Inquilab Logo

انتخابی جنگ: جانئے کیا ہے بی جے پی کا اسلحہ؟

Updated: April 08, 2024, 1:12 PM IST | P. Chidambaram

اتنا بھرپور اسلحہ اسلئے ہے کہ اقتدار برقرار رکھا جائے، اسلئے برقرار رکھا جائے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایک مخصوص ایجنڈا ہے جس کا کافی کام اب بھی نامکمل ہے۔ اس لئے ووٹرس کو متنبہ رہنا چاہئے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

بی جے پی کی جنگی پالیسیو ں کے متعلق انتباہ کن اطلاعات درست تھیں اور حزب اختلاف پارٹیاں بھانپ چکی تھیں کہ مستقبل قریب میں کیا ہوسکتا ہے لیکن سیاسی لیڈران اپنے مشیروں کے زیر اثر کوئی فیصلہ نہیں کرسکے۔ انتخابی جنگ کیلئے تیار فوج کو تمل ناڈو کے علاوہ کہیں اور نہیں بھیجا گیا۔ اس وقت مغربی بنگال میں انڈیا اتحاد کی تشکیل ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ بہار میں نتیش کمار نے انڈیا کی مثبت کوششوں میں خلل ڈالنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئے۔ مہاراشٹر میں سیٹوں کی تقسیم پر اتحادیوں کے درمیان بحث جاری ہے جبکہ بی جے پی اپوزیشن لیڈران کا شکار کرنے میں مصروف ہے۔ یوپی میں کانگریس اور ایس پی بظاہر متحد ہیں لیکن، درحقیقت ابھی تک میدان جنگ میں اُترے نہیں ہیں۔ دہلی اور جھارکھنڈ میں اپوزیشن معرکہ آرائی کیلئے تیار ہیں مگر ان کے اہم لیڈران گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیے گئے ہیں۔ صرف تمل ناڈو میں انڈیا اتحاد اور دیگر پارٹیوں میں گھمسان شروع ہوسکا ہے۔ 
 یہ ۲۹؍ ریاستوں میں سے ۷؍ کی کہانی ہے۔ دیگر ریاستوں مثلاً کرناٹک، تلنگانہ، گجرات، راجستھان، ہریانہ، ایم پی اور چھتیس گڑھ میں صرف کانگریس اور بی جے پی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ اس کے برعکس، ادیشہ اور آندھرا پردیش کی سیاست کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں پہلے سے لکھی اسکرپٹ کے مطابق کھیل ہوگا، اس لیے یہاں حقیقی جنگ کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ 
لوک سبھا انتخابات کیلئے بی جے پی مع سازو سامان اور اسلحہ تیار ہے۔ انتخابی بَونڈ کے غیر قانونی طریقہ کے ذریعہ حاصل شدہ ہزاروں کروڑ روپے، بی جے پی کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ انتخابی بَونڈ، جسے میں نے اپنے ایک مضمون میں قانونی رشوت قرار دیا تھا، کا سچ عوام پر آشکارہوچکاہے۔ ایسی متعدد مثالیں سامنے آئی ہیں جن میں کسی کمپنی پر چھاپہ مارا گیا یا کسی شخص کی تلاشی یا گرفتاری ہوئی، اس نے بانڈ خرید کر بی جے پی کو چندہ دیا، بی جے پی نے بَونڈ کو کیش کروایا اور یوں معاملہ رفع دفع ہوگیا یا ان کمپنیوں کو سرکاری معاہدوں یا لائسنس سے نواز دیا گیا۔ ان حقائق کی تصدیق انتخابی بَونڈز کی خریداری کی تاریخ سے کی جاسکتی ہے اور معمولی محنت سے آپ ان باتوں میں ربط ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اخبارات، ٹی وی اور بل بورڈز پر اشتہارات کی صورت میں انہی روپوں سے ایک عظیم جنگی دستہ گویا تعینات کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی، غیر ہموار راستہ کو ہموار کرنے کیلئے اپنا پورا زور لگا رہی ہے۔ 
انتخابی بَونڈز کے بعد’’آپریشن کنول‘‘ بی جے پی کا دوسرا سب سے بڑا سہارا ہے۔ یہ بی جے پی کا پیٹنٹ شدہ اور آزمودہ ہتھیار ہے جس کے تحت مخالف پارٹی کے لیڈران کو لالچ دے کر پارٹی سے منحرف کردیا جاتا ہے اور انہیں بی جے پی کا ٹکٹ دیا جاتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق بی جے پی اس دفعہ تقریباً ۴۰۰؍ اُمیدوار انتخابی میدان میں اتارے گی جن میں ۵۰؍ ایسے ہونگے جو کسی پارٹی سے منحرف ہوکر حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔ 
بی جے پی کے اسلحہ خانے کا ایک مہلک ہتھیار (اپوزیشن لیڈران کی) گرفتاری اور نظر بندی بھی ہے۔ فی الحال اس ہتھیار کا رخ دو وزرائے اعلیٰ، ایک نائب وزیر اعلیٰ، کئی ریاستی وزراء، وزرائے اعلیٰ کے خاندان کے افراد اور دیگر لیڈران اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لیڈران کی طرف ہے۔ فی الحال، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بی جے پی کے پاس ۳۸۳؍ ایم پی، ۱۴۸۱؍ ایم ایل اے اور ۱۶۳؍ ایم ایل سی ہیں۔ ان میں وہ لیڈران بھی شامل ہیں جن کا تعلق کسی دوسری پارٹی سے تھا لیکن انہیں منحرف کرکے بی جے پی کی دیوہیکل/دیو قامت واشنگ مشین میں ’وائٹ واش‘ کیا گیا اور وہ کرپشن سے بَری اور بے داغ ہو گئے۔ 
مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوں کے کام کاج میں خلل ڈالنے کیلئے ریاستی گورنر کا استعمال کررہی ہے۔ تمل ناڈو کے گورنر نے ریاستی اسمبلی میں ریاستی حکومت کی طرف سے تیار کردہ تقریر پڑھنے سے انکار کر دیا۔ ایک موقع پر وہ اسمبلی کی کارروائی سے واک آؤٹ کر گئے۔ حال ہی میں انہوں نے وزیر اعلیٰ کے `مشورہ کے باوجود مجوزہ شخص کو وزیر کی حیثیت سے حلف دلانے سے انکار کر دیا، دیگر ریاستوں مثلاً کیرلا، تمل ناڈو اور مغربی بنگال کے گورنر، وزرائے اعلیٰ کے ساتھ زبانی تکرار میں الجھے رہتے ہیں۔ تلنگانہ کی گورنر اور پڈوچیری کی لیفٹیننٹ گورنر کئی ماہ تک تمل ناڈو میں مقیم رہیں لیکن لوک سبھا انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے بعد انہوں نے دونوں عہدوں سے استعفیٰ دے دیا اور بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخابات لڑنے کا اعلان کردیا۔ کئی ریاستوں کے گورنر اسمبلی کے منظور کردہ بلوں کو بے مدت معلق رکھتے ہیں یا ان پر مہر لگانے سے انکار کر تے ہیں۔ ان واقعات کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات صرف اپوزیشن کی حکومت والی ریاستوں میں ہی ہورہے ہیں۔ 
بی جے پی کا ایک اور موثر ہتھیار ریاستی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ دہلی میں آل انڈیا سروس کے افسران اور نوکر شاہ، ریاستی وزیر اعلیٰ اور وزراء کے احکام ماننے سے صاف انکار کررہے ہیں۔ نتیجتاً ریاستی انتظامیہ معذور ہو گیا ہے۔ مرکز نے کیرلا اور مغربی بنگال کی ریاستی حکومتوں کی مالی امداد روک دی، مختلف شرائط کی خلاف ورزی کا حوالہ دے کر اپوزیشن کی حکومت والی ریاستوں کی قرض لینے کی حد کو کم کر دیا اور گزشتہ برس سیلاب سے نبرد آزما تمل ناڈو کو غیر واضح بنیادوں پر راحتی امداد دینے سے انکار کر دیا۔ علاوہ ازیں کسی ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کا تقرر یوپی ایس سی سے ہوتا ہے اسلئے ریاستوں میں مرکز کے وفادار افسروں کی تعداد بڑھ گئی ہے جو ریاستی اختیارات کو چیلنج کر رہے ہیں۔ 
قارئین جانتے ہیں کہ آر ایس ایس، بی جے پی کا اپنا ایجنڈا ہے۔ ایک ملک ایک انتخاب، یکساں سول کوڈ، شہریت ترمیمی قانون، حصول اراضی قانون میں ترامیم، کسان قوانین اور عبادت گاہ قانون ۱۹۹۲ء کی منسوخی جیسے کئی موضوعات بی جے پی کے ایجنڈا میں ہیں۔ آر ایس ایس لیڈران نے اس ایجنڈا کےنفاذ کیلئے طویل عرصہ انتظار کیا ہے اور اب ان کا اصرار ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں اکثریت سے جیت کر اسے نافذ کیا جائے۔ عوام کو سمجھنا ہوگا کہ بی جے پی کا تیسرا دورحکومت، آئین پر آخری اور سب سے کاری ضرب ہوسکتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK