Inquilab Logo

آسام بدل چکا ہے اور مزید بدل رہا ہے

Updated: March 25, 2023, 10:15 AM IST | Bhargabi Das | Mumbai

باغبر نامی علاقے کے جن لوگوں کو اُجاڑا گیا اُنہیں یہاں زمینیں فروخت کی گئی تھیں، غیر قانونی طور پر ہی سہی، اُنہوں نے اس کی قیمت ادا کی تھی۔ مگر ایسے حالات میں جب ریاست کو بہت کچھ بھولنے پر مجبور کیا جارہا ہو، باغبر کے لوگوں کو گہرا صدمہ جھیلنا پڑ رہا ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

ستائیس دسمبر کو آدھی رات کے وقت مجھے عظیم (نام تبدال کیا گیا ہے) کا فون ملا۔ اُس کی گھبرائی ہوئی آواز پر مَیں چونکا۔ باغبر (آسام) میں فیلڈ ورک کے دنوں کا وہ اچھا ساتھی تھا اور کئی معاملات میں مجھے اطلاعات فراہم کیا کرتا تھا۔اُس کے لہجے میں تشویش بھی محسوس ہوئی۔ اُس نے کہا: ’’بائیدیو، باغبر پہر کے پاس بسے ہوئے خاندانوں کو اُجاڑ دیا گیا ہے۔اب وہ سڑک کے کنارے پناہ لینے پر مجبور ہیں، کچھ کیجئے نا!‘‘ 
 اس سے ایک دن پہلے ضلع انتظامیہ نے اُن ۴۷؍ خاندانوںکو گھروں سے نکال دیا تھا جو ’’باغبر کی ۴۰۰؍ بیگھہ زمین پر ناجائز قبضہ کئے ہوئے تھے۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ یہ زمین ۱۹۹۲ء میں بوڈو فارمرس کو آپریٹیو کو الاٹ کی گئی تھی۔ جن ۴۷؍ خاندانوں کو گھربدر کیا گیا اُن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ اِدھر کچھ عرصہ سے بنگالی مسلمانوں کو اُن کے گھروں سے نکالنے کی مہم خبروں میں تھی۔ حکومت کا یہ اقدام موضوع بحث بھی بنا ہوا تھا۔ مگرفون پر ملنے والی اطلاع سے ایسا لگا جیسے یہ میرا ذاتی نقصان ہے۔
 جون ۲۰۱۹ء میں مَیں اپنی پی ایچ ڈی کیلئے باغبر آیا تھا جہاں دو برس سے زیادہ عرصے تک میرا قیام رہا۔ اس عرصے میں باغبر اور باغبر پہر جیسے علاقے میں مجھے بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ یہاں کی نسلی تاریخ کافی دلچسپ ہے۔ ایک زمانے میں یہ علاقہ اعلیٰ طبقہ کے آسامی ہندوؤں اور بوڈو خاندانوں سے آباد تھا مگراب یہاں کی آبادی کا بیشتر حصہ بنگالی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ندیوں کے رُخ میں تبدیلی اور بعد میں آنے والے زلزلہ نے باغبر پہر اور اس کے آس پاس کے علاقوں کو اُجاڑ دیا تھا۔ اِن خاندانوں کو اپنی زمینیں چھوڑ نی پڑیں۔ سیلاب کی وجہ سے بھی یہی کیفیت پیدا ہوئی۔ بہت سے کلیتا اور بوڈو خاندانوں نے بہتر جانا کہ دیگر علاقوں میں منتقل ہوجائیں۔ بارش، سیلاب، ندی کے رُخ بدلنے اور کٹاؤ کے سبب ہر سال خطرہ کے زیر سایہ زندگی گزارنے کے بجائے محفوظ مقامات پر بودوباش اختیا رکرنے کا اُن کایہ فیصلہ غیر فطری نہیں تھا۔ دیگر جگہوں پر منتقل ہونے والے بہت سے خاندانوں نے اپنی آبائی زمین کو خیرباد کہنے میں تردد نہیں کیا۔ آج ان علاقوں میں مٹھی بھر ہندو خاندان ہیں ورنہ پورے علاقے میں بنگالی مسلمان آباد ہیں۔ پہر اور آس پاس کا علاقے کی گویا یہ شناخت ہے کہ وہاں لٹے پٹے خاندان آباد ہوتے ہیں۔
 باغبر میں رہائش پزیر لوگوں کے پاس سوائے اس کے اور کوئی متبادل نہیں رہتا کہ وہ سرکاری زمین کو غیر قانونی طور پر دلالوں سے خرید لیں۔ یہ خبر میرے لئے حیرت کا باعث نہیں ہے کہ کو آپریٹیو کی زمین خریدنے والوں نے کوآپریٹیو کے کمیٹی ممبروں کو روپے دیئے تاکہ اُنہیں قطعہ ہائے اراضی کا قبضہ مل جائے۔ کو آپریٹیو میں اکثریت اعلیٰ طبقے کے ہندوؤں کی ہے۔ مَیں ان حضرات سے بھی واقف ہوں اور یہاں آکر بس جانے والے بنگالی مسلمانوں سے بھی میرا اچھا تعلق ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ اگر قانونی طور پر قصبوروار ٹھہرانے کی بات آئی تو جنہوں نے غیر قانونی طور پر زمین خریدی اُنہی پر نزلہ گرے گا اور کارروائی اُنہی کے خلاف ہوگی۔ اُن کے خلاف کچھ نہیں ہوگا جنہوں نے غیر قانونی طور پر قطعہ ہائے اراضی فروخت کئے۔ مگر اب اس بحث کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کیونکہ سیاسی بیانیہ مختلف ہوچکا ہے۔ اب سیاست کو یہ زیادہ مناسب لگتا ہے کہ ایک خاص فرقے اور طبقے کو زمین ہتھیانے والا باور کرایا جائے اور اُن کے خلاف ایسا پروپیگنڈہ کیا جائے جو سیاسی طور پر فائدہ مند ہو۔ اس مہم اور پروپیگنڈہ کے دوران یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ جس زمین کی بات ہورہی ہے اس کی کیا حالت تھی، ندیوں کے کیا تیور ہوتے ہیں، سیلاب سے کیا صورت حال پیدا ہوتی ہے اور جو فرقے اور طبقات یہاں رہے اُن میں آپسی رشتے کیسے تھے اور اُن میں کتنا میل جول تھا۔ سب جانتے ہیں کہ کوآپریٹیو کمیٹی ممبروں نے ہی بنگالی مسلم خاندانوں کو یہاں بسنے کی اجازت دی۔ ۱۹۹۵ء سے یہاں یہ موضوع زیر بحث ہے۔ ہندو کمیٹی کے اراکین جانتے تھے کہ ندیوں کے کیا تیور ہوتے ہیں اور کس طرح یہاں بسنے والے خاندانوں کو اُجڑنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ باہر سے آئے اُنہیں زمین پر بسنے دیا گیا اور اس کی قیمت لی گئی۔ 
 لوگ آئے اور یہاں بود و باش اختیار کی۔ ان میں مل جل کر رہنے کی خو‘ پیدا ہوئی۔ یہاں آسامی اور بنگالی ہندو خاندان بھی تھے جو سرکاری زمین پر مکان بنانے پر مجبور ہوئے یا مجبور کئے گئے۔ پہر میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہندو کمیٹی ممبرس نے بنگالی مسلم خاندانوں کو خود زمینیں دیں اور اُن سے قیمت لی، یہ بات یہاں سب جانتے ہیں اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرتا۔ یہاں باہمی اشتراک اور تعاون کا ایسا ماحول تھا کہ اس کی مثال دی جاتی ہے۔ باغبر کے لوگوں سے ملئے تو وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح بابری مسجد کی شہادت کا دن گزرنے کے بعد جو رات آئی اُس میں ہندوؤں اور بوڈو عوام کی حفاظت کیلئے بنگالی مسلمانوں نے اپنی خدمات پیش کیں اوراُنہیں تحفظ کا بھرپور احساس دلایا۔یہاں آپ کو یہ بھی سننے کو ملے گا کہ اگر کسی بنگالی مسلمان نے شکایت کی کہ اُس کے مویشیوں پر خطرہ منڈلا رہا ہے تو گاؤں والے اُن کی مدد کو دوڑتے اور اگر شیر کو مارنے کی ضرورت پیش آتی تو اس سے بھی گریز نہ کرتے۔ اُن کا کہنا یہ ہوتا تھا کہ ایسے ہی لوگوں کو اعزاز دینے کیلئے گاؤں کا نام باغبر رکھا گیا تھا۔
 یہ میل جول، ایک دوسرے کی مدد وغیرہ کا جذبہ بہرحال تھا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگوں میں نسلی بنیاد پر کشیدگی نہیں تھی۔ وہ بھی تھی مگر کبھی لوگوں کو اپنا اسیر نہیں بناتی تھی۔اب اُن میں اشتراک اور تعاون کے راستے بند کئے جارہے ہیں۔ مل جل کر رہنے کی جو کہانیاں اُن کے مشترکہ حافظے کا حصہ تھیں، وہ اُن کے ذہنوں سے محو کی جارہی ہیں۔ ان حالات میں، مَیں خود کو شکست خوردہ محسوس کرتا ہوں۔    چونکہ مَیںنے انہیں یعنی یہاں کے باشندوں کو طویل عرصے تک شیروشکر ہوکر رہتے ہوئے دیکھا ہے اس لئے بدلتا آسام مجھے پریشان کرتا ہے۔ اُنہیں اُن کی مذہبی شناخت کے تئیں حساس بنایا جارہا ہے۔ حکومت کو اس کی پروا نہیں ہے۔ وہ مطمئن ہے کیونکہ جو کچھ ہورہا ہے، وہ اس کیلئے فائدہ مند ہے۔ (بشکریہ ’’ٹیلیگراف‘‘) 

assam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK