Inquilab Logo

شاہین باغ کی خواتین کی عزیمت کو سلام

Updated: January 23, 2020, 9:15 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

جامعہ، علی گڑھ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ نے احتجاج کے ذریعے حریت فکر کی جو شمع جلائی اسے ملک کے دیگر تعلیمی اداروں کو بھی منور کیا ۔ یہی بات شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھی مسلم خواتین کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔

شاہین باغ میں احتجاج کرتی ہوئیں خواتین۔ تصویر: پی ٹی آئی
شاہین باغ میں احتجاج کرتی ہوئیں خواتین۔ تصویر: پی ٹی آئی

 سی اے اے ،این آر سی اور این پی آر کے خلاف شروع ہوئے آندولن کو مہینے بھر سے زیادہ ہوچکا ہے لیکن اس کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے نہ ہی اس کے آثار نظر آتے ہیں ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ یہ ایک بے ساختہ، خودرَو اور سیکولر آندولن ہے جس کا مقصد آئین کا تحفظ ہے۔ مظاہروں کی کمان طلبہ اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے تو دھرنے کو آٹھ سے اسّی سالہ خواتین نے رونق بخشی ہے۔ ان کا کوئی لیڈر نہیں نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس کے باوجود اسے ہرطبقے اور مذہب کے لوگوں کا تعاون حاصل ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ بی جے پی ریاستوں کو چھوڑ، دیگر تمام ریاستوں میں مظاہرے پرامن رہے۔ دوسری خصوصیت احتجاج کا وہ انوکھا طریقہ ہے جس نے نیشنلزم کا ڈھنڈورہ پیٹنے والی حکومت سے وہ ہتھیار چھین لیا جس کے ذریعے وہ اپنے مخالفین پر ملک دشمنی کا لیبل لگاتی ہے۔ مظاہروں اور ریلیوں میں شرکت کرنے والوں کے ایک ہاتھ میں ترنگا ہوتا ہے تو دوسرے میں گاندھی جی اور ڈاکٹر امبیڈکر کی تصویریں ہیں ۔ یہ لوگ آپ کو کہیں آئین کی تمہید پڑھتے ہوئے حکومت کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلاتے نظرآئیں گے تو کہیں قومی ترانہ گاتے ہوئے۔
 جامعہ، علی گڑھ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ نے احتجاج کے ذریعے حریت فکر کی جو شمع جلائی اسے ملک کے دیگر تعلیمی اداروں کو بھی منور کیا ۔ یہی بات شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھی مسلم خواتین کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے جن کی عزیمت کو دیکھتے ہوئے پورا ملک خواتین کے لئے شاہین باغ بن گیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب مسلم خواتین نے امورِ خانہ داری کے ساتھ قومی ذمہ داری سنبھالی ۔ انتظامیہ نے ان کے دھرنے کو اس لئے قابل اعتنا نہیں سمجھا کہ چند دنوں بعد تھک ہار کر یہ خواتین گھر بیٹھ جائیں گی ۔ ایسا نہیں ہوا بلکہ جو لوگ اسے ہندو مسلم ایشو بنانا چاہتے تھے انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دھرنے میں ہر نسل، مذہب اور ذات کی خواتین شامل ہو رہی ہیں اور ہرگزرتے دن کے ساتھ بھیڑ بڑھتی جارہی ہے۔ اس احساس کے ساتھ انتظامیہ اور مودی بھکتوں نے دھرنے پر روک لگانے کے لئے ٹریفک کی مشکلات کو بہانہ بناکر دہلی ہائی کورٹ میں دو بار درخواست دی کہ مظاہرین کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیا جائے۔ کورٹ نے ایسا کرنے سے انکارکردیا اور پولیس کو مصالحتی راستہ نکالنے کی ہدایت دی ۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیاجاچکا ہے۔اس درمیان پولیس نے دہلی کے لیفٹننٹ گورنر سے دھرنے پر بیٹھی خواتین سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ خواتین نے ملاقات تو کی لیکن اپنے موقف پر اڑی رہیں اور لیفٹننٹ گورنر سے درخواست کی ہے کہ وہ حکومت سے مذکورہ قانون کو واپس لینے کی سفارش کریں ۔ دہلی میں اگریہ ہورہا تھا تو یوپی میں اس کے وزیراعلیٰ نے طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں دھرنے پر بیٹھی خواتین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس کے ذریعہ ان کا سازوسامان ضبط کرلیا۔ بجلی گل کردی گئی۔ بیت الخلاء مقفل کردیئےگئے۔ جب اس پر بھی خواتین ٹس سے مس نہیں ہوئیں تو ۱۵۰؍ سے زائد خواتین کے خلاف معاملات درج کئے گئے۔ 
  کل ہند پیمانے پر ہونے والے مظاہروں اور دھرنوں کو حکومت بھلے ہی خاطر میں نہ لائے، مودی اپنی خاموشی سے آئی بلا کو ٹالنے والا رویہ اختیارکریں اور امیت شاہ اپنے بھاری بھرکم جسم اور ریمبو والی شبیہ کے ساتھ دھمکیاں دیتے پھریں کہ سی اے اے واپس نہیں لیاجائے گا، مگر یہ لوگ اندر ہی اندر گھبرائے ہوئے ہیں کیونکہ قانون کی حمایت میں ہونے والی چند ایک ریلیوں کا اس کے مخالفین اور ملک پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ بڑی ثابت قدمی کے ساتھ اپنے مقصد پر جمے ہوئے ہیں ۔ تعجب اس پر ہے کہ غیر بی جے پی ریاستوں کے ساتھ بی جے پی کی حلیف پارٹیوں نے بھی سی اے اے کے اطلاق اور این پی آر کی قواعد پر حکومت کو آنکھیں دکھانا شروع کردیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی بدنامی الگ اپنی قیمت وصول کررہی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری اور سیاحت متاثر ہوئی ہے۔ جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام قومی معیشت کی ابتری اور شرح نمو میں مسلسل کمی پر آکسفم اور آئی ایم ایف کے تبصروں نے کیا ہے جو ہندوستان کی گرتی معیشت کو سارے عالم کیلئے نقصان دہ بتارہے ہیں ۔ سچائی یہ بھی ہے کہ سی سی اے اور این پی آر کے بارے میں خود بی جے پی لیڈروں کا ذہن صاف نہیں ۔ آسام کے وزیر مالیات ہمانتا بسوا سرما شہریت عطا کرنے کے لئے مذہبی اذیت رسانی کو معیار بنانے کے اس لئے خلاف ہیں کہ اسے ثابت کرنا بے حد مشکل ہوگا۔ پارٹی کے نائب صدر چندربوس کی تجویز ہے کہ ’مذہبی اذیت رسانی‘ کی جگہ ’اذیت رساں اقلیتیں ‘ کی اصطلاح استعمال کی جائے۔ وہ گاندھی جی سے متعلق مودی اور امیت شاہ کے اس دعوے کو بھی جھٹلاتے ہیں کہ گاندھی جی نے پاکستان میں آباد مذہبی تشدد کا شکار ہندوؤں کو شہریت دینے کی بات کبھی نہیں کی۔ وہ مذہب کی تفریق کے بغیر ہر ستم رسیدہ شخص کو شہریت دینے کے حق میں تھے۔ این پی آر کے بارے میں لیڈروں کے بیانات میں تضاد ہے۔ کچھ اس میں طلب کردہ معلومات کو لازمی قرار دیتے ہیں تو کچھ اختیاری۔اب چونکہ ۱۴۴؍ عریضوں کے ساتھ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، فیصلہ آنے میں وقت لگے گا۔ عدالت نے تمام عریضوں کو حکومت کے پاس بھیجنے کا حکم دے کر چار ہفتوں میں جواب طلب کیا ہے۔ جواب ملنے اور مختلف فرقوں کے بیانات اور بحث کے بعد ہی عدالت کسی فیصلے پر پہنچ سکے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ چندبرسوں میں عدالت کی طرف سے دیئے گئے کچھ فیصلے تنازع کا شکار ہوگئے جس سے اس کا وقار واعتبار مجروح ہوا ۔ سی اے اے غیرآئینی اور مذہب کی بنیادپر تفریق کرنے ہے جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ اس میں شہریت چھیننے کی نہیں دینے کی بات کہی گئی ہے۔ عدالت کا کام آئین کی توضیح وتشریح ہے اسلئے فیصلے کا انتظار کرنا ہو گا۔ اسٹے نہ ملنے پر شاہین باغ کی خواتین کا ردعمل سنہری حرفوں میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ چار ہفتے تو کیا چار مہینے بھی اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے انتظار کرسکتی ہیں ۔ ان خواتین کی عزیمت کو ہمارا سلام ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK