شیشے میں بال آنا کا معنی ہے خرابی آنا، بدگمانی پیدا ہونا۔ معاشرتی زندگی میں اکثر لوگ ایک دوسرے سے خفا خفاسے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ رائے ہے جو بن جاتی ہے، بنالی جاتی ہے یا بنا دی جاتی ہے۔
EPAPER
Updated: September 02, 2023, 8:54 AM IST | Shahid Latif | Mumbai
شیشے میں بال آنا کا معنی ہے خرابی آنا، بدگمانی پیدا ہونا۔ معاشرتی زندگی میں اکثر لوگ ایک دوسرے سے خفا خفاسے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ رائے ہے جو بن جاتی ہے، بنالی جاتی ہے یا بنا دی جاتی ہے۔
بات ہورہی تھی دوسروں کے تعلق سے بننے والی یا بنائی جانے والی رائے کی جسے انگریزی میں پرسیپشن کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں، راہل گاندھی کی مثال دی گئی تھی جن کے تعلق سے عوام کی رائے کو بگاڑنے کی مہم جوش و خروش سے چھیڑی گئی اور اس پر بے دریغ روپے خرچ کئے گئے تاکہ وہ شخص جس میں مدمقابل بننے کی ہر صلاحیت موجود ہے، عوام کی نگاہوں میں بے توقیر ٹھہرے۔ یہ مہم بڑی حد تک کامیاب ہوئی۔ اچھے اچھے لوگ اس مہم کا شکار ہوئے اور راہل کو کم سمجھ سمجھنے لگے۔ مخالفین کے ذریعہ بنایا گیا پرسیپشن غلط اور بے بنیاد تھا یہ بات عوام نے تب سمجھی جب راہل نے ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کی بھارت جوڑو یاترا شروع کی، بارہ ریاستوں سے گزرے، ہر علاقہ اور ریاست میں عوام کے مختلف طبقات اور سماجی کارکنان سے ملے اور ادنیٰ و اعلیٰ، ہر شخص کو لگے لگا کر جہاں انسانیت نوازی کا ثبوت دیا وہیں اپنی گفتگو کے ذریعہ یہ ثابت کیا کہ وہ کم سمجھ نہیں ہیں بلکہ اُن لوگوں سے زیادہ سمجھدار ہیں جنہوں نے اُن کے خلاف کروڑوں روپے خرچ کرکے غلط پرسیپشن قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔
پرسیپشن کا معاملہ یہ ہے کہ کبھی تو ہم کسی کے بارے میں جو رائے بن جاتی ہے اُسے بنے رہنے دیتے ہیں اور یہ جاننے کی زحمت نہیں کرتے کہ وہ کتنی درست ہے اور کبھی اپنی رائے دوسروں کے زیر اثر بناتے ہیں۔ ایک دوسرے کے تعلق سے پیدا ہونے والی بدگمانی کے متعدد اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ یا تو جو رائے بنی اُسے درست کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی یا دوسروں کے زیر اثر رہے۔ غلط رائے بدگمانی پیدا کرتی ہے۔ معاشرہ میں بدگمانی کتنی ہے اس کا اندازہ کسی کو نہیں ہوتا۔ کبھی یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کس سے بدگمان ہے، کیوں ہے، کب سے ہے اور کب تک رہنا چاہے گا جبکہ سب جانتے ہیں کہ بدگمانی تلخی پیدا کرتی ہے، رشتوں کو توڑتی ہے حتیٰ کہ اُنہیں تلف کردیتی ہے۔ یہ بدگمانی اکثر اوقات ازخود بننے والی نادرست رائے کا نتیجہ ہوتی ہے یا دوسروںکی رائے کو اپنی رائے کا درجہ دے دینے کی سہل پسندی کا۔ انسان بہتوں کے بارے میں عرصۂ دراز تک ازخود بنی ہوئی یا بنائی ہوئی رائے پر قائم رہ کر حقیقت سے دور رہتا ہے اور اس حقیقت سے منہ چراتا رہتا ہے کہ پرسیپشن اور ریالٹی میں فرق ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ پرسیپشن ریالٹی ہو مگر اس کے ریالٹی نہ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رائے، انسان کے اپنے نقطۂ نظر کی مرہون منت یا دوسروں کے نقطۂ نظر سے مستعار ہوتی ہے جبکہ حقیقت حقیقت ہوتی ہے، تعارف اور تعریف سے بالاتر۔ ایک شخص کی رائے عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہے مگر حقیقت ہمہ وقت حقیقت ہی رہتی ہے، تبدیل نہیں ہوتی۔ رائے انسان کی جانبداری اور اُس کے سوچنے سمجھنے کے ڈھنگ پر مبنی ہوتی ہے جبکہ حقیقت کا انسان کی جانبداری اور سوچنے سمجھنے کے ڈھنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ رائے صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی مگر حقیقت ہمیشہ صحیح ہوتی ہے، اس کے غلط ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح رائے انسان کی پسند ناپسند پر مبنی ہوتی ہے جبکہ حقیقت کا پسند ناپسند سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، انسان پسند کرے تب بھی وہ حقیقت ہے اور ناپسند کرے تب بھی حقیقت ہے۔
دوسروں کے بارے میں قائم ہونے والی رائے یا پرسیپشن کا مسئلہ تو ہزاروں برس سے قائم ہے ہی، خود اپنے بارے میں بھی بہتوں کی رائے کا درست نہ ہونا ہزاروں سال پرانی روایت ہے۔ انسان مدتوں اپنے بارے میں پرسیپشن میں جیتا ہے اور ریالٹی سے دور رہتا ہے۔ بہت سے لوگ خود کو روشن خیال تصور کرتے ہیں، اُصول پسند خیال کرتے ہیں، بلند حوصلہ سمجھتے ہیں یا حق و انصاف کیلئے مزاحمت کرنے والا قرار دیتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ وہ واقعی ویسے ہوں۔ خوداحتسابی اسی لئے ضروری ہے۔ جو لوگ خود احتسابی کا شغل اپناتے ہیں وہ اپنے بارے میں اپنی رائے کو درست کرتے رہتے ہیں۔ اُن کے ہاں یہ مسلسل عمل ہوتا ہے مگر جو ایسا نہیں کرتے وہ عرصۂ دراز تک ایک واہمے کی خوش رنگ دُنیا میں جیتے ہیں۔
ایک ہی ملک کی مختلف قوموں میں یا مختلف ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کی بہت سی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہی رائے یعنی پرسیپشن ہے جو یا تو بن جاتا ہے یا بنایا جاتا ہے۔ امریکہ نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا پرسیپشن بنایا اور مسلسل پروپیگنڈہ کے ذریعہ درجنوں ملکوں کو آمادہ کرنے کے بعد عراق پر بھیانک جنگ مسلط کی جو غیر معمولی جانی و مالی نقصان کا سبب بنی مگر حقیقت اس کے برخلاف تھی۔ ڈیڑھ ہزار سے زائد معائنہ کاروں نے دو سال تک عراق کا چپہ چپہ چھانا مگر مہلک ہتھیار ڈ’ھونڈ نکالنے میں ناکام رہے۔ اُنہوں نے کم و بیش ۱۷؍ سو مقامات کا جائزہ لیا تھا مگر بے نیل مرام لوَٹے۔ تب تک عراق کی اینٹ سے اینٹ بج چکی تھی اور عوام کی ہنستی کھیلتی زندگی نشان ِ عبرت بن گئی تھی ۔ بعد میں حکومت ِ امریکہ نے یہ عذر لنگ پیش کیا کہ صدام حسین نے مہلک ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ دس سال پہلے تلف کردیا تھا۔
رائے بن جائے یا بنادی جائے، اکثر نقصان اور خسران پر منتج ہوتی ہے جس کا فائدہ وہ لوگ اُٹھاتے ہیں جو فائدہ اُٹھانے ہی کے مقصد سے رائے بگاڑنے یا غلط رائے بنانے پر خود کو مامور کرتے ہیں۔ اگر غلط رائے کی بنیاد پر ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوتی ہے اور کبھی جنگ برپا ہوجاتی ہے جو طویل مدتی اثرات قائم کرتی ہے تو معاشرتی اور خاندانی سطح پر بھی غلط رائے نقصان ہی سے دوچار کرتی ہے۔ غلط رائے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بدگمانی نے دلوں میں نفاق کو جنم دیا ہے، ذہنوں کو مسموم کیا ہے، گھر توڑے ہیں، خاندانوں کو منتشر کیا ہے اور مال و متاع کو بے وقعت کیا ہے (مثلاً برسوں کورٹ کچہری کے چکر لگتے رہے اور جس حویلی یا مکان پرناز کیا جاسکتا تھا وہ متنازع قرار پائی اور اپنے مکینوں کو ترستی رہی)۔
آپ نے بہت سوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ مَیں زندگی بھر جو سمجھتا رہا، بات ویسی نہیں تھی، مجھے بہکایا گیا تھا، میری آنکھیں بہت دیر میں کھلیں۔کاش ہر شخص یہ سمجھے کہ یہ دُنیا بہت خوبصورت ہے، اس میں بسنے والے بھی بہت خوبصورت ہیں، مسئلہ غلط رائے اور بدگمانی کا ہے۔ سوچئے شیشے میں بال کیوں آئے! n