Inquilab Logo

انتخابی ریلیاں اور عوامی مسائل

Updated: April 02, 2024, 1:27 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اٹل بہاری واجپئی نے ایوان میں کہا تھا کہ سرکاریں آئینگی، جائینگی، پارٹیاں بنیں گی، ٹوٹیں گی مگر دیش باقی رہنا چاہئے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اٹل بہاری واجپئی نے ایوان میں کہا تھا کہ سرکاریں آئینگی، جائینگی، پارٹیاں بنیں گی، ٹوٹیں گی مگر دیش باقی رہنا چاہئے۔ یہ مشہور جملہ یوٹیوب کے ’’شارٹس‘‘ میں بھی سنا (اور دیکھا) جاسکتا ہے۔ چھوٹا منہ بڑی بات ہوگی مگر اس کی توسیع کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سرکاریں آئینگی، جائینگی، پارٹیاں بنیں گی، ٹوٹیں گی مگر دیش باقی رہنا چاہئے اور دیش تب باقی رہے گا جب عام آدمی کے مسائل کے حل کی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش ہوگی جس میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کا تعاون کرینگے۔ افسوس کہ ہمارے یہاں، جمہوریت کو حالیہ برسوں میں جو نقصان پہنچا ہے اُس میں وہ نقصان بھی شامل ہے جو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رشتوں کی تلخی سے ہوا ہے۔ روز بہ روز اِس تلخی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب چونکہ عام انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے اور انتخابی گہما گہمی بھی شروع ہوچکی ہے اس لئے سیاسی گلیاروں ہی میں نہیں، یہ تلخی عوامی جلسوں میں بھی محسوس کی جائیگی جو انتخابی ریلیوں کے عنوان سے، یکم جون سے پہلے پہلے تک، ملک بھر میں منعقد کی جائینگی۔ 
 جملہ بازیو ںاور بیان بازیوں کی وجہ سے سیاسی درجۂ حرارت تو کافی بڑھ جاتا ہے مگر عوامی مسائل پر توجہ مرکوز نہیں رہ پاتی۔ اس میں عوام کا بھی قصور ہے جن کا بڑا حصہ مسائل سے حواس باختہ ہونے کے باوجود جملوں اور بیانوں کی سونامی میں بہنے لگتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے بڑی ذمہ داری میڈیا کی ہے مگر اُس پر الزام دھر کر سماج کے وہ بااثر لوگ عوامی بیداری اور ذہن سازی کے اپنے فرض سے پہلو تہی نہیں کرسکتے جنہیں عوام میں بھلے بُرے کی تمیز پیدا کرنے اور یہ بتانے میں پیش پیش ہونا چاہئے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے اور کیا نہیں ہورہا ہے۔
  بلاشبہ ایسے لوگ ہیں مگر ان کی تعداد کم ہے۔ اُس سے بھی کم وہ لوگ ہیں جو صحیح  کو صحیح ماننے کے باوجود اُسے اپنے آس پاس کے لوگوں تک پہنچانے کی فکر نہیں کرتے۔ اب سے لے کر یکم جون تک آپ دیکھیں گے کہ حکمراں جماعت اور اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران جم کر تقریر کرینگے، بہتان طرازی کا سہارا لیں گے،  ایک دوسرے کو نیچا دکھائیں گےمگر اپنی ریلیوں کو ملک بھر کے حقیقی عوامی مسائل کے تئیں بیداری کا ذریعہ نہیں سمجھیں گے، ان کی تقریریں متعلقہ حلقہ ہائے لوک سبھا کے حالات کی مناسبت سے ہونگی۔ اس کے علاوہ ذکر ہوگا تو بے روزگاری اور مہنگائی یا مخصوص صنعتی گھرانوں کی منہ بھرائی کا۔ کوشش یہ ہوگی کہ اپوزیشن حکمراں جماعت کو اور حکمراں  جماعت اپوزیشن کو آئینہ دکھائے۔ بلاشبہ بے روزگاری اور مہنگائی اہم مسائل ہیں جو پورے ملک میں یکساں طور پر عوام کو متاثر کررہے ہیں مگر ان کے علاوہ کئی مسائل ایسے ہیں جو وقت کے ساتھ امراض کہنہ جیسے ہوگئے ہیں اور جن کا حل نہیں نکالا گیا تو ضروری کاموں کی انجام دہی کے بعد بھی خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوگا۔ مثلاً پانی کی قلت۔اِس وقت کرناٹک میں شدید قلت ِ آب سے عوامی پریشانی بڑھتی جارہی ہے۔ کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار کے بقول: ’’ریاست نے ایسی خشک سالی تین چار دہائیوں میں نہیں دیکھی۔‘‘ 
 قلت ِآب وہ مسئلہ ہے جس پر ملک کی کوئی ریاست نہیں کہہ سکتی کہ اس کے پاس وافر ذخیرہ ہے کیونکہ ناقابل انکار حقیقت یہ ہے کہ ملک میں دُنیا کی ۱۸؍ فیصد آبادی ہے اور دُنیا کے صرف ۴؍ فیصد آبی وسائل ملک کو میسر ہیں۔ مگر دیکھ لیجئے گا اس موضوع کو کوئی چھوئے گا بھی نہیں۔ اور یہ تو صرف ایک مثال ہے۔n  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK