Inquilab Logo

کورونا، اومیکرون اور چین کا طرز عمل

Updated: December 23, 2022, 10:31 AM IST | Mumbai

چین کی جانب سے کورونا کا خطرہ ایک بار پھر پوری دُنیا کو ہیجان میں مبتلا کررہا ہے۔ کورونا کی پہلی لہر کے دَور میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

چین کی جانب سے کورونا کا خطرہ ایک بار پھر پوری دُنیا کو ہیجان میں مبتلا کررہا ہے۔ کورونا کی پہلی لہر کے دَور میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ چین نے دُنیا کو اندھیرے میں رکھا کیونکہ خبروں کو دَبانا اس کا معمول ہے۔ کورونا کی خبریں خاص طور پر دبائی گئیں۔ مسئلہ تب پیدا ہوا جب بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ تب تک برازیل، اٹلی، امریکہ، ایران اور دیگر ممالک بدترین طریقے سے متاثر ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا تہ و بالا ہوگئی۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ تاریخ بن چکا ہے۔
  اب ایک بار پھر چین ہی کی جانب سے خطرہ پیدا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ویسا نہیں ہوسکتا جیسا کہ ۲۰۲۰ء کے اوائل میں ہوا تھا مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جو وائرس چین سے نکلا اور دُنیا بھر میں پھیلا، اُس کے تعلق سے چین کی گرفت کیوں نہیں کی گئی؟ یہ ذمہ داری اقوام متحدہ کی تھی جس سے سوال کیا جاسکتا تھا کہ اُس نے ابتدائی خبروں کو کیوں چھپایا ۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ تب سے لے کر اب تک کوئی نہیں جانتا کہ جو درمیانی وقت گزرا ہے اُس میں چین کے مختلف صوبے کورونا یا اس کی کسی بدلی ہوئی شکل سے پاک ہوگئے تھے یا متاثر ہی تھے۔ اس کا پتہ لگانا ضروری ہے کیونکہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو وقفے وقفے سے دُنیا پر کورونا کا خطرہ منڈلاتا رہے گا اور ہم اُس ملک کا کچھ نہیں کرپائے گا جو کورونا کے خطرہ کا مرکز بن گیا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ چین کورونا کیلئے ذمہ دار ہے مگر ہم یہ ضرور کہیں گے کہ چین خبروں کو چھپاتا کیوں ہے؟ اور اگر وہ ماضی میں بھی ایسا کرچکا ہے نیز حال میں بھی ایسا ہی کررہا ہے تو اس کیخلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟
  وائرس کے دوبارہ سر اُبھارنے کی حقیقت کو چھپانا اور بیماری کی سنگینی پر پردہ ڈالنا یہ دونوں بڑے گناہ ہیں۔ بیجنگ دونوں کا مرتکب ہے۔ اس نے کورونا سے نمٹنے کے جو طریقے اپنائے وہ بھی ناکافی تھے۔ سب سے زیادہ مسئلہ اُس کی ’’زیرو کووڈ پالیسی‘‘ ہےجس کے تحت سخت حفاظتی کارروائیاں کی گئیں مگر اس کا اُلٹا نتیجہ یہ نکلا کہ جن لوگوں کو ٹیکہ لگوا لینا چاہئے تھا وہ گھروں سے باہر ہی نہیں نکلے۔ اگر ان میں خاصی تعداد اُن لوگوں کی تھی جو وائرس سے متاثر تھے تو اُن کا جلد ٹیکہ لگوانا ضروری تھا۔ کیا یہی وجہ ہے کہ چین میں اب بھی صرف ۶۵؍ فیصد ضعیفوں نے دونوں ٹیکے لگوائے ہیں اور اس سے زیادہ لوگ نہیں لگوا سکے؟
 ستم یہ بھی ہے کہ چین نے جو ٹیکے (سینو فارم اور سینو ویک) اپنے شہریوں کو دیئے وہ اس کے اپنے تیار کئے ہوئے اور کم طاقت کے ہیں۔ تحقیقات کو راہ دی جائے تو پتہ چلے کہ کیا وہ چینی شہری بھی کورونا سے متاثر ہورہے ہیں جنہیں دو ڈوز لگ چکے تھے؟ شاید یہ کبھی نہ معلوم ہوسکے کیونکہ بیجنگ کا آمرانہ مزاج ہی ایسا ہے۔ اُس ملک سے سب کچھ برآمد ہوسکتا ہے خبریں باہر نہیں جاسکتیں۔ جاتی بھی ہیں تو وہی جو بھیجی جاتی ہیں۔حالیہ دنوں میں وہاں کی حکومت نے جو سخت لاک ڈاؤن لگایا اس سے عوام میں شدید ناراضگی ہے مگر احتجاج کی خبروں کو بھی دَبایا جارہا ہے۔گزشتہ دنوں ایک عمارت میں آگ لگنے سے ۱۰؍ لوگ اس لئے ہلاک ہوگئے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اُنہیں باہر نکلنے کا موقع نہیں ملا۔ اتنی بندشوں کے باوجود چین کورونا یا اومیکرون کو روکنے میں ناکام ہے تو اسے اپنی اسٹراٹیجی پر ازسرنو غور کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی دُنیا کو اُس سے پوچھنا چاہئے کہ وہ کورونا اور اس کے الگ الگ ویرینٹس سے نمٹنے کیلئے کیا کررہا ہے۔ یہ بات دریافت کرنا اس لئے ضروری ہے کہ یہ صرف چین کا مسئلہ نہیں بلکہ چین کی وجہ سے پوری دُنیا کا مسئلہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK