Inquilab Logo

عزیز طلبہ! بیوروکریٹس کی مدد سے ہمارے سیاست داں تعلیمی نظام اور معیشت و معاشرت کی سمتیں طے کرتے ہیں

Updated: April 21, 2024, 3:54 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

یوپی ایس سی میں انٹرویو صرف ۲۷۵؍ مارکس کا ہے جس کے دوران ہماری داڑھی، ٹوپی یا حجاب نمایاں ہورہے ہیں جبکہ تحریری امتحان ۱۷۵۰؍ مارکس کا ہے۔ تحریری امتحان اس میں ہمیں ۱۴۰۰؍ تا ۱۵۰۰؍ مارکس حاصل کرنے سے کس نے روکا ہے؟ یہاں توتعصب کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے عام انتخابات ہر لحاظ سے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں البتہ گزشتہ دہائی میں اس جمہوریت کو ہر طرح سے داغدار کرنے کی جو منظم کوششیں ہوئیں اور شر پسندوں کو اس میں کامیابی بھی ملی، اس لحاظ سے۲۰۲۴ ء کے انتخابات بے حد اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں۔ ۱۸؍ سے ۲۵؍ سال کے طلبہ اس ملک میں جمہوریت کیلئے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں اور اپنی بیداری سے وہ بزرگوں کو آگاہ کرسکتے ہیں کہ اس ملک کی جمہوریت کی بقا کیوں ضروری ہے۔ اس کیلئے تعلیمی نظام، معیشت و معاشرت کی صورتِ حال کا جائزہ ضروری ہے۔ 
 آج کا ریسرچ اور پوسٹ گریجویشن سطح کا ہی نہیں بلکہ ہائی اسکول اور جونیئر کالج لیول کا طالب علم بھی سوچ رہا ہے کہ اس ملک میں بالعموم اور تعلیمی نظام میں کام کم، نعرے بازی زیادہ ہو رہی ہے۔ تعلیمی ادارے کی تقریبات اور تقسیم اسناد کے اجلاس بھی میں ہمارے نیتا صرف بھاشن کرتے ہیں۔ پھر وہ سوچتا ہے کہ یہ سارے نیتا اس قدر گہری فکر والی باتیں کہاں سے لاتے ہیں کہ ہر کوئی سوامی وویکاننداورجے کرشنا مورتی جیسا مفکر دکھائی دیتا ہے۔ غور و فکر کرنے پر اس پر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ نیتاؤں کا یہ ٹولہ ملک کی نہیں بلکہ عالمی سطح کی بڑی بڑی ایڈور ٹائزنگ ایجنسیوں کو کروڑوں روپے دے کر ان سے بھاشن لکھواتے ہیں۔ دل لبھانے والے جاذب نعرے ان سے لکھوا لیتے ہیں۔ انھیں رَٹ کر وہ مائک سنبھالتے ہیں اور عوام النّاس کو باور کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ یہ سارے سیاسی نیتا زبردست مفکر ہیں۔ 
آج کا نوجوان ان ہتھکنڈوں کو بخوبی سمجھتا ہے اُسے معلوم ہے بلکہ اس کے پاس پورے اعداد و شمار بھی ہیں کہ نام و نہاد ’ڈیجیٹل انڈیا‘ میں اب بھی نہ جانے کتنے ہزار اسکولیں درخت کے نیچے چل رہے ہیں جو بارش کے چار ماہ بند رہتے ہیں۔ ’ناری شکتی‘ کے نعرے کی حقیقت بھی اُسے معلوم ہے کیونکہ ہر صبح اخبار میں اُسے ایک ’ نِر بھیا‘ کی کہانی پڑھنے کو ملتی ہے۔ اس کے اسکول اور کالج کی دیواروں پر حکمرانوں نے نعرے لکھے ہیں۔ ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘جبکہ اس نعرے کی حقیقت کیمپس ہی میں دکھائی دے گی۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ تعلیمی نظام میں بھی نعرے بازی ہو رہی ہے۔ اشتہاری ایجنسیاں ان نیتاؤں کیلئے نعرے لکھنے میں مصروف ہیں لہٰذا مستقبل قریب میں اب کی بار ۴۰۰؍پار، سے بھی زیادہ کئی نعرے ہمارے طلبہ، والدین و اسا تذہ کو سُنائی دیں گے۔ 

یہ بھی پڑھئے: تعلیمی نظام اور اِنسانی وسائل کی تباہی پر طلبہ کے ساتھ ہی والدین بھی بیداررہیں

 اِن حالات میں ہماری منصوبہ بندی کیا ہو اور کیسی ہو؟
 (۱) آج بھی اس ملک میں سیکو لر افراد کی کمی نہیں، جو مذہبی رواداری میں یقین رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں ثبوت یہ ہے کہ ہر نا انصافی پر یہ افراد و ادارے کھل کر احتجاج کر رہے ہیں۔ عدالتعظمیٰ سمیت کئی عدالتوں میں حکومت کے سارے فریب اور ڈھکوسلوں کوبے نقاب کرنے والے کئی افراد و ادارے اپنی جان و مال کی پرواہ کئے بغیر ہر لحاظ سے اور ہرسطح پر جد و جہد کر رہے ہیں۔ یہ دلیر افراد کسی ایک فرقے سے تعلق نہیں رکھتے، سوشل میڈیاپریہ افراد مسلسل کوششیں کر رہے ہیں اس بنا پر جو میڈ یا بِکا ہوا ہے وہ سب بے نقاب ہو رہا ہے۔ ہمیں ان بظاہر مٹھی بھر غیر جانبدار افراد کو اپنے ساتھ لینا ہے اور اس ملک میں اپنے اور سیکولرزم کی بقا کی جنگ لڑنی ہے۔ 
 (۲) نو جوانو! کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ہر شر کے خلاف ہمارا احتجاج کچھ مختلف اور مثبت ہونا چاہئے، مثلاً دابھولکر، پانسرے اور گوری لنکیش کے قتل پر ملک بھر میں ہماری قوم کے کم و بیش سو طلبہ یہ اعلان کریں کہ وہ ماس میڈیا کو اپنا کریئر بنائیں گے۔ قلم ہی کو اپنا ہتھیار بنائیں گے، خواہ کتنا بھی دم ہو بازوئے قاتل میں۔ ہم پیچھے ہر گز نہیں ہٹیں گے۔ قلم کا ایک سپاہی گرے گا تو ہم ۱۰۰؍ سپاہی کھڑے کر دیں گے۔ یقین رکھئے ناانصافی کا یہ اندھیرا زیادہ دیر نہیں ٹکے گا۔ شرپسندوں کو آج اور بعد میں بھی صرف رُسوا ہی ہونا ہے۔ 
 (۳)۹۳۔ ۱۹۹۲ء کے ممبئی کے فسادات میں صرف ظلم ہوا البتہ باندرہ کے ایک علاقے میں ایک مسلم آئی پی ایس افسر کی وجہ سے وہاں کوئی نا انصافی نہیں ہوئی۔ یہ فرق پڑتا ہے صرف ایک آئی پی ایس افسر کا کہ سارے کانسٹیبل، سارے افسران کی انگلیاں رائفل کی لبلبی پر ٹِکی ہوئی تھیں مگر آئی پی ایس افسر کا شوٹ کا آرڈر نہیں تھا اسلئے کوئی خون خرابہ نہیں ہوا۔ اس طاقت کا اندازہ ہمیں کب ہو گا؟ کب ہم اس ضمن میں ہماری ہر بستی اور ہر محلے میں مہم چھیڑیں گے۔ ابھی بھی یہ راستے پُر خار نہیں ہیں کیونکہ تحریری امتحانات کے دو مراحل میں کمپیوٹر آپ کے بچّے کے پرچے جانچ رہا ہے جس میں باوجود ہزار کوشش کے بھی سنگھ پریوار اس میں ہندو/مسلم داخل نہیں کر سکتے۔ آخری مرحلے میں انٹرویو میں ہم کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ انٹرویو کی یہ تیاریاں ہم ملک بھر میں جنگی پیمانے پر شروع کر سکتے ہیں، ہمارے بچّوں کے ٹیلنٹ، ہمارے نالج اور ہماری سوجھ بوجھ کا اعتراف فرقہ پرستوں پر مشتمل پینل کو بھی کرنا پڑے گا۔ دو روز قبل یو پی ایس سی کے نتائج ظاہر ہوئے جس کی رُو سے ۵۰؍ سے زائد مسلم طلبہ اُس میں کوالیفائی ہوئے۔ امّید افزابات تو ہے البتہ کامیاب طلبہ کا یہ تناسب بمشکل ۵؍فیصد ہے اور ہماری آبادی اس ملک میں ۱۴؍ فیصد ہے۔ سوِل سروسیز میں بھی کامیابی کا ہمارا تناسب ۱۴؍فیصد تک تو ہونا ہی چاہئے تھا۔ انٹرویو صرف ۲۷۵؍ مارکس کا ہے جس کے دوران ہماری داڑھی، ٹوپی یا حجاب نمایاں ہورہے ہیں جبکہ تحریری امتحان ۱۷۵۰؍مارکس کا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں ہمیں ۱۴۰۰؍ سے ۱۵۰۰؍ مارکس حاصل کرنے سے کس نے روکا ہے؟ حکومتیں کوئی بھی آئیں، جائیں، بیوروکریٹس ۳۰۔ ۴۰؍سال وہیں اپنے عہدوں پر بیٹھے رہتے ہیں۔ پالیسیاں وہی مرتّب کرتے ہیں۔ عمل کرنا، نہ کرنا، یا ٹال مٹول کرنا، اُن کی مرضی پر رہتا ہے۔ اسلئے اراکین پارلیمان میں اضافہ کرنے کے بجائے ہمیں اپنے بیوروکریٹس کی تعداد میں اضافہ ناگزیر ہوگیاہے۔ 
 (۴) اِن حالات میں سب سے اہم اور کلیدی کردار اب ہمارے اساتذہ کو ادا کرنا ہے، کیونکہ سنگھ پریواری انتہا پسندوں کا سب سے پہلے حملہ ہوگا نصابی کتابوں پر، اور اس حملے میں بلا شبہ انھیں ماسٹری حاصل ہے۔ آج سے لگ بھگ تین دہائی قبل ہم نے اس کا نظارہ گجرات میں دیکھا تھا کہ چھٹی جماعت کی تاریخ کی کتاب کا نام تھا: سمپورن مہا بھارت اور ساتویں جماعت کی تاریخ میں صرف مہابھارت کے اسباق پڑھائے جارہے تھے۔ 
 گزشتہ ایک دہا ئی سے یہ ٹولہ پورے ملک میں برسر اقتدار ہے اور ان کے دانشوروں کی تحقیق عروج پر ہے۔ اب تو وزراء کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ان کی ریسرچ پوری ہو چکی ہے جس کی رو سے مغل لٹیرے تھے، غزنوی، غوری، خلجی اور تغلق ظالم تھے۔ اب یہاں رول شروع ہوتا ہے ہمارے اساتذہ کا۔ جو بحالت مجبوری کتاب میں چھپا ہے وہ پڑھائیں، البتہ بچّوں کو حقیقی و سچّی تاریخ سے بھی واقف کرائیں۔ 
 اب یہاں سوال یہ پیدا ہو گا کہ جن سرکاری، نیم سرکاری یا نجی اسکولوں میں غیر مسلم طلبہ بھی پڑھتے ہیں وہاں ہمارے اساتذہ تاریخ کیسے پڑھائیں گے؟ یہاں ہمیں ایک ہی راستہ دکھائی دیتا ہے کہ اب ہمارے دینی مدارس کو میدان میں آنا ہے اور وہاں پر تاریخ مضمون لازمی طور پر پڑھایا جائے۔ دوسرا، تیسرا راستہ ہمارے پاس کوئی نہیں ہے۔ یہ معاملہ رہا تاریخ کا البتہ سنگھ پریواری تو اخلاقی اقدار کی تعلیم کو بھی بھگوا بنانے والے ہیں اس تعلق سے ہمیں زیادہ فکر نہیں ہے کہ کیونکہ اخلاقی اقدار کی تعلیم کیلئے ہمارے دینی مدارس کے نصاب سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہو سکتا کیوں کہ ہمارے دینی مدارس کی اساس ہی ہے اخلاقی اقدار۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK