کر جسد ِارضی پر اپنے اقتضائی کمالات کو حاصل کرتی چلی جارہی ہے ؟
 نہ ماننے والوں سے ابھی بحث نہیں، لیکن جنہوں نے مانا ہے کہ:’’اللہ نے عزت (و ادب) والے گھر کعبہ کو لوگوں کے (دینی و دنیوی امور میں ) قیام (امن) کا باعث بنا دیا ہے۔ ‘‘ (المائدہ:۹۷) اسی کی خبر ہے جو زمین کا اور زمین میں جو کچھ ہے سب کا پیدا کرنے والا ہے، بتائیے ان سوالوں کے جواب میں ایک مومن بالقرآن کی نظر ’’کعبہ ‘‘ کے سوا کیا کسی دوسری چیز پر پڑ سکتی ہے؟
سرچشمهٔ فیوض و امن: وہی الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ جس کا تذکرہ کرتے ہوئے جب اسی قرآن میں قیام وبقا سے بھی آگے بڑھ کر: ’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا۔ ‘‘(البقره ۲ : ۱۲۵) کی بھی تصریح کردی گئی ہے۔ مثابہ کی لغوی و اصطلاحی تشریح کرتے ہوئے علامہ راغب اصفهانی اپنے مفردات میں لکھتے ہیں ’’ پینے والوں کے لئے کنویں کے منہ پر جو جگہ ہوتی ہے اس کو مثابہ کہتے ہیں۔ ‘‘ اب سوچئے کہ مثابہ ہونے کی یہی حیثیت جب الکعبہ کو حاصل ہے تو اس کا حاصل اس کے سوا اور کیا ہوا کہ سارے فیوض و برکات جو زمین کے اس کرّے پر تقسیم ہورہے ہیں، ان کے گزرنے کا مرکزی نقطہ یہی الکعبہ ہے۔ اور صرف مثابہ ہی نہیں بلکہ اس آیت کے لفظ امنا سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ امن و امان سارا قدرت نے اسی ’’البيت الحرام‘‘ کے ساتھ وابستہ فرما دیا ہے۔ 
 الغرض یہاں جس کسی کو جہاں کہیں جو کچھ بھی مل رہا ہے اسی الکعبہ کی راہ سے مل رہا ہے۔ یہ قرآن کے نصوصِ صریحہ کا اقتضا ہے۔ گویا یوں سمجھنا چاہئے کہ ساری کائنات کے ساتھ العرش کی جو نسبت قرآن نے بیان کی ہے کہ الرحمٰن اسی العرش کو مرکز بنا کر اپنی رحمتیں دنیا میں تقسیم فرما رہا ہے، یہی نسبت زمین کے خاص کرے کے ساتھ الکعبہ بھی رکھتا ہے۔ حضرت آدمؑ کو خطاب کرکے رب العزت نے جو فرمایا اس سے … کہ اے آدم اتارا ہے میں نے تیرے لئے ایک گھر، تو اس گھر کا اسی طرح طواف کرے گا جیسے ’’العرش‘‘ کے گرد طواف کیا جاتا ہے، اور تو اس گھر کے آگے اسی طرح نماز پڑھے گا جیسے میرے عرش کے سامنے نماز پڑھی جاتی ہے۔ (تاریخ الخمس، ج ۱ ص۸۹)۔ 
 دیگر دوسری روایتوں سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ کرۂ ارض کا ’’قلب‘‘ اور وہ مرکزی نقطہ جس سے تمام برکات و فیوض اس زمین پر بنٹ رہے ہیں، تقسیم ہورہے ہیں، یہی الکعبہ ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: معاشرت، فطرت اور اسلامی تعلیمات

مشهور قرآنی آیت: ’’بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے (مرکز ِ) ہدایت ہے۔ ‘‘ (آل عمران:۹۶) کے بعد تو اس قسم کی روایتوں سے تائید حاصل کرنے کی بھی قطعاً ضرورت باقی نہیں رہتی۔ آخر روایتوں سے ہی تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے کرّے پر جو سب سے پہلا نقطہ متعین کیا گیا یہ وہی حصہ ہے جسے الکعبہ کی دیواریں اس وقت تک گھیرے ہوئے ہیں۔ روایتوں پر تو یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ اس واقعہ کا مشاہدہ کرنے والا اس وقت کون موجود تھا ؟ لیکن جو قرآن کے فراہم کردہ علم، معلومات اور اس کے انکشافات پر یقین کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ خالق کائنات کی دی ہوئی خبریں ہیں، ان کے لئے تو اس شبہ کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ تاریخی شہادت تو اس کی ہے جو اس وقت بھی موجود تھا جب نہ زمین پھیلائی گئی تھی اور نہ آسمانوں کے خیمے تانے گئے تھے اور اس وقت بھی وہ غائب نہ تھا جب النّاس یعنی نسل انسانی کے لئے یہ سب سے پہلا گھر بنایا جا رہا تھا۔ بلکہ اس واقعہ کی خبر دینے والا ہی وہ ہے جس نے حد بندی کے اس عمل سے زمین کے اس خاص حصہ کو امتیاز بخشا ہے۔ 
  اس سے بڑھ کر یقینی خبر اور کس کی ہو سکتی ہے۔ 
 یہی نہیں بلکہ آگے ’’مبارکاً‘‘ کے لفظ کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ برکتوں کا خزینہ اور فیوض کا حقیقی دفینہ بھی زمین کے اسی حصہ کو بنایا گیا۔ یہی وہ قدرتی سرچشمہ ہے جس سے برکتیں اُبل رہی ہیں، اور وہیں سے چھلک چھلک کر ساری دنیا میں تقسیم ہو رہی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK