Inquilab Logo

فکر بدلیں تو زمانے کو مسخر کرلیں

Updated: February 22, 2020, 2:47 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

معاشرہ میں مقابلے کئی طرح کے ہوتے ہیں اور پروگرام بھی کئی طرح کے۔ان میں نئی نسل کو موقع دینا یا اُسے آگے لانا ضروری ہوگیا ہے اس لئے معاشرہ جن مقابلوں یا پروگراموں کا انعقاد کرتا ہے اُن میں نئے دور کی مناسبت سے تبدیلی لانا چاہئے۔ یہ تقریر کا نہیں، مباحثہ کا اور روایت پسندی کے باوجود جدت طرازی کا دور ہے۔

طلبہ کا ایک گروپ امتحان کے بعد سوالیہ پرچے پر گفتگو کرتے ہوئے ۔ تصویر : پی ٹی آئی
طلبہ کا ایک گروپ امتحان کے بعد سوالیہ پرچے پر گفتگو کرتے ہوئے ۔ تصویر : پی ٹی آئی

آپ نے تنویر منیار کا نام سنا ہے، شہباز منیار کا نام نہیں سنا ہوگا۔ اگر مَیں کہوں کہ یہ صاحب (جو نوجوان ہیں) چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں تو قارئین سمجھیں گے کہ شاید مجھے کوئی مذاق سوجھا ہے۔ کچھ نوجوان ایسا نہ سمجھتے ہوئے گوگل بابا کی مدد لیں گے اور ان سے گزارش کریں گے کہ چھتیس گڑھ کے اب تک کے تمام وزرائے اعلیٰ کی فہرست فراہم کریں۔ فہرست ملنے پر معلوم ہوگا کہ شہباز منیار نامی وزیراعلیٰ، چھتیس گڑھ میں تو کیا، کسی دوسری ریاست میں بھی نہیں ہوا ہے۔ تب قارئین کو یقین ہوجائیگا کہ مَیں واقعی مذاق کررہا ہوں۔ 
 حقیقت یہ ہے کہ ریاست چھتیس گڑھ میں اس نام کا وزیراعلیٰ ہوا بھی ہے اور نہیں بھی۔ دیکھئے کیسے؟
 یہ اگست ۲۰۱۹ء کا واقعہ ہے۔ شہباز منیار نامی ۲۶؍سالہ نوجوان کو وہاٹس ایپ پر ایک پیغام موصول ہوا جس میں درج تھا کہ یوتھ کانگریس ’’ویک اَپ مہاراشٹر‘‘ نامی ایک مقابلہ منعقد کررہی ہے جس کیلئے ۱۶؍ سے ۳۰؍ سال کے نوجوانوں کو آمادہ کیا گیا ہے کہ وہ مہاراشٹر کے تعلق سے اپنا ویژن ایک مختصر ویڈیو کے ذریعہ پیش کریں۔ مہاراشٹر کے متعدد علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں انٹریز موصول ہوئیں۔ مقابلہ کے جن شرکاء کے ویڈیوز منتخب کئے گئے اُن سے کہا گیا کہ وہ ایک پریزنٹیشن تیار کریں جس کا جائزہ ججوں کاایک پینل لے گا اور پھر جو لوگ اس پریزنٹیشن کے ذریعہ کوالیفائی ہوں گے اُن کا انٹرویو لیا جائیگا۔ یہ جان کر شہباز کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا کہ انٹرویو کیلئے منتخب ہونے والے ۶۳؍ نوجوانوں میں ایک نام اُن کا بھی ہے۔ تمام ۶۳؍ نوجوانوں کو بامبے اسٹاک ایکس چینج کی عمارت میں مدعو کیا گیا جہاں کے سینٹرل ہال میں بالکل ویسا ہی منظر تھا جیسے مہاراشٹر اسٹیٹ اسمبلی کا ہوتا ہے۔ شہباز کو آزاد رُکن اسمبلی کا کردار نبھانا تھا۔ انہوں نے اپوزیشن کا حصہ بن کر ’اسمبلی‘ میں اپنانقطۂ نظر پیش کیا۔ جب یہ ’اجلاس‘ ختم ہوا تو ایک بار پھر شہباز کو خوش خبری ملی۔ اُنہیں (اپنے معروضات بہترطور پر پیش کرنے کے عوض) تمام شرکائے مقابلہ میں سب سے زیادہ نمبرات حاصل ہوئے تھے۔ 
 شہباز نے اپوزیشن کی صفوں میں شامل ایک آزاد ایم ایل اے کی حیثیت سے اپنا یہ خواب بیان کیا تھا کہ وہ مہاراشٹر کو ایک پُرامن اور ترقی پسند ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جو جمہوری قدروں کے ساتھ ترقی کرے، تعلیم اور صنعت کاری کا اعلیٰ معیار قائم کرے اور سائنس و تکنالوجی کی دوڑ میں دوسری ریاستوں پر سبقت لے جائے۔ اُنہوں نے ایک ایسی ریاست ِ مہاراشٹر کا ویژن پیش کیا جس میں کھیر لانجی اور کوپرڈی جیسے سانحات نہ ہوں اور جہاں، نہ تو کسان خود کشی کریں نہ ہی ممبئی جیسے شہر سے آگ کے شعلے اُٹھیں۔ یہ ایک ایسی ریاست ہو جہاں طبقاتی کشمکش نہ ہو، جو سیکولر ہو اور جہاں ہر فرقے اور طبقے کے لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ 
 شہباز سرفہرست رہے جس کے انعام کے طور پر دیگر چار انعام یافتگان کے ساتھ اُنہیں رائے پور (چھتیس گڑھ کی راجدھانی) لے جایا گیا۔ یہی وہ دن (۲۴؍ ستمبر۱۹ء) تھا جب شہباز کو یک روزہ علامتی وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ پہلے دن اُن کی ملاقات بھوپیش بگھیل سے کرائی گئی جو ریاست کے حقیقی وزیر اعلیٰ ہیں جبکہ دوسرے دن ریاستی چیف سیکریٹری کے ساتھ اُن کی ایک گھنٹہ طویل گفتگو ہوئی جس کے دوران اُنہوں نے مشورہ دیا کہ عوامی تقسیم کاری نظام (پی ڈی ایس)، صحت عامہ اور تعلیم کیلئے کیا کیا، کِیا جانا چاہئے۔ اس دوران شہباز کو متعدد سرکاری محکموں اور وزارتوں کا بھی دورہ کرایا گیا۔ اپنی یہ روداد بیان کرتے ہوئے شہباز نے ایک معاصر انگریزی روزنامہ کو بتایا تھا کہ اس واقعہ کے بعد اُن کے آبائی وطن (امبا جوگئی ضلع بیڑ) میں اُن کے والدین کو، جو درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں، وزیر اعلیٰ کے والد اور وزیر اعلیٰ کی والدہ کہہ کر بلایا جانے لگا۔ 
 دیکھا آپ نے؟ شہباز منیار کس طرح چھتیس گڑھ کے یک روزہ علامتی وزیر اعلیٰ بنے!  وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اُن کا نام چھتیس گڑھ کے وزرائے اعلیٰ کی فہرست میںبھلے ہی موجود نہ ہو،اُن تمام لوگوں کے ذہنوں میں موجود اور محفوظ رہنا چاہئے جو اس ’’خاکستر‘‘ میں شہباز جیسی ’’چنگاری‘‘ کا خواب دیکھتے ہیں اور اپنے نوجوانوں نیز طلبہ کی کامیابیوں سے روحانی مسرت حاصل کرتے ہیں۔ 
 شہباز منیار نے کیا کیا؟ اپنی صلاحیت اور ذہانت کو بہتر طور پر بروئے کار لانے کی سعی۔ فی الحال وہ آئی اے ایس کی تیاری کررہے ہیں اور ممکن ہے کسی دن وہی عہدہ حاصل کرلیں جس عہدہ پر فائز ایک شخص (چیف سکریٹری) سے تبادلۂ خیال کا اُنہیں رائے پور میں موقع ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے ’’خاکستر‘‘ میں ایسی ہزار ’’چنگاریاں‘‘ ہیں مگر نہ تو وہ پوری طرح خود آگاہ ہوسکی ہیں نہ ہی ہمارا  معاشرہ اُن کی ذہانت اور صلاحیت کی شناخت اور نشوونما کا حق ادا کرپاتا ہے۔ 
 معاشرہ تو اپنے نوجوانوں (اور اُن کی صلاحیتوں) سے اس حد تک بے خبر رہا ہے کہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے جاری مظاہروں کے دوران جب کئی نوجوان چہرے منصہ شہود پر آئے تب اُنہیں دیکھ کر اور سن کر بہت سوں نے دانتوں تلے اُنگلیاں دبا لیں کہ ارے، یہ تو ہمارے بچے ہیں! 
 معاشرہ اس لئے انگشت بدنداں ہے کہ اس نے اپنی نئی نسل کو نظر انداز کرنے کا گناہ کیا اور اب، جب یہ صلاحیتیں ٹی وی اور ویڈیوز کے ذریعہ اپنا تعارف پیش کررہی ہیں، حب الوطنی اور وطن دوستی کی ناقابل تردید دلیلیں دے رہی ہیں، اپنے احساسات و جذبات کا بہتر طور پر اظہار کررہی ہیں اور یہ سمجھانے کیلئے کوشاں ہیں کہ ہم بھی اس سرزمین کا قیمتی اثاثہ ہیں اور اس اثاثہ پر یعنی ہم پر بھی ناز کیا جانا چاہئے تو محسوس ہورہا ہے کہ ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ ہم اپنے خیالات اتنی بے باکی وبے خوفی کے ساتھ بیان نہیں کرسکتے مگر کبھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے بچے اتنے سلیقے سے اپنی بات رکھنے کے اہل ہیں۔ 
 نئی نسل کے تعلق سے بڑوں کی اس بے خبری کا سبب یہ ہے کہ آخر الذکر نے اول الذکر سے شفقت اور محبت تو کی مگر شفقت و محبت کی اس کیاری میں غنچہ ہائے تربیت و قربت نہیں کھلائے۔ اُن کی جسمانی پرورش تو کی مگر ذہنی و نفسیاتی پرورش کی فکر نہیں کی۔ عصری موضوعات پر اُن سے تبادلۂ خیال نہیں کیا۔ اس کے  باوجود معاشرہ اگر یہ دیکھ رہا ہے کہ ہمارے نوجوان اتنے باصلاحیت ہیں تو، اب بھی موقع ہے۔ کیوں نہ ہم ہی اُنہیں وقتاً فوقتاً موقع دیں اور اپنی سرپرستی میں اُنہیں پھلتا پھولتا دیکھیں؟ آخر نوجوانوں کو ہم کب تسلیم کرینگے؟
 مسئلہ یہ ہے کہ ہم نہ تو کچھ نیا سوچنا چاہتے ہیں نہ ہی (اپنے علاوہ) کسی اور کو موقع دینے کی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔  بچے بڑا نام کریں اس کیلئے ہمیں اپنا دل بھی تو بڑا کرنا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK