Inquilab Logo

روٹی، کپڑا اور مکان سب کا حق ہے

Updated: March 03, 2023, 10:29 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

ایک سروے رپورٹ کے مطابق، ہندوستانیوں کو اندیشہ ہے کہ تجارتی مندی اور کووڈ- ۱۹؍ دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔ ملک میں معاشی استحکام آنے کی امید کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نوکری سے برطرف یا ملازمت سے محروم ہونا جس کا امکان بڑھتا جا رہا ہے ان کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

بھوک، بیماری، بے روزگاری تو انسانوں کو تباہ کرتی ہی ہے، بھوک، بیماری، بے روزگاری کا اندیشہ بھی کم مضر نہیں ہوتا۔ یہ اندیشہ اس کو اس دیوار اور چھت سے زیادہ کھوکھلا کر دیتا ہے جس کو دیمک لگ چکی ہوتی ہے۔ ہندوستانی آبادی کا بیشتر حصہ ان مسائل سے دو چار ہو کر تو پریشان ہے ہی جو اس کو درپیش ہیں ان مسائل کے اندیشوں سے بھی زندگی کو جہنم بنائے ہوئے ہے جو ابھی درپیش نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر مہنگائی اور بے روزگاری یا تجارتی مندی کی مار تو ایک بڑا طبقہ جھیل ہی رہا ہے۔ جو لوگ اس مار کو نہیں جھیل رہے ہیں وہ بھی اس غم میں دبلے ہوئے جا رہے ہیں کہ کل کیا ہوگا؟ حال ہی میں ایک تجارتی کمپنی ’کانتار‘ نے جس کا کام ہی حالات کا تجزیہ کرنا ہے۔ ایک سروے رپورٹ میں بتایا کہ ہندوستانیوں کو اندیشہ ہے کہ تجارتی مندی اور کووڈ- ۱۹؍ دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔ ملک میں معاشی استحکام آنے کی امید کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نوکری سے برطرف یا ملازمت سے محروم ہونا جس کا امکان بڑھتا جا رہا ہے ان کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ اندیشہ کسی ایک طبقے میں نہیں ہے۔ نوکری یا ملازمت سے محروم ہونے کے خوف میں سبھی مبتلا ہیں۔ سروے کے مطابق متمول طبقے میں ۳۲؍ فیصد ۳۶؍ سے ۵۵؍ سال کی عمر والوں میں ۳۰؍ فیصد اور ملازمت پیشہ لوگوں میں ۳۰؍ فیصد اس قسم کے اندیشے میں زیادہ مبتلا ہیں۔
 یہ سروے ۱۵؍ دسمبر ۲۰۲۲ء اور ۱۵؍ جنوری ۲۰۲۳ء کے درمیان ممبئی، دہلی، پونے، چنئی، حیدرآباد، کولکاتا، بنگلورو، احمد آباد، اندور، پٹنہ، جے پور اور لکھنؤ جیسے ۱۲؍ بڑے شہروں میں ۲۱؍ سال سے ۵۵؍ سال تک کے لوگوں سے سوالات پوچھ کر کیا گیا۔ اس سروے میں سوالوں کے جواب دینے والوں نے حکومت سے توقعات بھی وابستہ کیں کہ وہ بہتر اقدامات کرے گی اور معیشت کے بہتر بنائے جانے کی امید بھی ظاہر کی مگر ہر چار میں سے ایک شخص نے اس اندیشے کا بھی ذکر کیا کہ اس کی ملازمت یا اس کی آمدنی کا ذریعہ اس سے چھینا جاسکتا ہے۔ مایوسی غلط ہے اور ہر معاملے میں حکومت پر تنقید کرنا بھی صحیح نہیں کہا جاسکتا مگر یہ تو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ جس طرح ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور مہنگائی تھمنے کا نام نہیں لیتی وہ اچھے اچھوں کو گھبراہٹ میں مبتلا کر دینے کے لئے کافی ہے۔ ملک میں سرکاری، غیر سرکاری دفاتر، بازار، تجارتی ادارے اور صنعتی مراکز بھی کام کر رہے ہیں، سبھی کچھ نہ کچھ کما بھی رہے ہیں مگر کام کرنے والوں کے چہروں پر بشاشت یا قلبی اطمینان کے آثار نہیں ہیں۔ جو بے روزگار ہیں یا جن کو دو وقت کی روٹی نہیں ملتی یا روٹی تو ملتی ہے مگر اتنی نہیں ملتی کہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے ساتھ دوسری ضرورتیں بھی پوری کرسکیں وہ تو اور زیادہ پریشان حال ہیں۔ اس دنیا میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ضرورتمندوں کے کام آتے ہیں مگر ایسے لوگ ان سے زیادہ ہیں جو ضرورتمندوں کا استحصال کرتے ہیں۔ ضرورتمند نہ ہونے کے باوجود مانگتے پھرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ برسر ملازمت ہو کر بھی کام نہ کرنے والوں کی بہتات ہے اس لئے تین سطح پر اقدام کئے جانے کی ضرورت ہے۔ پہلی یہ کہ حکومت کو یاد دہانی کی جاتی رہے کہ بے روزگاری کے خاتمے کے لئے وہ ایسی تدابیر کرتی رہے جو کارگر ہوں۔ دوسری یہ کہ جو لوگ برسر ملازمت ہیں وہ اپنے کام میں ایماندار اور مستعد ہوں۔ ایسے کام بھی کرتے رہیں کہ ان کے دفتر، کارخانے کی حسن کارکردگی دوسروں کے لئے مثال بن سکے اور تیسری یہ کہ ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ جو بے روزگار ہیں یا جنہیں روزگار سے محروم کر دیئے جانے کا خطرہ ہے وہ احساس محرومی اور اندیشے سے سے نجات پائیں۔
 مسائل سے نجات تبھی ممکن ہے جب حکومت سے مدد لی بھی جائے اور حکومت کی مدد کرنے کے ساتھ آپس میں بھی رفاقت و تعاون کی فضا قائم کی جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بیشتر موافقت اور مخالفت دونوں ہی انتہا پسندی کا شکار ہو جاتی ہے۔ جمہوریت میں اختلاف رائے کوئی بری بات نہیں۔ خود حکومت بھی اپنے فیصلوں کو تبدیل کرتی رہتی ہے اس لئے عوام کو بھی اس طرز فکر اور طرز عمل سے نجات پانا چاہئے کہ ایک بار مخالفت کرچکے ہیں تو اب موافقت کیسے کریں؟ اگر حکومت کوئی فیصلہ کرتی ہے اور پھر رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں تبدیلی لاتی ہے تو عوام کا بھی فرض ہے کہ حکومت کی ستائش کریں۔ مگر عموماً ہوتا یہ ہے کہ اگر مخالفت کرنے والے مخالفت برائے مخالفت کی روش پر قائم رہتے ہیں تو حکومت اپنی انا اور اقتدار کے گلیاروں میں دلالی کرنے والوں کے بہکاوے میں آکر ایسے کام کرتی رہتی ہے جو انصاف اور نیک نیتی کے منافی ہوتے ہیں۔
 اس وقت ملک کے معاشی حالات اچھے نہیں ہیں۔ عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ طرح طرح کے اندیشوں کی مار جھیل رہے ہیں اس لئے نہ صرف حکومت اور عوام بلکہ حکومت اور مختلف سیاسی پارٹیوں کو بھی مل جل کر ایسے منصوبے پر کام کرنا چاہئے جس سے مہنگائی کی مار کم ہو، جو بے روزگاری کے اندیشے میں مبتلا ہیں ان کے اندیشے دور ہوں اور جو بے روزگار ہیں ان کو روزگار ملے۔
 اکثر، خاص کر انتخابات کے موقع پر حکمراں طبقے کی طرف سے آواز آتی ہے کہ وہ کئی کروڑ لوگوں کو مفت اناج فراہم کرتی ہے یا ملک کے آسودہ لوگوں نے بھی عوام کو راحت پہنچانے کے لئے کافی بڑی رقم خرچ کی ہے۔ بیشک یہ اچھے اقدام ہیں مگر روزگار یا ملازمت دیئے جانے کا متبادل تو نہیں ہیں۔ حکومت، حکمراں طبقہ اور ملک کے آسودہ لوگ غریب عوام کو فائدہ پہنچانے کے لئے ایسے کام بیشک کرتے رہیں مگر روٹی، کپڑا اور مکان مہیا کرنے کو اپنے اقتدار کا زینہ یا اپنے کئے ہوئے فلاحی کاموں کا معاوضہ نہ بنائیں۔

covid-19 Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK