Inquilab Logo

چائلڈ میریج: سماجی اصلاح کی ضرورت ہے

Updated: February 22, 2023, 9:05 PM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

یوں تو بھگوا چولا پہننے کے بعد ہر سیکولر لیڈر خود کو دوسروں سے زیادہ وفادار ثابت کرنے کیلئے مسلمانوں کے خلاف الزام تراشی اور زہر افشانی پر اتر آتا ہے لیکن آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنتا بِسواسرما نے اس معاملے میں تمام بھگوائی لیڈروں کو پیچھے چھوڑدیا ہے۔

assam
آسام

بی جے پی لیڈروں کے پاس الیکشن جیتنے کا ایک ہی آزمودہ حربہ ہے، مسلمانوں کو بدنام کرنا،برادران وطن میں ان کے خلاف نفرت پیدا کرکے ہندو ووٹ بینک مضبوط کرنا اور اقتدار پر قابض ہونا۔ یہ سلسلہ پارٹی کے پرانے اوتار جن سَنگھ کے زمانے سے چلا آرہاہے لیکن انہیں کامیابی ۱۹۸۴ء کے پارلیمانی الیکشن میں ذلت آمیز شکست کے برسوں بعد ملی۔ جس میں بی جے پی کو صرف ۲؍ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس وقت پارٹی صدر اٹل بہاری واجپئی تھے۔ شکست کے بعد ہائی کمان کے لئے تنظیمی سطح پر تبدیلیاں ناگزیر ہوگئی تھیں۔ چنانچہ ۱۹۸۶ء میں ایل کے اڈوانی کو صدر بنایا گیا۔ اڈوانی نے بابری مسجد ۔ رام مندر قضیہ کو دوبارہ زندہ کیا جو پارٹی کے لئے ترپ کا پتّہ ثابت ہوا۔ ۱۹۹۰ء میں اڈوانی نے رام رتھ یاترا نکال کر ہندو ووٹ بینک پر گرفت مضبوط کی لیکن دہلی ہنوز دَور تھی۔ ۱۹۹۲ء میں ایسی ہی ایک یاترا جب ۶؍ دسمبر کو ایودھیا پہنچی تو وہاں جو ہوا، اسے دنیا نے دیکھا۔ ہندو توا انتہا پسندوں نے لیڈروں کی موجودگی میں مسجد کو شہید کردیا۔ سب تماشائی بنے رہے۔ کسی نے کچھ نہیں کیا۔ یوپی میں بی جےپی کی حکومت تھی جس نے حلف نامے میں سپریم کورٹ کو یقین دلایا تھا کہ وہ مسجد کو نقصان نہیں پہنچنے دے گی، ایودھیا میں اسٹیج پر موجود لیڈروں کے چہروں پر فخر ومسرت کی چمک ان کی قلبی کیفیت کا مظہر تھی جبکہ مرکز میں نرسمہاراؤ کی کانگریسی حکومت کی بے حسی اور بے عملی اس کی منافقت کی غماز۔ مسجد کی شہادت پر ملک کے کئی حصوں میں فسادات پھوٹ پڑے جن میں سب سے زیادہ تباہی وہلاکت ممبئی کے حصے میں آئی۔
 ۲۰۰۱ ء میں گجرات کا وزیراعلیٰ بننے اور ۲۰۰۲ء کے مسلم کُش فسادات کے بعد جب مودی کے سرمیں وزیراعظم بننے کا سودا سمایا تو پہلا کام انہوںنے یہ کیا کہ الیکشن لڑنے کے لئے عمر کی قید لگاکر وزیراعظم بننے کے متمنی تمام سینئر اور معمر لیڈروں کا پتّہ کاٹ دیا اور کٹر ہندوتوا وادی لیڈر کی شبیہ بدلنے کے لئے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دیا۔ یہ اور بات ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد وہ ہندوتوا ایجنڈے پر لوٹ آئے۔ ۲۰۱۹ء کے الیکشن میں پلوامہ سانحہ کےجواب میں کی گئی سرجیکل اسٹرائیک نے ان کی اور بی جے پی کی کامیابی کا راستہ ہموار کیا، جس سے حکومت اور مودی کے اندھ بھکتوں کو مسلمانوں کے خلاف کُھل کھیلنے کا موقع ملا۔ آرٹیکل ۳۷۰؍ کی منسوخی نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، اسے مرکزی علاقہ اوریکبارگی دی جانے والی تین طلاقوںکو جرم قراردیا گیا۔ اسی طرح بی جے پی ریاستوں نے اپنے اپنے طورپر مسلم مخالف قوانین بنائے ۔گجرات اور یوپی کی طرح کرناٹک بھی تیزی سے ہندوتوا کی تجربہ گاہ بننے کے راستے پر گامزن ہے۔
  امسال نَوریاستوں میں اور اگلے سال ملک میں جنرل الیکشن ہونے والے ہیں اس لئے جو ں جوں الیکشن قریب آئیں گے مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کا سلسلہ دراز ہوتا جائے گا۔ کرناٹک اکائی کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ اس بار الیکشن ٹیپو سلطان بمقابلہ ساورکر کے نظریات پر لڑاجائیگا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ٹیپوسلطان کے حامیوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، انہیں ختم کردینا چاہئے۔ اس سے پہلے کئی دھرم سنسدوں میں سادھو سنتوں نے بھی مسلمانوں کے قتل عام کا فرمان جاری کیا ہے۔ بلڈوزر بابا یوگی نے سناتن دھرم کو ملک کا مذہب قراردیا، رام مندر کی طرح دیگر منادر کی بازیابی کا مطالبہ کیا اور دعویٰ کیا کہ ہندوستان واحد ملک ہے جہاں اقلیتیں سب سے زیادہ محفوظ ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ ان جیسے دریدہ دہنوں کا نوٹس سیکولر پارٹیوں نے لیا نہ عدلیہ نے۔ سیاستدانوں کی مجبوری سمجھ میں آتی ہے جو ہندو برادری کی ناراضگی کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتے لیکن عدلیہ کو کیا ہوا؟ ذیلی عدالتوں کا ذکر چھوڑیئے، سپریم کورٹ کی طرف سے بھی بعض ایسے فیصلے آئے ہیں جنہیں اجتماعی ضمیر کی تسکین کا نام دے کر انصاف کا گلا گھونٹا گیا ہے۔
 مسلم دشمنی میں اس وقت جو لیڈر دوسروں کے کان کترتا نظر آتا ہے، آسام کا وزیراعلیٰ ہیمنتا بِسواسرما ہے۔ وہ پہلے کانگریس میں تھا اور ۲۰۱۵ء میں بی جے پی میں شامل ہونے سے پہلے وہ ترون گوگوئی کی تین میعادی کانگریسی حکومت میں وزارت کے مزے لوٹ چکا تھا۔ ۲۰۱۶ء کے الیکشن میں اکثریت حاصل ہونے پر بی جے پی نے بطور انعام اسے وزیراعلیٰ کا عہدہ دیا جس پر وہ آج بھی فائز ہے۔ یوں تو بھگوا چولا پہننے کے بعد ہر سیکولر لیڈر خود کو دوسروں سے زیادہ وفادار ثابت کرنے کیلئے مسلمانوں کے خلاف الزام تراشی اور زہر افشانی پر اتر آتا ہے لیکن سرمانے اس معاملے میں تمام بھگوائی لیڈروں کو پیچھے چھوڑدیا ہے۔ یوگی کی دیکھا دیکھی اس کی گاج مدرسوں، برسوں پرانی غریب مسلم بستیوں، عمارتوں اور دکانوں پر گری جنہیں غیر قانونی بتاکر ڈھا دیاگیا۔ اس کا تازہ کارنامہ چائلڈ میریج یعنی ۱۴؍ سال سے کم عمر کی لڑکیوں سے شادی کرنے اور کرانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہے جس کے ذریعے اب تک سَوخواتین سمیت تین ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔آگا پیچھا سوچے سمجھے بغیر عاجلانہ اقدامات کا حشر عموماً وہی ہوتا ہے جو ۸؍ نومبر ۲۰۱۶ء میں نافذ کی گئی نوٹ بندی کا ہوا۔ نوٹ بندی اپنے اہداف حاصل کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہی لیکن قطار میں کھڑے سَوسے زائد افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ 
 چائلڈ میریج میں گرفتاریوں کا واحد مقصد مسلمانوں کو ہراساں و پریشان کرنا ہے۔ ہم بھی چائلڈ میریج کے خلاف ہیں ۔ اس کی روک تھام اس لئے ضروری ہے کہ یہ لڑکیوں کی فلاح وبہبود اور صحت کے لئے مضر ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ گھر والوں کی گرفتاری کے ڈر سے حاملہ لڑکیوں نے چیک اپ کیلئے اسپتالوں کا رُخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ایک ۱۸؍ سالہ خاتون کی گھر میں کی جانے والی ڈیلیوری میں زیادہ خون بہہ جانے سے موت ہوگئی جبکہ دوسری نے والدین کی گرفتاری کے ڈر سے خودکشی کرلی۔ یہی نہیں، خود ہی سوچئے جہاں شوہر واحد کمانے والا ہوتو اس کی گرفتاری سے اس کی فیملی، اس کے والدین اور دیگر ماتحتین پر کیا بیتے گی؟ ظاہر ہے ان باتوں کا سرما پر کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ اس کا مقصد سماجی اصلاح نہیں سماجی مقاطعہ ہے۔ اس کی ڈھٹائی اور بے غیرتی کا یہ عالم ہے کہ جب اس کی توجہ لوگوں کو ہونے والی تکالیف کی طرف دلائی گئی تو اس کا جواب تھا کہ برائی کو ختم کرنے کے لئے کسی ایک نسل کو تو قربانی دینی ہیہوگی۔n

assam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK