Inquilab Logo

یہ جذبہ رائیگاں نہیں جائیگا

Updated: January 24, 2020, 9:41 AM IST | Editorial

کولکاتا میں ایک مظاہرہ ایسا بھی جاری ہے جسے شاید تین ہی دن گزرے ہیں۔ کولکاتا میونسپل کارپوریشن کے صدر دفتر کے قریب اِس مظاہرہ میں بھی خواتین ہی کی تعداد زیادہ ہے۔

کولکاتا میں شہریت ایکٹ کیخلا احتجاج ۔ تصویر : پی ٹی آئی
کولکاتا میں شہریت ایکٹ کیخلا احتجاج ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 کولکاتا میں ایک مظاہرہ ایسا بھی جاری ہے جسے شاید تین ہی دن گزرے ہیں۔ کولکاتا میونسپل کارپوریشن کے صدر دفتر کے قریب اِس مظاہرہ میں بھی خواتین ہی کی تعداد زیادہ ہے۔ اس اطلاع سے کہ سپریم کورٹ نے اسٹے نہیں دیا ہے، ان مظاہرین کے حوصلے میں قطعی کوئی فرق نہیں آیا بلکہ یہ عزم بڑھ گیا کہ مزید انتظار کیا جائیگا اور ہزار طرح کی صعوبتیں برداشت کی جائینگی مگر سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کو برداشت نہیں کیا جائیگا۔ 
 یہی قابل ذکر نہیں ہے بلکہ مذکورہ مظاہرہ میں جب لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تھا، تب کسی کے سامنے کوئی خاکہ اور منصوبہ نہیں تھا۔ مگر، جیسا کہ کہا جاتا ہے، جب انسان ہمت کرتا ہے تو مدد اللہ تعالیٰ بہم پہنچاتا ہے۔ ایک رات گزر جانے کے بعد یہ محسوس کرتے ہوئے کہ مظاہرین بھوکے ہیں، آس پاس کے ریستورانوں نے اُن کیلئے ناشتہ اور کھانا بھجوایا۔ کسی نے ۲؍سو پلیٹس بھجوائیں کسی نے ۵؍ سو۔ ایک ریستوراں نے واش روم کھول دیا تاکہ مظاہرین کے استعمال میں آسکے۔ جب ان سے بات چیت کی گئی تو ایک ریستوراں مالک نے جو کچھ کہا اس کا مفہوم یہ تھا کہ ’’جب وہ اتنا کچھ کرسکتے ہیں تو ہم اتنا بھی نہیں کرسکتے؟‘‘
 یہ تفصیل ہمیں مذکورہ شہر سے شائع ہونے والے ممتاز انگریزی روزنامہ ’’دی ٹیلی گراف‘‘ سے ملی جو ۲۳؍ جنوری کے شمارہ میں صفحہ اول پر شائع کی گئی ہے۔ چند ایک اخبارات اور ٹی وی چینل سے قطع نظر جو اپنا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں، قومی میڈیا ایسی خبروں کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا ہے جبکہ روزانہ کے مظاہروں کے کوریج کیلئے اخبارات کے پاس صفحات اور ٹی وی چینلوں کے پاس وقت کی قلت ہوجانی چاہئے تھی۔ ہر مظاہرہ میں صحافتی نقطہ ٔ نظر سے ایک نہیں، کئی کئی خبریں موجود ہیں جو عوام تک پہنچنی چاہئیں۔ ان مظاہروں میں اتحاد، بھائی چارہ، یک جہتی، حب الوطنی، آئین دوستی اوراحترام انسانیت کی ٹھوس مثالیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ کولکاتا کے مذکورہ مظاہرہ میں ریستوراں مالکان کے حسن سلوک اور طرز فکروعمل کا جو نمونہ دیکھنے کو ملا ویسا ہی تقریباً ہر جگہ ہے مگر ایک دوسرے کیلئے پائے جانے والے اس جذبے کو جس طرح اُجاگر کیا جانا چاہئے، نہیں کیا جارہا ہے جبکہ یہ باہمی تعاون اُس باہمی تعلق کی عمدہ مثال ہے جو ہندوستانی عوام کے کردار کا جوہر اور  وصف ِ حقیقی ہے۔ 
 ’’الجزیرہ‘‘ نے اپنی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں صحافی اکشتا ناگپال نے تفصیل سے اُن خدمات کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جن میں نہ تو نام و نمو د کا کوئی جذبہ ہے نہ ہی روپے پیسے کا کوئی لالچ۔ اس میں جہاں سکھ برادران کی تنظیموں اور مسلم تنظیموں کے ساتھ ساتھ چند ایسے افراد کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے جو کسی تنظیم سے وابستہ نہیں ہیں مگر انفرادی حیثیت سے مظاہرین کیلئے فوڈ پیکیٹ، بسکٹ، پانی اور چائے کا انتظام کررہے ہیں۔ کیا یہ جذبہ رائیگاں جاسکتا ہے؟ کیا یہ خدمت بے سود ثابت ہوسکتی ہے؟ خدا نظر بد سے بچائے، ان مظاہروں سے خیرسگالی اور دوستی کے جذبۂ عظیم کو اظہار کا موقع مل گیا ہے اور عوام اس کا بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ قومی میڈیا میں معدودے چند کو چھوڑ کر بقیہ تمام صحافتی اداروں کا، یک جہتی اور دردمندی کی ایسی اسٹوریز کو نظر انداز کرنا صحافتی جرم  ہے۔ 
 مشہور ویب سائٹ ’’دی ڈپلومیٹ‘‘ پر یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے طالب علم سورج کمار تھوبے نے اپنی رپورٹ میں خیرسگالی اور یک جہتی کے اس جذبے کو خاص اہمیت دی اور لکھا کہ مظاہرہ گاہوں پر ’’ہم بھارت کے لوگ‘‘ ہیں، کوئی مسلم ہے نہ ہندو، ان (مظاہرین) کا کوئی نام ہے نہ چہرہ، یہ سب صرف مظاہرین ہیں جن کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ سی اے اے واپس لیا جائے۔ ان میں سے کئی لوگوں نے خود کو ’’چائے والا‘‘ بنالیا ہے تاکہ مظاہرہ میں شامل لوگوں کی خدمت بھی ہوتی رہے۔ ایسی تمام داستانیں اعلان کررہی ہیں کہ نفرت ہارے گی، محبت جیتے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK