Inquilab Logo

نعروں کا بدلتا دَور

Updated: February 16, 2020, 4:03 PM IST | Prof Syed Iqbal

ماضی میں نعرے جس خلوص سے بنتے تھے ،اتنے ہی خلوص سے بلند بھی کئے جاتے تھے۔ اب نعروں کا مقصد مخالف پر کیچڑاچھالنا ہے۔ چونکہ نعرے لگانے کی قیمت دی جاتی ہے اسلئے بیروزگار افراد کی بھیڑ دوتین سوروپوں کی لالچ میں جہاں چاہیں جمع ہوجاتی ہے۔ ہاتھوں میں بینر اٹھائے یہ پیشہ ور افراد دل سے کسی پارٹی یا نظریئے کا حصہ نہیں ہوتے ، صرف خانہ پری کیلئے آتے ہیں ۔ وقت کے ساتھ پارٹیوں کی سیاسی اخلاقیات بھی نچلی سطح پر آچکی ہیں

انتخابی جلسوں میں اب  نعرے اور سلوگن اپنی حمایت میں کم ، دوسروں کی دل آزادی میں زیادہ لگتے ہیں
انتخابی جلسوں میں اب نعرے اور سلوگن اپنی حمایت میں کم ، دوسروں کی دل آزادی میں زیادہ لگتے ہیں

نعروں کا چلن آزاد ی کی جنگ کے دوران شروع ہوا تھا۔ مسلم آبادی نے علمائے دین کے فتوؤں پر عمل کرتے ہوئے ۱۸۵۷ ء  ہی میں  انقلاب کی تیاری شروع کردی تھی۔ مسلمانوں کیلئے کسی عالم دین کا یہ حکم کافی تھا کہ انگریز غاصب ہے، مقامی آبادی کی زمینیں ہڑپ کرکے ان پر ناحق ظلم کررہا ہے اور بڑی عیاری سے ہندوستان کے عوام کو غلام بنارکھا ہے۔ ایسے حاکم کا حکم نہ مانا جائے اوراسے ہر طرح سے مجبور کیاجائے کہ وہ یہ ملک چھوڑ کر واپس چلا جائے تاکہ یہاں ایک بار پھر ہم اپنی حکومت قائم کرسکیں۔ اس وقت نہ کوئی قیادت تھی، نہ تنظیم۔ بس ایک جذبہ تھا، جوش ولولہ اور انگریزوں کے خلاف نفرت۔ صد افسوس کہ انگریزوں کے جدید اسلحہ کے سامنے ہماری تلواریں بے بس ہوگئیں اور انقلاب میں حصہ لینے والے مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ  بنایا گیا۔ دہلی سے پشاور کے راستوں میں ہر جگہ درختوں پر مسلمانوں کی لاشیں ہفتوں لٹکتی رہیں بلکہ انگریزوں کو چہرے بشرے سے کوئی بھی شخص مسلمان نظر آتا تو وہ اس پر مقدمہ چلائے بغیر پھانس دے دیتے تھے۔
  یہ سانحہ اندوہناک ضرور تھا مگر مسلمانوں کی یہ قربانیاں بیکار نہیں گئیں۔ جو چنگاری ۱۸۵۷ء  میں بھڑکی تھی وہ ۱۹۴۷ء میں شعلہ بن کر ابھری اور انگریزوں کو بالآخر اس دیس سے جانا ہی پڑا۔ آزادی کے بعد ہندوستانی شہریوں کو ووٹ کا حق ملا جو دستور ساز کمیٹی  اور پارلیمنٹ کا تاریخی فیصلہ تھا ۔ نتیجے میں ہر شہری کو اپنا نمائندہ چننے کا حق حاصل ہوا۔ اب وہ اپنے حق کا استعمال کرکے جمہوریت کی بنیادی مستحکم کرسکتا تھا۔ اس فیصلے کے سبب ہر پانچ سال میں الیکشن منعقد ہونے لگے اور حکومت بنانے کیلئے سیاسی پارٹیوں میں رسّہ کشی شروع ہوگئی۔ کانگریس پارٹی نے اس وقت جا بجا یہ لکھا تھا کہ ’’اپنا قیمتی ووٹ دے کر راشٹریہ پریم کا پریچے کروائیں‘‘ نہرو نے اپنے الیکشن میں جو نعرہ دیا تھا، وہ بھی اس شخص کی خوداعتمادی کا مظہر تھا ’’ ہم آتم نر بھر بھارت بنائیں گے ‘‘۔ ان دنوں کانگریس نے دہلی میں ۳۹؍ سیٹیں جیتی تھیں اور جن سنگھ اور سوشلسٹ پارٹی کے حصہ میں صرف دو دوسیٹیں آئی تھیں۔ اگلے الیکشن میں جن سنگھ نے نہروپر براہ راست حملہ کرتے ہوئے نعرہ دیاتھا ’’ واہ رے نہروتیری موج = گھر میں حملہ، باہر فوج‘‘ ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ کے بعد کانگریس کی مقبولیت میں کمی آنے لگی اورکانگریس بھی ایک عام  سی سیاسی پارٹی بن کر رہ گئی۔ لال بہادر شاستری  نے ’’جے جوان +جے کسان‘‘ کا نعرہ تو دیا مگرکانگریس بڑی مشکل سے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرپائی۔ نہرو کے بعد مسزاندرا گاندھی آئیں جنہیں اپوزیشن گونگی گڑیا کہہ کر پکارتی رہی مگراپنی وزارت کے دور میں وہ واحد ’ مردآہن‘ کی طرح یاد کی گئیں۔ محترمہ کا ’ غریبی ہٹاؤ‘  نعرہ یوں تو فریب کاری کا حسین مرقع تھا تاہم اس نے مسز گاندھی کو الیکشن جتانے میں اہم رول ادا کیا۔ جواباًجن سنگھ  نے بھی کچھ نعرے دیئے۔  اس کا ایک نعرہ تھا ’’ جن سنگھ کو ووٹ دو، بیڑی پینا چھوڑدو+ بیٹری میں تمباکو ہے ، کانگریس والا ڈاکوہے‘‘ لیکن یہ نعرہ ووٹرز کو رجھانہ سکا اور مسز اندراگاندھی الیکشن جیتتی رہیں.... لیکن کانگریس کا زوال شروع ہوچکا تھا۔ اچانک نونرمان سمیتی کے جھنڈے تلے جے پرکاش نارائن نے ’سمپورن کرانتی ‘ کا نعرہ دیا  اور لالو پرسادیادو، ملائم  سنگھ یادو اور شرد یادو کے نعرے ’’ اندرا ہٹاؤ+ دیش بچاؤ‘‘ سے سارا ملک گونجنے لگا۔ اس دوران جنتا پارٹی کی تشکیل ہوئی اوراس نے بھی یہی کچھ دوہرایا ’سنیاسن چھوڑو+ جنتا آئی ہے ‘ .... لیکن مسز گاندھی نے کسی کی ایک نہیں سنی اورایمرجنسی نافذ کردی۔ مخالفین کو جیل میں ٹھونسا اورآمریت پر اُتر آئیں۔  پھر وہی انجام ہوا جو ہر آمر کا ہوتا ہے۔ محترمہ الیکشن ہاریں اور جنتا پارٹی کی جیت ہوئی ۔
 بعد ازاں جب راجیوگاندھی وزیراعظم بنے تو وہ بھی کوئی خاص کام نہیں کرسکے بلکہ وی پی سنگھ نے ان پر بوفورس کی دلالی کا الزام لگاکر کانگریس سے حکومت چھین لی۔ وی پی سنگھ کا نعرہ تھا ’’ وی پی سنگھ کا ایک سوال + پیسہ کھایا کون دلال‘‘ اوراس نعرے پر توکانگریسی خوب بلبلائے ’’گالوں پر جولالی ہے + توپوں کی دلالی ہے ‘‘ وی پی سنگھ کے چاہنے والے یہ نعرہ بھی لگاتے رہے ’’راجہ نہیں فقیر ہے +  دیش کی تقدیر ہے۔ ‘‘ نعرہ دینے میں علاقائی پارٹیاں بھی کسی سے کم نہیں ۔ شیوسینا نے ۱۹۶۷ء  کے الیکشن میں ’’ بجاؤپنگی +ہٹاؤ لنگی ‘‘ کا  نعرہ دیا تھا تو کانشی رام نے بہوجن سماج پارٹی کا تعارف کراتے ہوئے ’’تلک ، ترازواور تلوار + ان کو مارو جوتے چار‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ ان کے مقابلے میں ترنمول کانگریس کا بے حد مثبت نعرہ تھا ’’ ماں، ماٹی ، مانُش‘‘ اور لالوجی کے بہاری ووٹوں کا نعرہ ’’ جب تک رہے گا سموسے میں آلو + تب تک رہے گا بہارمیں لالو‘‘۔
  ہندوستانی سیاست کے مشاہدین  جانتے ہیں کہ یہ نعرے کتنے کارگر ثابت ہوئے۔ یہ نعرے کبھی پارٹی لیڈر کی اُپج ہوتے ہیں اورکبھی یہ نعرے پارٹی کے ذہین کارکن بناتے ہیں۔ اب بھگت سنگھ ایسے وطن پرست نہیں رہے جو ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ دیں، نہ سبھاش چندر بوس کے ساتھی عابد حسن ایسے مخلص کارکن ہیں جنہوںنے ’ جے ہند‘ کا نعرہ دیا تھا۔ اب تو پارٹیوں میں وفادار غلاموں کی فوج ہے جو کہتی ہے ’’ جب تک سورج چاند رہے گا+ اندرا تیرا نام رہے گا‘‘ یا ایسے فرقہ پرست ہے جن کا نعرہ ہوتا ہے ’’ سو گندھ رام کی کھاتے ہیں +  مندر وہیں بنائیں گے‘‘ بلکہ آج کل تو نعرے بازی کا کام پیشہ ور ایڈوٹائزنگ  ایجنسیاں کرنے لگی ہیں جو مناسب ’ حق محنت ‘ پر سارا الیکشن ڈیزائن کرتی ہیں۔
  اٹل بہاری  جی نے ایک عالمی ایجنسی  (Grey World wide)  کو ۲۰۰۴ء کا الیکشن سونپا تھا جس نے بی جے پی کیلئے ’انڈیا شائنگ‘ کا نعرہ دیاتھا۔ افسوس یہ نعرہ صدا بہ صحرا ثابت ہوا اور بی جے پی شکست سے دوچار ہوئی۔ مودی جی نے ایک نہیں، تین ایجنسیوں کو یہ کام سونپا (سوہواسکوائر، میڈیسن ورلڈ اور اواینڈ ایم ) جنہوںنے ۲۰۱۴ء کے الیکشن کیلئے نہایت موثر نعرہ دیا ’’اب کی بار +مودی سرکار‘‘۔ اٹل جی نے الیکشن مہم کیلئے سوکروڑ روپے خرچ کئے تھے تو مودی جی نےعوام کے تین  سو کروڑ روپے ان ایجنسیوں کی جھولی میں ڈال دیئے۔ اس کام کیلئے پرشانت کشور نامی ایک صاحب بھی مشہور ہیں کیوں کہ انہوںنے بھی اپنی ٹیم کے تعاون سے گجرات میں مودی جی کو جتایا تھا، بہار میں نتیش کمار کو ، جگ موہن ریڈی کو آندھرا پردیش میں اورحال ہی میں کیجریوال کو دہلی میں۔ ان کی خدمات اُدھو ٹھاکرے نے بھی حاصل کی تھیں اور سنا ہے ممتا بنرجی نے بھی اپنے الیکشن کی ذمہ داری انہیں ہی سونپی ہے۔
  مسئلہ یہ ہے کہ اب الیکشن صرف اشتہاروں سے نہیں لڑے جاتے۔  وہ دن ہوا ہوئے جب بیل گاڑی کے دونوں طرف اشتہار لگائے جاتے تھے اور بیل گاڑی شور کرتے ہوئے دیہاتوں میں گھوما کرتی تھی یا کبھی کوئی کارکن موٹرمیں بیٹھ کر لاؤڈ اسپیکر سے چیخ چیخ کر پارٹی کی مہم چلاتا  تھا۔ اب تو پولیٹکل مارکیٹنگ ہونے لگی ہے ۔ ایجنسی سار ا الیکشن خود ڈیزائن کرتی ہے جس میں آڈیو ویژول کے ساتھ فیس بک ، انسٹاگرام ،  ٹیوٹر اور وہاٹس ایپ پر ایسا ہنگامہ کیاجاتا ہے کہ بھولے بھالے ووٹر ہر جھوٹ کو سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ بی جے پی کے متعلق  تو یہ بات عام ہے کہ اس کے  حامیوں نے ٹیلی ویژن چینل خرید لئے ہیں اور بڑی عقیدت سے مودی جی کا پرچار کرتے ہیں لہٰذا نعرہ بازی اب صرف الیکشن کی پبلک میٹنگوں میں ہوگی اور نعرے بھی کارکنان کو پہلے سے دیئے جائیں گے۔ ایک زمانہ تھا جب صرف ایک نعرہ پارٹی کی کامیابی کی ضمانت بن جاتا تھا۔ یہ بات اب تاریخ کا حصہ ہے کیونکہ اب الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے صرف عوام سے تعلق پیدا کرنا کافی نہیں ہوتا۔
  کن کن ذرائع سے ان کے ذہن کو متاثر کیاجاسکتا ہے، یہ جاننا بھی ضروری ہے۔ اس کیلئے تخلیقیت درکار ہے اور وہ یہ ایجنسیاں فراہم کرتی ہیں۔ وہی طے کرتی ہیں کہ امیدوار کیسے کپڑے پہنے گا، کون  سی عینک لگائے گا اور کیا بولے گا؟  اگر کوئی لیڈر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے عوام کو متاثر نہیں کرپاتا تو عین ممکن ہے کہ وہ الیکشن بھی نہ جیت پائے۔ غرض سارے ہنگامے میں ’نعرہ بازی‘ صرف ایک عنصر ہے، کسی پارٹی کی شناخت نہیں۔
  کسی پارٹی کی شناخت اب نعروں سے نہیں ، پیسوں کی ریل پیل سے بنائی جاتی ہے۔ کس پارٹی نے الیکشن پر کتنا خرچ کیا ، ووٹرز کتنے پیسے میں خریدے اور میٹنگوں اور روڈ شوز میں کتنی بھیڑ جمع کی ، یہ کامیابی کا نسخہ ہے۔ ماضی میں نعرے جس خلوص  سے بنتے تھے ،اتنے ہی خلوص سے بلند بھی کئے جاتے تھے۔ اب نعروں کا مقصد مخالف پر کیچڑاچھالنا ہے۔ چونکہ نعرے لگانے کی قیمت دی جاتی ہے اسلئے بیروزگار افراد کی بھیڑ دوتین سوروپوں کی لالچ میں جہاں چاہیں جمع ہوجاتی ہے۔  ہاتھوں میں بینر اٹھائے یہ  پیشہ ور افراد دل سے کسی پارٹی یا نظریئے کے حصہ نہیں ہوتے ، صرف خانہ پری کیلئے آتے ہیں اوراپنا کام کرکے چلے جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ پارٹیوں کی اپنی سیاسی اخلاقیات اتنی نچلی سطح پر آچکی ہیں کہ اخبار پڑھتے ہی افسوس ہونے لگتا ہے۔ اپنے اقتدار کے لئے نفرت کی سیاست کرنا، جھوٹ درجھوٹ بولنا، افواہیں پھیلانا اور قصداً ایسے نعرے لگانا کہ مخالفین کو ذلیل کیاجاسکے ، الیکشن کی روایت بن چکی ہے۔ اسلئے جب سونیا گاندھی کسی کو ’موت کا سوداگر‘ پکارتی ہیں اور جواباً ’کانگریس مکت بھارت‘ کا نعرہ لگتا ہے تو ہمیں تعجب نہیں ہوتا۔ جب بی جے پی کا ایک وزیر اپنے سامعین سے  ’’دیش کے غداروں کو + گولی مارو...‘‘ کہلواتے  ہیں اورایک سیاستداں شاہین باغ میں احتجاج کرتی خواتین کے متعلق ناقابل بیان بکواس کرتا ہے تب بھی ہمیں تعجب نہیں ہوتا۔
  ایک سروے کے مطابق یوپی اے کے دس سالہ دور میں تقریباً ۸۰؍ کے قریب قابل اعتراض باتیں کہی گئی تھیں جبکہ بی جے پی کے پہلے دور میں۱۹۰؍ اور دوسرے دور میں ۹۷؍ ناقابل بیان نعرے دیئے جاچکے ہیں۔ ہمارے پرکھوں نے آزادی کی جنگ اس کیلئے تو نہیں لڑی تھی اور نہ یہ سوچا تھا کہ مستقبل کے قائدین اس سطح پر آکر سیاست کریں گے۔ اگر اس روش کو عام کرنا مقصد ہے تب کنہیاکمار شاید ٹھیک ہی کہتے  ہیں کہ ہم ’لے کے رہیں گے آزادی، اس بدامنی سے ، بھوک اور غربت سے، تشدد سے ، کرپشن سے ، جہالت سے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK