Inquilab Logo

نفاذ ِقانون سے پہلے بیداری

Updated: February 15, 2023, 10:27 AM IST | Mumbai

آسام میں گزشتہ دس گیارہ دنوں میں ۳۰۱۵؍ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے

photo;INN
تصویر :آئی این این

آسام میں گزشتہ دس گیارہ دنوں میں ۳۰۱۵؍ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں نوعمر لڑکے، اُن کے والد اور نوعمر لڑکوں کی شادی کروانے والے شامل ہیں۔ اس نئی مصیبت کے پیش نظر آسام کے عوام کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں۔ نوعمر لڑکیوں کو روتے دھوتے، پولیس کے آگے ہاتھ جوڑتے اور یہ فریاد کرتے ہوئے دیکھا گیا کہ وہ اُن کے شوہروں کو بخش دیں۔ ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ بہت سی حاملہ خواتین اس ڈر سے اسپتال نہیں جارہی ہیں کہ کہیں پولیس اُن کے شوہر کا نام اور پتہ حاصل کرکے گرفتار نہ کرلے۔ انڈیا ٹوڈے کی ایک خبر کے مطابق جنوبی سالمارا منکاچر ضلع کی ایک دوشیزہ نے پولیس کارروائی کے ڈر سے خود کشی کرلی۔ اس دوشیزہ کی شادی کو ابھی تین ہی ماہ ہوئے تھے۔ بعض اطلاعات کے مطابق گرفتاری کے ڈر سے اب تک تین افراد خود کشی کرچکے ہیں جن میں دو خواتین اور ایک مرد ہے۔ جس مرد نے خود کشی کی وہ برائی باری (گوری پور تھانہ) کا باشندہ ہے۔ چونکہ اس کی شادی قانونی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہوئی تھی اس لئے گرفتاری کے خوف نے اُسے انتہائی قدم اُٹھانے پر مجبور کیا۔ اس شخص کے دو چھوٹے بچے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پولیس مبینہ طور پر اُن شادیوں کا ریکارڈ حاصل کررہی ہے جو کئی سال پہلے ہوئی تھیں۔بہ الفاظ دگر مزید گرفتاریاں طے ہیں اور شاید اسی لئے ریاستی وزیر اعلیٰ نے اس سلسلے کے جاری رہنے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ یہ کارروائی ۲۰۲۶ء کے اسمبلی الیکشن تک جاری رہے گی۔ ہم یہ نہیں سمجھ پائے کہ اسمبلی الیکشن کا حوالہ کیوں دیا گیا۔ کیا اس کارروائی کا مقصد سماجی اصلاح نہیں، انتخابی مفاد ہے؟ 
 واضح رہے کہ جن کے خلاف کارروائی ہورہی ہے، وہ ایسے غریب لوگ ہیں جنہیں حالات کے جبر نے تعلیم حاصل کرنے سے روکا، محنت مزدوری کے ذریعہ پیٹ پالنے والے ان لوگوں کو علم نہیں ہے کہ قانون کیا کہتا ہے۔ اِنہیں یہ علم نہیں ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی شادی قانوناً کس عمر میں ہونی چاہئے۔ یہ شادیاں اس لئے ہوگئیں کہ متعلقہ علاقوں میں اب تک اتنی ہی عمر میں شادیاں ہوتی رہی ہیں۔ اگر حکومت کا فیصلہ تھا کہ جو قانون ہے اُسے سختی سے نافذ کیا جائیگا تو اس کی اطلاع عام کی جانی چاہئے تھی، لوگوں کو سمجھانا اور بتانا چاہئے تھا کہ قانون کیا کہتا ہے۔ ریاستی حکومت نے قانون کے تعلق سے بیداری کی مہم نہیں چلائی، لوگوں کو متنبہ بھی نہیں کیا اور اچانک پولیس کو حکم دے دیا کہ نوعمروں کی شادی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔ چونکہ قانون موجود ہے اس لئے چارہ جوئی کا جواز ہے مگر چاہ جوئی کے کئی طریقے ہیں۔ ان لوگوں کو نوٹس دیا جاسکتا تھا یا ان سے جرمانہ وصول کیا جاسکتا تھا۔ مگر حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ سیدھے دھاوا بول دیا، گرفتاریاں شروع کر دیں اور اب اسے کسی کارنامے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔  
 اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ریاستی حکومت عوام کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ گرفتار شدگان میں بڑی تعداد اقلیتی فرقے کے لوگوں کی ہے۔ ہم اپنے ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں کروا سکے مگر یہ قرین قیاس ہے۔ اس کارروائی پر وہ تنظیمیں بھی دم بخود ہیں جو قانونی عمر سے پہلے ہونے والی شادی کی مخالف ہیں۔ 
 حکومت ِ آسام کو سماجی اصلاح مقصود ہے تو سماجی بیداری کی مہم چلائے اور اگر انتخابی فائدہ مقصود ہے تو اس کیلئے گھر نہ اُجاڑے اور ان غریب مزدو ری پیشہ لوگوں کو خود کشی پر مجبور نہ کرے۔ ووٹ حاصل کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ انہیں اعتماد میں لے کر بھی ووٹ لیا جاسکتا ہے۔ جمہوریت میں ڈرانا کیا معنی رکھتا ہے؟ 

assam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK