Inquilab Logo

سی اے اے، این پی آر،این آر سی، کچھ بھید نہیں کھلتا!

Updated: March 17, 2024, 2:03 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

۲۰۱۴ء سے اب تک اس بابت جو بیانات حکمراں جماعت کے لیڈروں کی جانب سے آئے ہیں اُن میں خاصا تضاد ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ کس بیان پر بھروسہ کیا جائے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

سی اے اے کے بعد ہمیں متنبہ رہنا چاہئے کہ این پی آر بھی آسکتا ہے اور این آر سی بھی۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ حکومت میں آپ کس پر یقین کرتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے آئیے پہلے تسلسل ِ واقعات (کرونولوجی) کو سمجھ لیں:
 شاہین باغ احتجاج شروع ہونے کے بعد ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۹ء کو دہلی کی ایک ریلی میں وزیر اعظم نے کہا تھا: ’’مَیں ۱۳۰؍ کروڑ عوام سے کہنا چاہتا ہوں کہ ۲۰۱۴ء میں میری حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے این آر سی پر کبھی اور کسی بھی جگہ بات چیت نہیں ہوئی۔ ہمیں، اسے صرف آسام میں نافذ کرنا ہے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق۔‘‘ وزیر اعظم کا یہ بیان اس سے چند روز قبل دیئے گئے وزیر داخلہ کے بیان سے متصادم تھا۔ ۱۰؍ دسمبر ۱۹ء کو وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں کہا کہ ’’اس دیش میں این آر سی ہوکر رہے گا، یہ مان کے چلئے۔‘‘ایک اور ریلی میں اُنہوں نے کہا ’’این آر سی آنے والا ہے‘‘۔ یہ انتخابی ریلی تھی جو ۳؍ دسمبر کو جھارکھنڈ میں منعقد کی گئی تھی۔ اس میں امیت شاہ نے گویا ڈیڈ لائن طے کردی تھی، این آر سی مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن۔ ۲۰۲۴ء۔ اس کے ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ایک ایک گھس پیٹھئے کی شناخت کی جائیگی اور آئندہ الیکشن سے پہلے اُسے نکال باہر کیا جائیگا۔‘‘ 
 مودی نے ۲۰۱۹ء کے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا: ’’غیر قانونی گھس پیٹھ کی وجہ سے کئی علاقوں کی تہذیبی اور لسانی شناخت بدل گئی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ مقامی باشندوں کی روزی روٹی، روزگار اور معاش پر ناخوشگوار اثر پڑا ہے۔ ہم ان علاقوں میں جتنی جلد ممکن ہوگا نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) مکمل کریں گے اور ترجیحی بنیاد پر کریں گے۔ اس کے بعد ہم مرحلہ وار طریقے سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی این آر سی کا نفاذ کریں گے۔‘‘
 ہندوستان کا بنگلہ دیش یا پاکستان کے ساتھ ’’حوالگی معاہدہ‘‘ نہیں ہے۔ فرض کرلیجئے این آر سی کے ذریعہ معلوم ہوا کہ ملک میں ایسے تارکین وطن ہیں جن کا نام کہیں درج نہیں ہے تو حکومت کے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ اُنہیں حراستی مراکز میں بھیج دے جیسا کہ آسام میں ہورہا ہے۔
 وزیر اعظم مودی کی تقریر کے دودِن بعد مرکزی حکومت نے این آر سی کی جانب پہلا قدم بڑھایا۔ کابینہ نے ۲۰۲۱ء میں مردم شماری کرانے کے مقصد سے ۸۷۵۴؍ کروڑ روپے مختص کئے اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر کی تکمیل کیلئے ۳۹۴۱؍ کروڑ روپے۔ مگر اس کے بعد ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں حکومت نے این پی آر کے مذکورہ قدم کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی چنانچہ پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ ہر شخص (خواہ وہ غیر شہری ہو) کو این پی آر میں شامل کیا جائیگا جس کیلئے نہ تو ثبوت کی ضرورت ہوگی نہ دستاویز کی نہ ہی بائیو میٹرک کی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ ’’ہم عوام پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘ 
 این پی آر کی مشق اپریل ۲۰۲۰ء میں شروع ہونی تھی اور ستمبر میں مکمل (جو کووڈ کی وجہ سے رُک گئی)۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ این پی آر کو این آر سی کیلئے استعمال نہیں کیا جائیگا۔ یہ بات امیت شاہ نے کہی تھی کہ این پی آر کا این آر سی  سے کوئی تعلق نہیں ہے (’’اس کا دور دور تک این آر سی سے کچھ سمبندھ نہیں ہے)۔ بقول امیت شاہ: ’’این پی آر ایسا ڈیٹا بیس ہے جس کی بنیاد پر پالیسی بنے گی جبکہ این آر سی ایسی سرگرمی ہے جس میں عوام سے کہا جائیگا کہ وہ اپنی شہریت کو ثابت کریں۔ دونوں سرگرمیوں میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہیں ایک دوسرے کے سروے کیلئے استعمال بھی نہیں کیا جائیگا۔ این پی آر کا ڈیٹا این آر سی کیلئے کبھی استعمال نہیں کیا جائیگا۔ اس سلسلے کے قوانین بھی مختلف ہیں۔ میں تمام لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں، بالخصوص اقلیتوں کو، کہ این پی آر، این آر سی کیلئے استعمال نہیں کیا جائیگا، یہ افواہ ہے۔‘‘ مگر بہت جلد معلوم ہوگیا کہ یہ افواہ نہیں تھی۔ حقائق جلد ہی سامنے آگئے۔ این پی آر میں ۲۲؍ نکاتی ڈیٹا جمع کرنے کا منصوبہ تھا۔ مودی حکومت نے ۸؍ نئے نکات اس میں شامل کئے۔ آدھار، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس، موبائل نمبر، ووٹر آئی کارڈ، مادری زبان اور والدین کی ولادت کی تاریخ اور مقام۔ یہ آٹھ نکات ۲۰۰۳ء کے سٹیزن شپ رولس میں نہیں تھے جو کہ این پی آر کا قانونی لائحہ عمل (لیگل فریم ورک) ہے۔ پریس کانفرنس میں جب پرکاش جاؤڈیکر سے اس سلسلے میں دریافت کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’میں نے وہ فارم نہیں دیکھا ہے جو ماہرین نے تیار کیا ہے۔‘‘
 لاء اور بائی لاء میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ این پی آر جو ہے وہ این آر سی سے مربوط ہی نہیں، اس کی بنیاد ہے۔ این پی آر کی فہرست مقامی افسران اسکین کریں گے تاکہ مشتبہ شہریوں کا پتہ لگا سکیں۔ ان مشتبہ افراد کو قطار میں کھڑے رہ کر اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی۔ اس میں ایک دقت یہ بھی ہے کہ جب فہرست تیار ہوجائیگی اور اسے منظر عام پر لایا جائیگا تب کوئی بھی کسی کے بھی خلاف کہہ دے کہ وہ مشتبہ شہری ہے تو اس کیلئے دشواریاں پیدا ہوجائینگی۔ ۲۴؍ دسمبر ۲۰۱۹ء کو ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ این پی آر بنیاد بنے گا این آر سی کی۔ سٹیزن شپ ایکٹ کی دفعہ ۱۴؍ اے حکومت کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ ہندوستان کے ہر شہری کا نام رجسٹر میں درج کرے، اسے ایک شناختی کارڈ دے اور ہندوستانی شہریوں کا ایک رجسٹر تیار کرے۔یہ رجسٹر این پی آر کے ڈیٹا پر مبنی ہوگا۔
 اسی دوران کسی نے ۱۹۔۲۰۱۸ء کی وزارت داخلہ کی سالانہ رپورٹ کا تجزیہ کیا جس میں کہا گیا تھا کہ این پی آر، این آر سی بنانے کیلئے پہلا قدم ہے۔ ۸؍ جولائی ۲۰۱۴ء کو اُس وقت کے وزیر مملکت برائے داخلہ کرن رجیجو نے کہا تھا: ’’ این پی آر تیار کیا جائیگا اور منطقی نتیجہ تک لے جایا جائیگا جس کا معنی ہے این سی آر کی تیاری جو کہ شہریوں کا مصدقہ ریکارڈ ہوگا۔‘‘ ۲۶؍ نومبر ۱۴ء کو رجیجو نے راجیہ سبھا میں کہا تھا: ’’این پی آر، این آر سی کی جانب پہلا قدم ہے۔‘‘ اُنہوں نے ۱۵؍ جولائی، ۲۲؍ جولائی اور ۲۳؍ جولائی (۲۰۱۴ء) اور ۱۳؍ مئی اور ۱۶؍ نومبر (۲۰۱۶ء) کو بھی اس نوع کا بیان دیا۔ اب جبکہ سی اے اے آچکا ہے، عوام کو این پی آر اور این آر سی کی بابت کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہونا ہے۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس میں تضاد بیانی کافی ہوئی ہے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK