Inquilab Logo

آنکھیں موند لینے سے طوفان کا زور ختم نہیں ہوتا

Updated: October 06, 2022, 1:53 PM IST | Khalid Sheikh | Mumbai

حکومت اوراس کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ اور تنقید کرنے والوں کو جھوٹے الزامات کی بنا پر یواے پی اے کے تحت اندر کر دیاجاتا ہے جس میں ضمانت ملنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

 مودی نے وزیراعظم بننے کے لئے جب سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ بلند کیا توکئی مسلمانوں نے بھی انہیں ووٹ دیا۔ وزیراعظم بننے کے بعد جب انہوںنے خود کو پردھان سیوک بتایا تو اس کا بھی خیر مقدم کیا گیا۔ ان سب کے باوجود مودی ہندو ہردےسمراٹ ہی رہے، وکاس پتر اور پردھان سیوک نہ بن سکے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوا  جن کا  المیہ یہ ہے کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور ۲۰؍ کروڑ سے زائد آبادی کے باوجود آزادی کے۷۵؍رویں سال میں بھی وہ ہمہ جہت پسماندگی کا شکار ہیں ان کی بدحالی کا علم ہرکسی کو  ہےلیکن کسی حکومت نے اُسے دُور کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ہر پارٹی نے انہیں وعدوں پر ٹرخایا اور سیاسی فائدہ اٹھایا۔ یہی حال ان کے قائدین کا ہے۔ انہوں نے ایسا کوئی لائحہ عمل اختیار نہیں کیا جو مسلمانوں کی تعلیمی ، سماجی اور معاشی پسماندگی کا سدّ ِباب کرسکے۔ اپنے اور غیروں کے اس رویے کا فائدہ بی جے پی کو ملا۔ مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا ہّوا کھڑا کرکے اس کے  لیڈروں نے ہندوؤں کو ڈرایا کہ تم ا قلیت میں آجاؤ گے اور ہندو مذہب خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہی نہیں، ۲۰۰۱ء میں امریکی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد ملک میں ہوئی ہر تخریبی کارروائی کو مسلمانوں سے اس لئے نتّھی کیا جانے لگا کہ ہرمسلمان دہشت گرد نہ سہی ، ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے۔  ہندو توا وادیوں نے مسلم آبادی پر قابو پانے کا جو حل بتایا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ کسی نے ’ ہم دو ہمارے دو‘ کا نسخہ تجویز کیا توکسی نے ہندوؤں کو دس ، دس بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا۔ دھرم سنسدوں میں سادھو سنتوں نے ’ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ‘ کے تحت مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور قتل ِ عام کا نعرہ دیا۔ ایک لیڈر نے ہندوؤںکی ایک ریلی میں ’ شپت‘ دلائی کہ ملک کو ہندو راشٹر بنانے تک چین سےنہیں بیٹھیں گے بھلے ہی اس کیلئے مرنا پڑے یا مارنا پڑے۔ ایک سوامی جی نے میانمار کی طرح ہندوستان میں مسلمانوں کے نسلی صفایا کی بات کی اور پولیس ، فوج اور سیاستدانوں کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ اِن زہریلے بیانات سے نہ صرف آئین و  قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ یہ ملک کی سالمیت اور یکجہتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اشتعال پھیلانے کی مہم آزادی کے بعد سے جاری ہے لیکن مودی راج میں اس میں جو شدت آئی ، اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ آج پورا ملک ہندوتوا واودیوں کے نرغے میں ہے۔ وجہ ظاہر ہے جب سب کا ساتھ سب کا وکاس کا دعویٰ کرنے والے پردھان سیوک شمشان و قبرستان اور د یوالی و رمضان کی دہائی دینے لگیں اور احتجاج کرنے والوں کو ان کے کپڑوں سےپہچاننے لگیں، وزیر داخلہ دہلی الیکشن کے موقع پر ووٹروں سے ووٹنگ مشین کا بٹن اتنی زور سے دبانے کی تاکید کریں کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ میں بیٹھی مسلم خواتین کو لگے، جب مودی کے پہلے دَور کا ایک وزیر مملکت غداروں کو گولی مارنے کا پاٹھ پڑھائے اور اسے دوسرے دور میں ترقی دے کر کابینی وزیر بنا دیا  جائے ، جب دہشت گردی میں ملوث ایک ملزمہ کو پارلیمنٹ کا ممبر بنادیاجائے تویہ جاننے میں دیر نہیں لگتی کہ مودی اور ہندوتوا وادی ملک کو کہاں لے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے ان کا  اصلی مقصد ہندو راشٹر کا قیام ہے جس کی تیاری  ابھی سے شر وع کردی گئی ہے۔ ۲۲؍ستمبر کے مضمون میں ہم نے بتایا تھا کہ فر وری میں پریاگ راج کے ماگھ میلے میں ہوئی دھرم سنسد میں ہندو راشٹر کے قیام کی جو تجویز پاس کی گئی اس کے تحت ۳۰؍ ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی کو اس کے آئین کا مسودہ تیارکرنے کی ذمہ داری سونپی گئی  جس نے پہلی قسط کے طورپر ۳۲؍ صفحات کا مسودہ پیش کردیا ہے۔ مسودے میں جو باتیں درج کی گئی ہیں ،متوقع خطوط پر ہیں جن کی خاص شقیں یہ ہیں۔
  (۱) ۵۴۳؍ ممبرانِ پارلیمنٹ کا انتخاب’ ورن آشرم ‘ کی بنیاد پر ہوگا، (۲) مسلمانوں اور عیسا ئیوں کو ووٹنگ کے علاوہ دیگر شہریوں کے سارے حقوق حاصل ہوں گے اور (۳) پچھڑے اور پسماندہ طبقات کیلئے ریزرویشن کی سہولت نہیں ہوگی ۔ دیکھنا یہ ہے کہ بیل مُنڈھے چڑھے گی یا دم توڑ دے گی ۔ یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ مذہب کے نام  پر وجود میں آنے والی مملکتوں کا حشر دنیا دیکھ چکی ہے۔ دُور جانے کی ضرورت نہیں پاکستان اور افغانستان میں جو ہوا اور ہورہا ہے، جگ ظاہر ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جب کبھی ہندو راشٹر کا موضوع زیر بحث  آئے گا تو اس کے خلاف اٹھنے والی  سب سے بلند آواز   برادران وطن کی ہوگی جن کی اکثریت آج بھی سیکولر اورامن پسند ہے۔ اس سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ہندوراشٹر کے  قیام میں سب سے بڑا  روڑا  مسلمان ثابت ہوں گے ۔۲۰؍ کروڑ  سے زائد آبادی کو  ملک بدر کیاجاسکتا ہے نہ دریا بُرد،نہ ہی مسلمان  دوسرے درجے کا  شہری بننا پسند کرے گا کیونکہ آزادی کی جدوجہد   میں اس کے پُرکھوں کی  قربانیاں اور خون بھی شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت اور ہندوتوا وادی انہیں ستانے اور ہراساں کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ حکومت اوراس کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ  اور تنقید کرنے والوں کو جھوٹے الزامات کی بنا پر یواے پی اے کے تحت قید کردیاجاتا ہے جس میں ضمانت ملنے  میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ اگر رہائی ملتی بھی ہے تو جیل سے باہر آنا نصیب نہیں ہوتا کیونکہ ملزم کے خلاف لگائے گئے دوسرے الزامات  زیرالتوا ہوتے ہیں۔ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی نے فوری انصاف اور سزا کی ایک نئی روایت قائم کی ہے جس میں  عدالتی فیصلے کا انتظار اور نوٹس اور پیشگی اطلاع دیئے بغیر ملزمین کے مکانات اور عمارتوں کو غیر قا نونی بتاکر زمین بوس کر دیاجاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے قانون کے دائرے میں رہ کر کی جانے والی انہدامی کارروائی کی تائید کرکے ریاستوں کو کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ یوپی کی دیکھا دیکھی ایم پی اور دہلی کے جہانگیر پوری میں بھی یہی ہوا۔ ان دنوں  نوراتری کے موقع پر ملک بھر میں گر با پروگرام  کے لاکھوں پنڈال ہیں جن میں مسلمان بھی شر کت کرتےہیں لیکن اس بار اسے بھی ہندو مسلم رنگ دے دیا گیا ہے اور مسلمانوں کے داخلے پر  پابندی لگا دی گئی ہے ۔کہنے کی ضرورت نہیںکہ مسلم گھس پیٹھیوں کی پٹائی کرکے پولیس کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اس قسم کے واقعات کچھ بی جے پی  ریاستوں میں پیش آئے ہیں جن میں گجرات سرفہرست ہے۔   سوال یہ ہے کہ ان حالات میں  ہمارے قائدین اور تنظیمیں کیا کررہی ہیں؟  ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ آنکھیں موندلینے سے طوفان کا زور ختم نہیں ہوجاتا  ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK