Inquilab Logo

بی جے پی کا حوصلہ انتخابی کامیابیوں سے بلند ہوا!

Updated: January 14, 2024, 1:49 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

ایل کے اڈوانی نے اپنی سوانح میں لکھا ہے کہ مندر تحریک کیسے شروع ہوئی، رتھ یاترا سے اُسے کتنی کمک ملی اور پھر حالات کس رُخ پر پہنچے۔ وہی اس تحریک کے معمار تھے مگر اس کا سہرا اُن کے سر نہیں بندھ رہا ہے۔

Prime Minister Narendra Modi`s road show. Photo: INN
وزیراعظم نریندر مودی کا روڈ شو۔تصویر:آئی این این

ایودھیا میں  مندر کی تعمیر سے ملک کی تاریخ کاایک ایسا باب بند ہوجائیگا جس سے آج کے بہت سے نوجوان لاعلم ہیں ۔ البتہ پختہ عمر لوگوں  نے تاریخ کے اس باب اور اس تحریک کو ابتداء سے دیکھا ہے۔ اس کا مرکزی کردار بی جے پی ہے جس نے چار دہائیوں  پر محیط اس تحریک سے بی جے پی کو اُبھرتے اور اقتدار تک پہنچتے دیکھا ہے۔ 
 قارئین کو جنتا پارٹی کا دور یاد ہوگا۔ واجپئی کی قیادت میں  جن سنگھ نے کئی دیگر پارٹیوں  کے ساتھ اتحاد کیا اور لوک سبھا کی ۲۲؍ سیٹیں  جیت لی تھیں ۔ اس سے قبل کے چار لوک سبھا انتخابات میں  اُسے ۳؍، ۴؍، ۱۴؍ اور ۳۵؍ سیٹیں  ملی تھیں  مگر وہ ۹؍ فیصد ووٹ سے کبھی آگے نہیں  بڑھی تھی۔ پارٹی خود اپنے بارے میں  کہہ چکی ہے کہ کہ ’’۱۹۷۲ء کے اسمبلی انتخابات میں  جو کئی ریاستوں  میں  منعقد کئے گئے تھے، جن سنگھ تنہا میدان میں  اُتری اور ۱۲۳۳؍ اُمیدواروں  کو ٹکٹ دیا تھا۔ ان میں  سے صرف ۱۰۴؍ اُمیدوار جیتے تھے۔ پارٹی کا مجموعی ووٹ شیئر ۸؍ فیصد تھا۔ تقریباً تمام ریاستوں  میں  اسے ناکامی ہوئی اور وہ اپنی سابقہ کارکردگی کو بہتر نہیں  بناسکی تھی۔‘‘
 پارٹی کی کارکردگی میں  بہتری کے بعد ٹھہراؤ تب آیا جب اس نے ۱۹۸۴ء کے لوک سبھا الیکشن میں  قسمت آزمائی۔ اس کے حصے میں  صرف ۲؍ سیٹیں  اور ۷؍ فیصد ووٹ آئے۔ ۱۹۸۶ء میں  لال کرشن اڈوانی نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ اب تک انتخابی سیاست کا اُن کا کوئی تجربہ نہیں  تھا۔سیاست میں  داخلے سے قبل اُنہوں  نے کافی وقت آر ایس ایس کے رسالے میں  صحافی کی حیثیت سے گزارا تھا جہاں  وہ فلموں  پر تبصرہ لکھتے تھے۔ سیاست میں  آنے کے بعد بھی اُن کی نامزدگی ہی عمل میں  آتی رہی، الیکشن میں  کامیابی کے ذریعہ کوئی عہدہ نہیں  ملا۔ اُن کی نامزدگی دہلی کونسل کیلئے اور پھر راجیہ سبھا کیلئے ہوئی۔ سیاسی مقاصد کیلئے عوام کو جوڑنے کا اُنہیں  کوئی تجربہ نہیں  تھا۔ اپنی خود نوشت سوانح میں  اُنہو ں نے جو کچھ لکھا ہے اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اُنہیں  یہ علم نہیں  تھا کہ مجمع کیسے (جمع) کیا جاسکتا ہے اور انتخابی سیاست میں  کن تدابیر کو اختیار کیا جاتا ہے۔
 ایودھیا کا مسئلہ سب سے پہلےآر ایس ایس کے ایک غیر سیاسی گروپ نے اُٹھایا تھاجس کی قیادت وی ایچ پی کررہی تھی۔ ۱۹۸۳ء میں  یوپی میں  ہونے والی ایک میٹنگ میں  راجندر سنگھ نے، جو بعد میں  آر ایس ایس کے سربراہ بنے، مطالبہ کیا تھا کہ ہندو عقیدتمندوں  کو بابری مسجد میں  داخلے کی اجازت دی جائے۔ستمبر ۱۹۸۴ء میں  وی ایچ پی نے مسجد کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کی جسے عوامی حمایت ملنے لگی۔ اس سے حوصلہ پاکر مذکورہ گروپ نے ۱۹۸۶ء میں  یہ تک کہنے کی جرأت کردی کہ ہم زور زبردستی سے تالہ کھولیں  گے۔ اُس وقت وزیر اعظم راجیو گاندھی تھے جنہوں  نے شدید دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ اُن کی حکومت نے عدالتوں  سے کہا کہ اگر ایسا ہوا (تالہ کھولا گیا) تو نظم و نسق کا کوئی مسئلہ نہیں  ہوگا۔چنانچہ تالہ کھولا گیا اور ہندو عقیدتمندوں  کو داخلے کی اجازت مل گئی۔
 مگر، وی ایچ پی اتنے پر نہیں  رُکی۔ اس کا مقصد مسجد کو مسمار کردینا تھا۔ فروری ۱۹۸۹ء میں  الہ آباد کے کمبھ میلے میں  اس نے اعلان کیا کہ نومبر میں  وہ رام مندر کا سنگ بنیاد رکھے گی، مندر کی تعمیر کیلئے پورے ملک سے اینٹیں  لائی جائینگی جنہیں  جلوس کے ساتھ ایودھیا پہنچایا جائیگا۔ اڈوانی نے اپنی سوانح میں  لکھا ہے کہ اِس وقت تک صرف وجے راجے سندھیا اور ونئے کٹیار نے انفرادی حیثیت میں  رام مندر مہم میں  حصہ لیا تھا، یہ معاملہ قومی سیاست کا جزو نہیں  بن سکا تھا۔جون میں  بی جے پی کی قومی عاملہ کی میٹنگ منعقدہ ہماچل پردیش میں  اڈوانی نے ایودھیا معاملے کے ساتھ بی جے پی کو جوڑا چنانچہ قومی عاملہ میں  قرارداد منظو ر کی گئی کہ (بابری مسجد کی) اراضی ہندوؤں  کے سپرد کرکے مسجد کو کسی اور جگہ منتقل کیا جائے۔
 اس کے چند ماہ بعد نومبر ۱۹۸۹ء میں  الیکشن ہوا جس کیلئے بی جے پی کے منشور میں  ایودھیا کا پہلی مرتبہ ذکر کیا گیا جو کچھ اس طرح تھا: ’’ ۱۹۴۸ء میں  حکومت ِ ہند نے سومناتھ کا مندر تعمیر کرایا تھا، اس روِش پر قائم نہ رہتے ہوئے اور ایودھیا میں  رام مندر کی تعمیر نو کی اجازت نہ دے کر حکومت کشیدگی بڑھا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے سماجی امن و اتحاد شدید طور پر متاثر ہورہا ہے۔‘‘ یہ قراردار بی جے پی کے اپنے آئین کی خلاف ورزی تھی جس کے اولین باب کے اولین صفحہ پر یہ عہد کیا گیا تھا کہ پارٹی صحیح عقیدہ پر قائم اور سیکولرازم کے اُصول سے خود کو جوڑ کر رکھے گی۔
 پولنگ سے چند ہفتے پہلے وی ایچ پی نے پورے ملک سے لوگوں  کو ایودھیا مدعو کیا اور مسجد کے قریب ہی رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا۔ تفرقہ پسندی اور مسلم مخالف مطالبہ سے طاقت پاکر بی جے پی ۸۵؍ سیٹیں  جیتنے میں  کامیاب ہوگئی جو سابقہ سیٹوں  سے کافی زیادہ تھیں ۔اب ایل کے اڈوانی نہایت کامیاب سیاسی لیڈر بن چکے تھے جن کے ہاتھ انتخابی کامیابی کا نسخہ بھی لگ چکا تھا۔اب اُنہوں  نے انہی خطوط پر محنت شروع کی۔ کانگریس اقتدار گنوا چکی تھی، مرکز میں  اڈوانی ہی کی حمایت سے وی پی سنگھ کی حکومت قائم ہوئی جو زیادہ عرصہ قائم نہیں  رہ سکی۔ الیکشن کے تین ماہ بعد (فروری ۱۹۹۰ء میں ) وی ایچ پی نے مسجد کے خلاف تحریک میں  عوامی شرکت کو یقینی بنایا اور اعلان کیا کہ وہ اکتوبر سے کارسیوا شروع کریگی۔ 
 مگر، اڈوانی نے لکھا کہ سیاسی درجۂ حرارت میں  اضافہ ازخود ہوا۔ اپنی کتاب میں  اُنہوں  نے لکھا ہے کہ جون میں  لندن روانگی سے قبل آر ایس ایس کے رسالہ پنچ جنیہ کے ایڈیٹر نے اُن کا انٹرویو کرتے ہوئے سوال کیا کہ اگر حکومت ایودھیا معاملے کو حل کرنے میں  ناکام ہوئی تو کیا ہوگا؟ جواب میں  اڈوانی نے کہا کہ بی جے پی نے ۳۰؍ اکتوبر سے کارسیوا کے منصوبہ کی حمایت کی ہے ۔ بقول اڈوانی : ’’مَیں  اس انٹرویو کو بھول چکا تھا، ایک دن اہلیہ نے فون کرکے پوچھا کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا؟ یہاں  اخبارات نے اُسے شہ سرخی میں  شائع کیا ہے۔‘‘ یہیں  سے مندر تحریک میں  شدت آئی۔ اُن کی رتھ یاترا نے کیا گل کھلائے، یہ سب پر ظاہر ہے۔
 آئندہ ہفتہ مندر کا افتتاح ہوگا، اڈوانی کیا سوچیں  گے ہم نہیں  جانتے مگر یہ طے ہے کہ اس کا سہرا اُن کے سر نہیں  بندھ رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK